ملک خلیل الرحمن واسنی ،حاجی پور شریف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضلع راجن پور جوکہ پنجاب کا آخری ضلع ہے اور ضلع بننے سے آج تک چند خاندان جوکہ باپ دادا کے دور سے آج انکی اولادیں اور مستقبل میں اولادوں کی اولادیں ممبران اسمبلی کی حیثیت سے سامنے آئیں گی جنکا رہنا سہنا اٹھنا بیٹھنا صحت تعلیم گویا سب کچھ لاہور ، اسلام آباد ، کراچی میں مگر بدقسمتی سے یہاں کے باسی یہاں کے مکین آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں
اور یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں محرومیاں اور استحصال تو یہاں کا مقدر ہیں مگر یونیورسٹی کاقیام،ماڑی کیڈٹ کالج،سیاحت کےفروغ کے لئے اقدامات،قاتل خونی روڈ کا دو رویہ ون وے ہونا ،جام پور ضلع،داجل کینال سالانہ،مڑنج ڈیم کی تعمیر ،سوئی گیس کی فراہمی ، پینے کے پاک صاف میٹھے پانی کی فراہمی کلین اینڈ گرین راجن پورو دیگر بنیادی اہم اور فوری حل طلب توجہ طلب مسائل اپنی جگہ رہے ہیں،
جہاں عوام قصور وار ہے تو ممبران اسمبلی اور پوری ضلعی انتظامیہ بھی برابرکے شریک ہیں ایک چپراسی سےلیکر صدر مملکت کے عہدے عوامی ملکیت ہیں اور عوام کے خون پسینے سے کمائی گئی دولت سے اکٹھے کیئے گئے ٹیکس کیصورت میں تنخواہ لیتے ہیں لیکن یہی عوامی ملکیت اور عوام کے ملازم اور عوام کے خدمت گار عوام کو بے وقوف بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے چاہے وہ کوئی بھی شعبہ زندگی سےمنسلک ادارہ ہو ماسوائے چند ایک کے ……………..
ضلع راجن پور میں جب بھی یونیورسٹی کے قیام کے لئے جدوجہد کی گئی فنڈز کی عدم دستیابی ہر دور میں ایشو رہا اور ایڈوانس ڈویلپمنٹ بجٹ میں شاید اس پر توجہ دینا نامناسب سمجھا گیا کیونکہ ہر دور حکومت میں اس معاملے کو زیربحث تو لایاجاتارہاہوگا؟
اور ابھی بھی شاید ضلع راجن پور میں یونیورسٹی کاقیام ترجیح نہیں ہے تو اس حوالے سےگزارش ہے کہ یونیورسٹی کاقیام آنیوالی والی نسلوں کے مستقبل سےجڑا ہے اگر آنیوالی نسل کوبھی اعلی تعلیم سے محروم رکھنا ہے اور ان پر بھی ہائیر ایجوکیشن کے حصول کے دروازے بند رکھنے اور جہالت کو فروغ دینے اور اپنے بچوں کو جاہل اور اعلی تعلیم سے محروم رکھ کر دشمن کے بچوں کو پڑھانا مقصود ہے تو پھر یہ ایک الگ بحث ہے …………
ضلع راجن پور کی آبادی کم و بیش 30 لاکھ کے لگ بھگ ہے جسمیں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے .اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کیساتھ ساتھ ضلعی حکومتیں بھی مختلف ٹیکسز کی مد میں عوام سے جبری ٹیکس وصول کرتی رہی ہیں ، کررہی ہیں اور مستقبل میں بھی وصول کریں گی.
اگر وفاقی اورصوبائی حکومت کے پاس فنڈز نہیں ہیں تو ایک ناقص سی رائے ہے کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت یونیورسٹی کا قیام ممکن بنا یا جاسکتا ہے. 30 لاکھ آبادی میں سے صرف 10 لاکھ لوگ بھی 20 روپے روزانہ اور 600 روپے ماہانہ اپنی مدد آپ کے تحت جمع کریں تو 60 کروڑ روپے ماہانہ بنتے ہیں جس سے با آسانی یونیورسٹی کا عملی قیام ممکن بنایا جاسکتا ہے
یا پھر ضلعی حکومت بھی چاہے تو بطور گارنٹر اپنے آپ کوپیش کرکے کسی بینک سے قرضہ لیکر اور یہاں کی عوام پر ایک اور جبری ٹیکس ہی سہی لگا کر ماہانہ چند روپے عوام سے لیکر عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کر کے آنیوالی نسلوں کے مستقبل کو روشن کرنے اور انہیں ایک باوقاراور ذمہ دار شہری بنانے کیساتھ ملک و قوم کی معاشی واخلاقی ترقی میں اہم کردار اداکیا جاسکتا ہے بجائے ان لوگوں کی منتیں ترلے کر کے انہیں اہمیت دے کر جنہوں نے 74 سالوں سے یہاں کے غریب و بے بس و مجبور ولاچار عوام اور انکی آنیوالی نسلوں کو ہر دور حکومت میں نظر انداز کیئے رکھا.
کیونکہ حلقے بدلے افسران بدلے حکومتیں بدلیں سال بدلے مگر نہ بدلی تو صرف ضلع راجن پور اوراسکے عوام کی قسمت…………….
لیکن اب اگر یہاں کی عوام چاہیں تو بے شک اپنے لیئے نہ سہی آنیوالی نسلوں کے لئے بہت کچھ ممکن ہوسکتا ہے .
یہ بھی پڑھیں:
آخر جام پور ضلع کیوں؟۔۔۔ ملک خلیل الرحمان واسنی
سانحاتی قوم کا اللّٰہ وارث ۔۔۔ ملک خلیل الرحمٰن واسنی
قومی اتفاق وقت کی ضرورت۔۔۔ ملک خلیل الرحمٰن واسنی
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی