نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’اس گلی سے ہی شروع رسمِ بغاوت ہوگی‘‘۔۔۔حیدر جاوید سید

لیہ کی شہرت کے بہت سارے حوالے ہیں روحانیت کی دنیا کے دو حوالے بالائی سطور میں عرض کرچکا۔ ایک معتبر حوالہ ڈاکٹر خیال امروہوی مرحوم بھی ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرکار مخدوم سید علی راجن نقوی البخاریؒ کی خانقاہ پر حاضری کی دیرینہ خواہش گزشتہ سپہر پوری ہوہی گئی۔ سیدی مخدوم احمد کبیر نقوی البخاریؒ کے پوتے سید علی راجنؒڑ پیر اور مخدوم راجنڑ کے نام سے بھی شہرت رکھتے ہیں۔
سیدیؒ اور کروڑ لعل عیسن میں جناب مخدوم لعل عیسن قریشیؒ کی خانقاہوں پر حاضری کا احوال اگلے کالموں پر اٹھارکھتے ہیں۔
فی الوقت فقط احوال لیہ، سئیں ڈاکٹر مزمل حسین اور ڈاکٹر اشو لال سے ملاقات نہ ہوسکنے کا ملال ہے۔ بس وقت کم اور مقابلہ سخت والا معاملہ تھا۔
لیہ سرائیکی وسیب کا ’’سجاک‘‘ شہر ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت عصری شعور کی دولت سے مالامال ہے۔ روشن فکر ترقی پسند نوجوان تعصبات سے محفوظ سخت گیر ملائیت کے مقابل ڈٹے ہوئے ہیں جو باقی معاملات سلجھاچکی اب شاعروں کے کلام میں اتر کر کفروشرک تلاش کرتی ہے۔
قیام لیہ کے دوران سید تحسین شاہ نقوی،برادرم قوی شاہ، ایم آر ملک، ضیاء انڑجانڑ سرائیکی، رانا کامران شوکت، شاعر ایم بی راشد، سید راجن شاہؒ کے سجادہ نشین خانوادے کے مخدوم سید انصر عباس بخاری اور مخدوم لعل عیسنؒ قریشی کے گدی نشین پیر عادل شاہ سے نشستیں رہیں
اس دوران شیخ منیر غنی، تنویر خان، ظفر عدم، محسن عدیل چودھری، فیصل الٰہی سے بھی ملاقات ہوئی۔ فیصل اپنے برادر بزرگ فرقان الٰہی ایڈووکیٹ کی نمائندگی کرتے ہوئے فقیر راحموں کے لئے خصوصی تحفہ لائے تھے۔
لگ بھگ 30گھنٹوں پر پھیلے اس سفر کے مختلف پڑاو اور قیام و نشستوں کے دوران نوجوان لیکن جگ مشہور شاعر اور کالم نگار رانا عبدالرب قدم قدم پر سایہ بن کر ساتھ رہے۔ ان کے ساتھ نے مسافر کو انگنت مشکلات سے محفوظ رکھا۔
لیہ کی شہرت کے بہت سارے حوالے ہیں روحانیت کی دنیا کے دو حوالے بالائی سطور میں عرض کرچکا۔ ایک معتبر حوالہ ڈاکٹر خیال امروہوی مرحوم بھی ہیں۔
بٹوارے کے طوفان کا مقابلہ کرتے ہوئے خیال امروہوی لیہ پہنچے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے۔
ترقی پسند فہم کے اجلے اور فہمیدہ دانشور نے اپنے علم اور دانش کے چراغ جلائے ان کے علم اور دانش سے کئی نسلوں نے استفادہ کیا۔
خیال امروہوی اگر لیہ کی بجائے کسی بڑے شہر میں بستے تو ان کی دانش اور ہمہ جہت شخصیت کی گونج چہار دانگ عالم میں سنائی دیتی پھر بھی ترقی پسند تحریک اور علمی دنیا کے طلباء اور محققین کے لئے بہت مشکل ہوگا کہ انہیں نظرانداز کرکے آگے بڑھیں۔
ڈاکٹر افتخار بیگ اور اشو لال بھی لیہ کا خوبصورت تعارف ہیں۔ خانقاہوں میں آرام فرماتے بزرگوں اور اہل دانش کے بعد لیہ کی نئی نسل کے شاعروں، ادیبوں اور علم دوست نوجوانوں نے بھی اپنی جنم بھومی کی عزت و وقار میں اضافہ کیا۔
ایم بی راشد محنت کش ہیں، سرائیکی میں شاعری کرتے ہیں۔ لازم تو نہیں کہ محنت کش شاعر نہیں ہوسکتا۔ کہتے ہیں
کل راشد آپ کو بہوں گولیم
میں کائنم سارا توں ہانویں
راشد میں نے کل خود کو بہت تلاش کیا لیکن میں تو تھا ہی نہیں بس تم ہی تم تھے۔
ضیاء انجان سرائیکی کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنا نام بھی سرائیکی میں لکھتے ہیں ’’ضیا انڑجانڑ سرائیکی‘‘ ضیاء کہتے ہیں
ہتھ قلم چاکے جیونڑاں سکھیئے
ہتھ نئیں جوڑے مجال دے کیتے
ہم نے قلم اٹھاکر جینا سکھا، ہاتھ جوڑ کر تابعداری کی بجائے۔
لیہ کی اس زرخیزی کی کچھ وجوہات بالائی سطور میں عرض کرچکا ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس زرخیزی یا یوں کہہ لیجئے فکری شعور کی ایک وجہ وہ ترقی پسند مزدور رہنما اور اساتذہ کرام بھی تھے جنہوں نے مشکل ترین حالات میں بھی لوگوںکو منظم و متحرک کرنے اور ان کی فکری رہنمائی سے منہ نہیں موڑا، اس میں گراں قدر حصہ بہرطور ڈاکٹر خیال امروہوی کا ہے۔
رضا کاظمی بھی لیہ کا ایک معروف حوالہ ہیں صاحب مطالعہ لیکن کم گو مگر اپنی شعری بُنت کی وجہ سے علمی و ادبی حلقوں میں معروف ہیں۔
لیہ سے باہر ان کے قصبے پہاڑ پور میں واپسی کے سفر کے دوران گھنٹہ بھر تک ان سے خوب نشست جمی۔
’’مشعلِ جان‘‘ ان کا شعری مجموعہ ہے، کہتے ہیں:
اس گلی سے ہی شروع رسمِ بغاوت ہوگی
جس گلی میں لبِ اظہار پہ تالا ہو گا
ان کے شعری مجموعہ کے تعارفی صفحات پر ڈاکٹر مزمل حسین، ڈاکٹر انوار احمد اور ڈاکٹر افتخار بیگ کی تحریریں ان کی فنی پختگی کا زندہ ثبوت ہیں۔
رہے نوجوان شاعر اور کالم نگار برادرِ عزیز رانا عبدالرب تو یہ آپ اپنا تعارف ہیں کچھ ہی دنوں میں اسلام آباد سدھار رہے ہیں کہ نمل یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لئے داخلہ ہوگیا ہے۔
ان کے دو شعر واہگہ کے دونوں اور کے ساتھ دنیا بھر کے اردو دانوں میں بہت مقبول ہوئے۔
ہمارے محب مکرم سیدی عارف امام تو امریکہ میں بیٹھ کر ان کی شاعری کو زندہ شاعری کہتے ہیں، رانا عبدالرب کہتے ہیں:
جنگ اگر چھڑ گئی خداوں میں
صرف مخلوق ماری جائے گی
پہلے اندر کو پرکھا جائے گا
پھر محبت اتاری جائے گی

یہ بھی پڑھیں:

About The Author