رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ خبر ہے‘ ہمارے اڑوس پڑوس میں کیا ہو رہا ہے؟ ہم خبر بھی دیتے رہیں تو کون سنتا ہے؟ ہمارے موروثی سیاسی خاندانوں اور ان کے کاسہ لیسوں کو مسندِ اقتدار نے اسیر بنا رکھا ہے۔ یہ ایسی غلامی ہے جس سے صرف اہلِ دل و دانش ہی آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔ خوشامدیوں کے ٹولے‘ گروہ در گروہ ‘ نسل در نسل منہ کھولے آگے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں۔ عین اسی طرح جیسے گھوڑوں پہ سوار شہزادوں اور شہزادیوں کے گھوڑوں کی خاک چاٹتے پیادے۔ اب فرق یہ ہے کہ مٹی کے بادل محفوظ گاڑیاں اڑاتی ہیں اور وہ قافلے میں شامل دوسری گاڑیوں میں سوار منزل پر حاضری کی تمنا میں پیچھے پیچھے رہتے ہیں۔ مجھے تو ایسے لوگوں پر ترس آتا ہے کہ قدرت نے انہیں آزاد پیدا کیا مگر لالچ اور تمنائوں نے زرواقتدار کی بیڑیاں ان کے پائوں میں ڈال رکھی ہیں۔ ظاہر اور باطن میں تفریق کا شکار‘ مخصوص طے شدہ سچ کے لفظی نگہبان بنے نظر آتے ہیں۔ کپتان کی حکومت کیا آئی بس سب موروثی اور ان کے ہرکارے ہمہ تن‘ لنگوٹ کس کر میدان میں اترے ہوئے ہیں کہ گرا کر رہنا ہے۔ اس ماہ کے آخر تک گرانے کا مقصد لئے شہر شہر عوام کو پیغام دیا جا رہا ہے کہ جب تک عمران خان وزیر اعظم ہیں‘ ملک میں نہ جمہوریت‘ نہ آئین اور نہ اسمبلیوں کی کوئی دستوری اہمیت ہے۔ اب یہاں تضادات کا کیا ذکر کرنا کہ وہ سب اڑھائی سال سے پارلیمان میں‘ صوبائی ایوانوں میں رونق افروز ہیں اور ایک جماعت تیسری مرتبہ تسلسل کے ساتھ سندھ کے شاہی خاندان کے سائے میں حکومت کر رہی ہے۔ کپتان والے مانیں یا نہ مانیں‘ موجودہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں بہت کچھ کر سکتی ہیں۔ متبادل قانون یا پالیسی سازی نہیں‘ مگر عدم استحکام‘ لڑائی جھگڑے‘ تصادم اور غیر یقینی صورتحال تو پیدا کر سکتی ہے۔ اگر ابھی تک کچھ حاصل کیا ہے تو بس یہی ہے۔
وطنِ عزیز کے خلاف بہت سی اندرونی اور بیرونی طاقتیں عرصے سے کام کر رہی ہیں۔ ملک کے اندر تصادم اور نفسانفسی کا عالم ہو تو نرم‘ کمزور مقامات اور غیر محفوظ عام شہری اور سلامتی پہ مامور سرکاری اہلکاروں پر دشمن وار کرنا شروع کر دیتا ہے۔ چند دن پہلے دہشت گردوں نے کوئٹہ کے قریب گیارہ کان کنوں کو شہید کر ڈالا۔ اسی طرح گزشتہ چند ماہ میں بلوچستان اور افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں فوجی جوانوں پر حملے کئے گئے۔ بہت سے تانے بانے افغانستان کے کچھ دھڑوں اور وہاں کے ریاستی خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ بھارت سے ملتے ہیں۔ اپنے پیادوں کو تقویت دینے کیلئے وہ اکثر فائر بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہتے شہریوں اور فوجی جوانوں پر گولیاں برساتا رہتا ہے۔ میں ہرگز ہرگز پاکستان جمہوری تحریک کو ان تمام واقعات کا ذمہ دار نہیں قرار دے سکتا‘ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم اگر اندر سے متحد نہ رہے‘ کھوکھلے رہے‘ تو دشمن کیوں موقع سے فائدہ نہیں اٹھائے گا؟ چھ سال قبل جب دھرنے جاری تھے‘ دشمن نے پشاور میں ہمارے معصوم بچوں اور ان کے اساتذہ کرام کا قتلِ عام کیا تھا۔ ہماری تاریخ تو ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ مغربی پاکستان کی ایک جماعت اور اس کا عوامی رہنما اگر شراکت اقتدار پر ضد نہ کرتا‘ اور اس وقت کی حکومت میں کچھ سمجھ بوجھ ہوتی تو وہ حالات پیدا نہ ہوتے‘ جو مشرقی پاکستان میں پیدا ہوئے تھے۔ اس خانہ جنگی سے بھارت نے فائدہ اٹھایا‘ اور فوجی مداخلت کی۔ اس سے پہلے تو اسے کبھی جرأت نہ ہو سکی تھی۔
یہ الفاظ میں موروثی حکمرانوں اور ان کے حاشیہ برداروں کے لئے نہیں لکھ رہا‘ یہ صرف عام آدمی کے لئے ہیں۔ وہ تو بڑی حد تک سمجھتے ہیں کہ اس خطے کے ارد گرد کئی دہائیوں سے کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ کچھ کی جانب سے تو باہر کی طاقتوں کے ساتھ مل کر پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے حربے استعمال کئے جاتے رہے۔ ان میں سب تو نہیں‘ لیکن کچھ کے نام اور ان کے مخصوص ایلچیوں کے نام تاریخ کے درودیوار پر کندہ ہیں۔ افغانستان گزشتہ چالیس برسوں سے جنگوں کی زد میں ہے۔ بڑی طاقتیں جان چھوڑتی ہیں تو مقامی عسکری دھڑے میدان میں کود پڑتے ہیں۔ ایران کی حالت آپ کے سامنے ہے۔ کچھ اپنی مجبوریاں اور زیادہ تر مغربی طاقتوں کا گھیرائو‘ پابندیاں اور اسلامی حکومت کو گرانے کے بھیانک منصوبے۔ عراق امریکی مداخلت کے بعد سولہ سال گزرنے کے باوجود مستحکم نہیں ہو سکا۔ تین چار حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ شام نے تو خود کو تباہ کر ڈالا ہے۔ عرب دنیا کا غریب ترین ملک یمن آگ کے شعلوں میں جل رہا ہے۔ کوئی پوچھنے والا ہے‘ کوئی سوال اٹھا سکتا ہے کہ عراق اور یمن میں لاکھوں بچے بھوک سے مر رہے ہیں؟ ایک مغربی دانشور نے بادشاہت کی دائمیت کا ذمہ دار تیل کی دولت کو قرار دیا۔ میں اس وقت مشرقِ وسطیٰ کی خانہ جنگیوں کا ذمہ دار بھی تیل کی دولت میں بدمست علاقے کے حکمرانوں کو قرار دیتا ہوں۔
ان سب ریاستوں کا ذکر میں اس لئے کررہا ہوں کہ ہمارے خلاف سازش کرنے والوں کے منصوبے مختلف نہ تھے۔ اندر اور باہر والے ملے ہوئے تھے۔ سب سے بڑی اندرونی جنگ ہم نے ملک کے طول و عرض میں برسوں لڑی۔ ایک لاکھ جانیں قربان کیں‘ لیکن سرخرو رہے۔ یہ صرف ہماری بات نہیں‘ عرب ممالک کا ذکر میں نے کر دیا‘ تاریخ میں اور ہر جگہ ایک ملک میں خانہ جنگی ہوتی ہے تو دور دور تک ہمسائے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ کیا سب جانتے نہیں کہ افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ کی جنگوں کا کتنا ملبہ دہائیوں سے شدت پسندی اور فرقہ بندی کی صورت میں ہمارے معاشرے کو تباہ کرتا آ رہا ہے۔ میرے نزدیک‘ ہمارے ماضی اور حال کے حکمران گھرانے ملک‘ ریاست‘ معاشرہ اور عوام کی خدمت کی سوچ نہیں رکھتے‘ انہیں اقتدار چاہئے‘ جیبیں بھرنے اور خیانت کاری کیلئے۔ اس وقت بھی معاملہ جمہوریت نہیں‘ معاملہ اقتدار کی خوفناک جنگ‘ ذاتی دشمنی کا ہے۔
کس کو بتائیں کہ جمہوریت تسلسل کے ساتھ بڑھتی ہے۔ استحکام اور معاشی ترقی سے وہ عوامل پیدا ہوتے ہیں‘ جو اس کی آبیاری کرتے ہیں۔ ایک اور اہم اور دنیاوی بات گوش گزار کرنا چاہتا ہوں‘ جن ملکوں نے جمہوریت‘ آمریت‘ بادشاہت اور یک جماعتی نظام سے ترقی کی کئی منزلیں طے کی ہیں‘ وہاں حکمران طبقات میں ہم آہنگی‘ اتفاق اور صلح صفائی کے ساتھ بقائے باہمی کے اصول پر چلنا لازم ٹھہرا۔ چین‘ جنوبی کوریا اور سنگا پور میں جمہوریت نہ تھی‘ شخصی اور یک جماعتی نظام تھا‘ مگر ترقی ممکن ہوئی۔ انڈونیشیا‘ ملائیشیا اور تھائی لینڈ میں دونوں عوامل کارفرما تھے‘ جمہوریت اور ہم آہنگی۔ وجہ یہ ہے کہ استحکام‘ تسلسل اور پُرامن انتقالِ اقتدار ترقی کی شاہراہ پر چلنے کے بنیادی اصول ہیں۔ ہم نے بہت وقت ضائع کیا‘ بہت ٹھوکریں کھائیں‘ ترقیٔ معکوس کا شکار رہے‘ لیکن ذاتی انا‘ باہمی دشمنیوں اور سیاسی حریف کو خاک چٹانے کی خواہش برقرار نظر آتی ہے۔ تاریخ سے نہیں سیکھیں گے تو تیلی کے بیل کی طرح بیلنے کے گرد چکر ہی لگاتے رہیں گے۔
گزشتہ اٹھارہ برسوں میں چار مرتبہ پُرامن انتقالِ اقتدار ہو چکے ہیں‘ ایک اعلیٰ روایت پڑ چکی ہے‘ مگر ہر دفعہ کوشش کی گئی کہ منتخب حکومت کو چلنے نہیں دینا۔ مزاحمت کے باوجود‘ خوشی کی بات یہ ہے کہ سب حکومتیں چلیں۔ ایوانوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی۔ اس جمہوری روایت کو پختہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جس قسم کی سیاسی فضا اس وقت ہمارے ملک میں قائم ہو چکی ہے‘ فرشتے بھی آ کر شفاف انتخابات کرا دیں‘ ہارنے والی جماعت اور جماعتوں نے دھاندلی کا شور مچانا ہے۔ گیارہ انتخابات ہو چکے ہیں۔ کسی ایک کے بارے میں کوئی بتا دے‘ جس کے نتائج کو کھلے دل اور صاف نیت کے ساتھ جائز اور منصفانہ تسلیم کیا گیا ہو؟ یہ نعرہ فرسودہ ہو چکا ہے‘ آگے چلیں‘ جمہوریت کو چلنے دیں!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر