مئی 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہزارہ نسل کشی، پسِ منظر کیا ہے؟۔۔۔حیدر جاوید سید

ہزارہ نسل کشی، پسِ منظر کیا ہے؟ حیدر جاوید سید کوئٹہ کی ہزارہ شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے 11کان کنوں کو مچھ بلوچستان میں گزشتہ سے پیوستہ شب ان کےرہائشی کمروں سے اغوا کرنے کے بعد قریبی مکان میں دہشت گردوں نے جس بے رحمی سے ذبح کیا اس پر ہر صاحب دل خون کے آنسو رورہا ہے۔ دہشت گردوں نے مقتولین کو پہلے شناخت کرکے دیگر کان کنوں سے الگ کیا بعدازاں انہیں ہمراہ لے گئے۔ شناخت اور قتل کرنے کے طریقہ کار سے معلومات تک عمومی رسائی رکھنے والے ہر شخص کو علم ہوگیاکہ قاتل کون ہے اور مقتول کون۔ کوئٹہ کی ہزارہ شیعہ برادری پر پہلی بارقیامت نہیں ٹوٹی، عقیدے اور نسلی شناخت کی بنا پر ہزارہ برادری ہمیشہ دہشت گردوں کا آسان ہدف رہی۔ پچھلے 30/35 سالوں کے دوران ہزارہ نسل کشی کے واقعات میں ایک ہزار سے زائد افراد قتل اور ساڑھے تین ہزار سے زائد زخمی ہوچکے۔ ٹارگٹ کلنگ، خودکش حملوں، شناخت پر موت کا رزق بننا ہزارہ شیعوں کے لئے روز کا معمول بن چکا۔ اگلے روز کوئلے کی کانوں میں محنت مشقت کرنے والے گیارہ کان کنوں کے سفاکانہ قتل کے بعد اپنی روایتی بودی تاویلات سے آسمان اٹھائے ہوئے اہلکاروں اور دیگر میں اگر سچ بولنے کا حوصلہ نہیں تو بھونڈی تاویلات کا نمک چھڑکنے سے گریزکیا جاسکتا تھا۔ یہاں ساعت بھر کے لئے رک کر اس بات پر ضٗرور غور کیجئے کہ اتوار کی شام داعش خراسان نے دہشت گردی کی اس واردات کی جو ویڈیو جاری کی وہ اتوار کی صبح سے مختلف برانڈ کے چورن فروخت کرنے والوں کے منہ پر زوردار تھپڑ ہے۔ داعش خراسان نے نہ صرف اس واردات کی ذمہ داری قبول کی بلکہ اسکے ساتھ مستقبل کے حوالے سے جن اہداف کا ذکر کیا اس کے بعد اتوار کی صبح سے بی ایل ایف اور بھارتی کارروائی کامنورنجن فروخت کرنے والوںکو اپنے گریبان میں ضرور جھانک لیناچاہیے۔ داعش خراسان کی محفوظ پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں۔ داعش میں بھارتی مسلمانوں کی موجودگی بھارت سے وسائل کی فراہمی بارے ان سطور میں قبل ازیں تفصیل کے ساتھ عرض کرچکا۔ ہم اس بنیادی حقیقت کو نظرانداز نہیں کرسکتے کے داعش کے جنگجوئوں کو عراق اور شام سے محفوظ راستے سے افغانستان پہنچانے والے امریکہ کو کس ملک کا تعاون حاصل تھااور سال18 /2017 میں ان جنگجوئوں کو لے کر بٹگرام کے فوجی ایئرپورٹ پر اترنے والے جہازوں نے پرواز کس ملک کے سرحدی ایئرپورٹ سے بھری تھی۔ داعش خراسان کے ظہور کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کا بڑا گروپ کمانڈر سعید کی قیادت میں اس میں شامل ہوا۔ حرکت الانصار، جنداللہ، لشکر جھنگوئی ماسٹر اعجاز گروپ۔ لشکر جھنگوئی العالمی نے خود کو اس میں ضم کرلیا جبکہ چند سال قبل مظفر گڑھ کے قریب پولیس مقابلہ میں مارے گئے ملک اسحاق کے لشکر جھنگوئی گروپ نے پاکستان میں داعش کے ساتھ مل کر کارروائیاں کرنے پر اتفاق کرلیا تھا۔ داعش اور لشکر جھنگوی (بسرا اسحق گروپ) کے درمیان معاہدہ کا انکشاف شام میں گرفتار ہونے والے لشکر جھنگوئی کے امجد فاروق معاویہ نے کیا تھا۔ اس وقت شامی حکومت نے دفتر خارجہ کی معرفت امجد فاروق معاویہ کے اعترافی بیان کی آڈیو وڈیو کیسٹیں پاکستانی حکام کو فراہم کیں۔ کوئٹہ میں لشکر جھنگوئی کے سہولت کاروں اور محفوظ مقامات فراہم کرنے والوں کے بارے میں معلومات تقریباً ہر ادارے کے پاس ہیں۔ اداروں کو یہ بھی خبر ہے کہ داعش اور لشکر جھنگوئی کے درمیان مل کر اہداف کے حصول کے لئے کوئٹہ میں مذاکرات کس مقام پر اور کس کی میزبانی میں ہوئے۔ 2013ء میں اس معاہدہ کے بعد ہی لشکر جھنگوی اور طالبان کمانڈر سعید خان کے گروپ نے ڈیرہ اسماعیل خان سنٹرل جیل پر حملہ کرکے ٹی ٹی پی اور لشکر جھنگوئی کے دہشت گردوں کو رہا کروایا تھا۔ امجد فاروق معاویہ بھی جیل سے فرار ہونے والے دہشت گردوں میں شامل تھا (یہ بعدازاں شام میں گرفتار ہوا ) تفصیل کے ساتھ اس پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب مچھ بلوچستان میں شناخت پر اغوا کے بعد درندگی سے ذبح کئے جانے والے ہزارہ شیعہ برادری کے 11افراد کے قتل میں وہی قوت ملوث ہے جو قبل ازیں نہ صرف کارروائیاں کرتی رہی بلکہ ایک موقع پر لشکر جھنگوئی کے بلوچستان کے سربراہ رمضان مینگل نے کوئٹہ کے جلسہ عام میں تقریر کے دوران ہزارہ شیعہ برادری کے مقتولین کی سینچری بنانے کی ’’سعادت‘‘ حاصل کرنے کا اعتراف بھی کیا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ دہشت گردوں، ان کے سرپرستوں اور مددگاروں سے صاف سیدھے انداز میں آگاہ ہونے کے باوجود مختلف اقسام کے منورنجن بیچ کر قوم کو گمراہ کرتے ہیں۔ غالباً یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ حقائق کے برعکس تاویلات گھڑ کر ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرتے ہیں۔ یہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہے۔ سانحہ مچھ کے مقتولین کے اغوا اور ذبح کئے جانے کے انداز کو ہی دیکھ لیئے، شام اور عراق کے علاوہ داعش نے افغانستان میں بھی اسی طرح کی درندگی کا مظاہرہ کیا۔ یہاں اہم ترین سوال یہ ہے کہ مچھ میں ہونے والی دہشت گردی میں داعش کے مقامی لوگ شامل ہیں یا افغانستان سے مچھ پہنچے؟ اس سوال سے آنکھیں چرانے کی بجائے زمینی حقائق کی روشنی میں تحقیقات کرکے قاتلوں کے سرپرستوں کے دروازے پر لے جاکر کھڑا کرسکتی ہے۔ بہت احترام کے ساتھ مکرر عرض ہے کہ بودی تاویلات سے مقتولین کے زخموں پر نمک پاشی کی بجائے سنجیدگی کے ساتھ تحقیقات کا ڈول ڈالیئے اور ہزارہ شیعہ نسل کشی کے ذمہ داروں، سہولت کاروں ہر دو کو کیفر کردار تک پہنچایئے، یہی آپ کا فرض ہے اور لوگ بھی یہی چاہتے ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئٹہ کی ہزارہ شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے 11کان کنوں کو مچھ بلوچستان میں گزشتہ سے پیوستہ شب ان کےرہائشی کمروں سے اغوا کرنے کے بعد قریبی مکان میں دہشت گردوں نے جس بے رحمی سے ذبح کیا اس پر ہر صاحب دل خون کے آنسو رورہا ہے۔
دہشت گردوں نے مقتولین کو پہلے شناخت کرکے دیگر کان کنوں سے الگ کیا بعدازاں انہیں ہمراہ لے گئے۔ شناخت اور قتل کرنے کے طریقہ کار سے معلومات تک عمومی رسائی رکھنے والے ہر شخص کو علم ہوگیاکہ قاتل کون ہے اور مقتول کون۔
کوئٹہ کی ہزارہ شیعہ برادری پر پہلی بارقیامت نہیں ٹوٹی، عقیدے اور نسلی شناخت کی بنا پر ہزارہ برادری ہمیشہ دہشت گردوں کا آسان ہدف رہی۔ پچھلے 30/35 سالوں کے دوران ہزارہ نسل کشی کے واقعات میں ایک ہزار سے زائد افراد قتل اور ساڑھے تین ہزار سے زائد زخمی ہوچکے۔
ٹارگٹ کلنگ، خودکش حملوں، شناخت پر موت کا رزق بننا ہزارہ شیعوں کے لئے روز کا معمول بن چکا۔ اگلے روز کوئلے کی کانوں میں محنت مشقت کرنے والے گیارہ کان کنوں کے سفاکانہ قتل کے بعد اپنی روایتی بودی تاویلات سے آسمان اٹھائے ہوئے اہلکاروں اور دیگر میں اگر سچ بولنے کا حوصلہ نہیں تو بھونڈی تاویلات کا نمک چھڑکنے سے گریزکیا جاسکتا تھا۔
یہاں ساعت بھر کے لئے رک کر اس بات پر ضٗرور غور کیجئے کہ اتوار کی شام داعش خراسان نے دہشت گردی کی اس واردات کی جو ویڈیو جاری کی وہ اتوار کی صبح سے مختلف برانڈ کے چورن فروخت کرنے والوں کے منہ پر زوردار تھپڑ ہے۔
داعش خراسان نے نہ صرف اس واردات کی ذمہ داری قبول کی بلکہ اسکے ساتھ مستقبل کے حوالے سے جن اہداف کا ذکر کیا اس کے بعد اتوار کی صبح سے بی ایل ایف اور بھارتی کارروائی کامنورنجن فروخت کرنے والوںکو اپنے گریبان میں ضرور جھانک لیناچاہیے۔
داعش خراسان کی محفوظ پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں۔ داعش میں بھارتی مسلمانوں کی موجودگی بھارت سے وسائل کی فراہمی بارے ان سطور میں قبل ازیں تفصیل کے ساتھ عرض کرچکا۔
ہم اس بنیادی حقیقت کو نظرانداز نہیں کرسکتے کے داعش کے جنگجوئوں کو عراق اور شام سے محفوظ راستے سے افغانستان پہنچانے والے امریکہ کو کس ملک کا تعاون حاصل تھااور سال18 /2017 میں ان جنگجوئوں کو لے کر بٹگرام کے فوجی ایئرپورٹ پر اترنے والے جہازوں نے پرواز کس ملک کے سرحدی ایئرپورٹ سے بھری تھی۔
داعش خراسان کے ظہور کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کا بڑا گروپ کمانڈر سعید کی قیادت میں اس میں شامل ہوا۔ حرکت الانصار، جنداللہ، لشکر جھنگوئی ماسٹر اعجاز گروپ۔ لشکر جھنگوئی العالمی نے خود کو اس میں ضم کرلیا
جبکہ چند سال قبل مظفر گڑھ کے قریب پولیس مقابلہ میں مارے گئے ملک اسحاق کے لشکر جھنگوئی گروپ نے پاکستان میں داعش کے ساتھ مل کر کارروائیاں کرنے پر اتفاق کرلیا تھا۔
داعش اور لشکر جھنگوی (بسرا اسحق گروپ) کے درمیان معاہدہ کا انکشاف شام میں گرفتار ہونے والے لشکر جھنگوئی کے امجد فاروق معاویہ نے کیا تھا۔
اس وقت شامی حکومت نے دفتر خارجہ کی معرفت امجد فاروق معاویہ کے اعترافی بیان کی آڈیو وڈیو کیسٹیں پاکستانی حکام کو فراہم کیں۔
کوئٹہ میں لشکر جھنگوئی کے سہولت کاروں اور محفوظ مقامات فراہم کرنے والوں کے بارے میں معلومات تقریباً ہر ادارے کے پاس ہیں۔ اداروں کو یہ بھی خبر ہے کہ داعش اور لشکر جھنگوئی کے درمیان مل کر اہداف کے حصول کے لئے کوئٹہ میں مذاکرات کس مقام پر اور کس کی میزبانی میں ہوئے۔
2013ء میں اس معاہدہ کے بعد ہی لشکر جھنگوی اور طالبان کمانڈر سعید خان کے گروپ نے ڈیرہ اسماعیل خان سنٹرل جیل پر حملہ کرکے ٹی ٹی پی اور لشکر جھنگوئی کے دہشت گردوں کو رہا کروایا تھا۔
امجد فاروق معاویہ بھی جیل سے فرار ہونے والے دہشت گردوں میں شامل تھا (یہ بعدازاں شام میں گرفتار ہوا ) تفصیل کے ساتھ اس پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب مچھ بلوچستان میں شناخت پر اغوا کے بعد درندگی سے ذبح کئے جانے والے ہزارہ شیعہ برادری کے 11افراد کے قتل میں وہی قوت ملوث ہے جو قبل ازیں نہ صرف کارروائیاں کرتی رہی بلکہ ایک موقع پر لشکر جھنگوئی کے بلوچستان کے سربراہ رمضان مینگل نے کوئٹہ کے جلسہ عام میں تقریر کے دوران ہزارہ شیعہ برادری کے مقتولین کی سینچری بنانے کی ’’سعادت‘‘ حاصل کرنے کا اعتراف بھی کیا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ دہشت گردوں، ان کے سرپرستوں اور مددگاروں سے صاف سیدھے انداز میں آگاہ ہونے کے باوجود مختلف اقسام کے منورنجن بیچ کر قوم کو گمراہ کرتے ہیں۔
غالباً یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ حقائق کے برعکس تاویلات گھڑ کر ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرتے ہیں۔ یہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہے۔
سانحہ مچھ کے مقتولین کے اغوا اور ذبح کئے جانے کے انداز کو ہی دیکھ لیئے، شام اور عراق کے علاوہ داعش نے افغانستان میں بھی اسی طرح کی درندگی کا مظاہرہ کیا۔ یہاں اہم ترین سوال یہ ہے کہ مچھ میں ہونے والی دہشت گردی میں داعش کے مقامی لوگ شامل ہیں یا افغانستان سے مچھ پہنچے؟
اس سوال سے آنکھیں چرانے کی بجائے زمینی حقائق کی روشنی میں تحقیقات کرکے قاتلوں کے سرپرستوں کے دروازے پر لے جاکر کھڑا کرسکتی ہے۔
بہت احترام کے ساتھ مکرر عرض ہے کہ بودی تاویلات سے مقتولین کے زخموں پر نمک پاشی کی بجائے سنجیدگی کے ساتھ تحقیقات کا ڈول ڈالیئے اور ہزارہ شیعہ نسل کشی کے ذمہ داروں، سہولت کاروں ہر دو کو کیفر کردار تک پہنچایئے، یہی آپ کا فرض ہے اور لوگ بھی یہی چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: