مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قومی اتفاق وقت کی ضرورت۔۔۔ ملک خلیل الرحمٰن واسنی

کل تک ہر ایک کا اپنا ایک نقطہ نظر تھا حالانکہ اس موقع پر ایک کنٹرول روم ہوتا اور وہیں سے ساری باتیں ہوتیں تو کیا ہی بہتر ہوتا۔

اس آفت ناگہانی کے لمحات میں جہاں چہار سو خوف کے پہرے ھیں وقت ہے متحد و متفق ھو کر ایک قوم بننے کا یہ کرونا وائرس کی ھولناک کربناک فضا اور ماحول نامعلوم کب تک جاری رہے ھمیں ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ سوچنا بھی ھوگا اور نہایت اطمینان حوصلے اور استقامت کے ساتھ عمل پیرا بھی ھونا ھو گا اسی میں ھی ھماری بھلائی اور بقاء ھے مگرشومئء قسمت ھمارا قومی المیہ یہ بھی ھے کہ ہم ہر دور میں بنیادی روزمرہ زندگی کے مسائل سے دوچا رچلے آرھے ہیں جس میں حکومتی اداروں کی بے حسی اور عدم دلچسپی کیساتھ ساتھ ہم عوام بھی برابر کے شریک ہیں ۔ھم نے اپنی ذات اورذاتی مفادات کو قومی و اجتماعی مسائل پر ترجیح دی حسب توفیق جس سے جتنا ھو سکا اس نے اپنی تجوریاں بھریں مگر عوام کی فلاح وبہبود کے اجتماعی مفادات پر توجہ نہ دی نہ ھی من حیث القوم اجتماعیت ۔امن اور بھائی چارے کو فروغ دینے کی کوئی عملی اور شعوری کوشش کی گئی ۔

نتیجہ یہ نکلا کہ اس آفت نا گہانی سے نمٹنے کیلئیے ھمارے پاس کسی قسم کی مطلوبہ سہولتیں موجود نہیں اور مجبور ھو کر حکومت کو لاک ڈاون کرنا پڑا جو کہ اس ملک میں پہلے کبھی نہ ھوا تھا ۔اس پر بھی کسی نے مذھبی کارڈ کھیلنے کی کوشش کی تو کسی نے اپنی سیاست چمکانے کی راہ ڈھونڈنا شروع کر دی ۔خیر بیماریاں اور آفتیں کسی امیر غریب یا فرقے کو نہیں دیکھا کرتیں اس آفت نے بھی سب کے ھوش اڑا کر رکھ دیئے اور آج ھم سب اس مصیبت کے خوف کا یکساں شکار ھیں ۔ بے شک یہ ایک امتحان ھے اور زندگی کے اس امتحان سے گزرنے کا ایک موقع مل گیا ھے تو کیوں نا حالات کے تقاضے اور وقت کی ضرورت سمجھتے ھوئے گلی،محلہ وارڈ،ویلیج کونسل،نیبر ہڈ کونسل،ٹائون کمیٹی کی سطح پر حکومتی،عوامی، سماجی سیاسی،مذہبی،کاروباری،
صحافتی شخصیات پر مشتمل فوکل پرسنز کی ٹیمیں تشکیل دی جائیں اور والنٹیئرز منتخب کر کے مزید ممکنہ صورتحال سے نمٹا جاسکے اور مزید پریشانی سے بچا جا سکے نیز ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال اور اس سے استفادہ حاصل کیا جائے جس میں ایس ایم ایس،واٹس گروپ،سوشل میڈیا گروپ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کیونکہ جو موجودہ صورتحال ہے اس سے ہماری معیشت بری طرح متاثر ہوسکتی ہے۔

بہترین ترقی یافتہ ملک چین کو ان چند ایام میں کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے جو شاید اپنی بہتر حکمت عملیوں اور مناسب پالیسیوں سے اس ہونیوالے نقصان پر قابو پالے مگر ہمارے ہاں صرف اخراجات ہی اخراجات ہیں جن میں کرپشن اور بدعنوانی کا عنصر بھی اہم ترین ہے اور آمدنی کے بہتر سلسلے بھی نہیں ہیں گندم کی فصل بے موقع بارشوں اور ژالہ باری کے سبب شدید متاثر ہورہی ہے اور گھروں میں مقید ہونے سے ہمارے ہاں دیگر مسائل تو پیدا ہونگے ہی مزید ذہنی تنائو بھی پیدا ہورہا ہے مشکلات بڑھ رہی ہیں معاشی صورتحال مزید گھمبیر ہوتی جارہی ہے جو آنیوالے دنوں میں مزید مشکلات کا باعث ہو سکتی ھے،صحت و صفائی کا بے حد فقدان ہے جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر ہیں جو نئے مسائل کھڑے کر سکتے،

کچھ امید تھی کہ چند ماہ میں بلدیاتی ادارے فعال ہوکر اپنا کردار کریں گے مگر وہ بھی اس صورتحال میں ایک سال میں ہوتے نظر نہیں آتے جن کو ویسے بھی نو ماہ کے لیئے حکومت پنجاب نے مؤخر کرنے کا اعلان کردیا ہے اور صورتحال یہ ہے کہ ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ کئی کئی ٹائون کمیٹیوں کے ایڈمنسٹریٹر ہیں جہاں پر مناسب سٹاف،عملہ،مشینری،فنڈز مکمل عمارتیں سہولیات تک میسر نہیں ہیں تو یہ سارے زمینی حقائق ہمیں مزید خطرات اور پریشانیوں سے متنبہ کررہے ہیں کہ وقت سے پہلے کوئی حکمت عملی مرتب کر لیں کہیں ایسا نہ ہو کہ کرونا وائرس جیسی صورتحال جوکہ 15جنوری سے ہمارے علم میں تھی مگر 15مارچ تک ہم نے کوئی خاطر خواہ قدم نہ اٹھایا

حتیٰ کہ مختلف ممالک سے ملتی سرحدوں کے بارڈر،خاص طور پر تفتان بارڈر،اور ائیر پورٹ جہاں پر فوری طور پر آئیسولیشن یا سکریننگ کا عمل وہی پر ممکن بناکر پورے ملک کو قید خانے کی شکل دینے کی بجائے اور مزید مسائل و پریشانیوں کو جنم دینے کی بجائے کچھ بہتری لائی جاتی۔ جس کی مثال گزشتہ دن پاکستان کے چیف ایگزیکٹو یعنی وزیراعظم پاکستان عمران خان کی محکمہ صحت پر بے بسی میڈیا بریفنگ/پریس کانفرنس میں واضح نظر آرہی تھی جو صرف 7٫20٫000 کے صحت انصاف کارڈ کی تقسیم تک ایسے خوش تھے کہ جیسے بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہو،حالانکہ انکی پہلی ترجیح صحت تھی مگر ہسپتالوں کی صورتحال آج بھی ابتر ہے اور کرونا وائرس سے نامناسب طبعی سہولیات و آلات کی کمی کے باعث لڑتے ہوئے اپنے لوگوں کی زندگیاں بچاتے بچاتے خود ڈاکٹر اسامہ شہید ہوگئے،

اور 24مارچ 2020 تک مختلف ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ترجمانوں سے رابطہ کرکے کہ پوچھا کہ ڈبلیو ایچ او کے طے شدہ معیار کیمطابق کرونا وائرس سے بچائو کے انسٹرومنٹس آپ لوگوں کو میسر ہیں تو اکثر کا جواب تھا کہ بس کچھ میسر ہیں،چیئرمین ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی گفتگو بھی سہولیات کی کمی کا نوحہ لگتی تھی،وزیر اعظم کی تقاریر صرف احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے لیکچر دینے تک محدود تھیں جوکہ کہ ایک ڈاکٹر یاہیلتھ ایڈوائزر کی ذمہ داری ہے چیف ایگزیکٹو یا وزیراعظم کی ذمہ داری اس بارے اٹھائے گئے اقدامات اور غفلت کے مرتکب اداروں اور افراد کے خلاف لیئے ایکشن بارے ہونی چاہیئے تھی جو شاید ایک خانہ پری اور مجبورو بے بس لاچار و محکوم عوام کے لیے شاید ایک پیغام تھاکہ” اے غریب عوام تھاڈا اللّٰہ وارث اے” بس اب آپ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے اللّٰہ سے مددومعاونت طلب کریں توبہ استغفار کریں ہم کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ انکا سارا زور اس بات پر تھا کہ عوام خود احتیاط کریں۔

اور بظاہر غریب اور دیہاڑی دار مزدور کو زیر بحث لاکر حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے سخاوت کی بارش برساتے ہوئے 3000روپے ماہانہ مزدور طبقہ کو دینے کی نوید سنائی گئی جس سے ایک عام گھر کا بجلی اور گیس کا بل بمشکل ادا ہوسکے گا اور لینے والے کو بھی حسب سابق مزید بھکاری بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا حالانکہ حکومتیں ہوتی ہی اس لیئے ہیں کہ وہ کسی مشکل اور ناگہانی آفات سے نمٹنے کیلئے میکنیزم بناتی ہیں اور ملک و معاشرے کا نظم و نسق بہتر انداز میں چلاتی ہیں مگر بدقسمتی صورتحال یہ ہے کہ امدادی سامان کی وصولی اور تقسیم پر بھی سیاست ہورہی ہے مگر اس بات پر خوشامدی تلملا اٹھیں گے کہ حکومت کیا کیا کرے،کرپشن کیخلاف لڑے،مہنگائی پر قابو پائے،ذخیرہ اندوزی کیخلاف اقدامات کرے،تعلیم پر توجہ دے وغیرہ وغیرہ،حالانکہ تحریک انصاف الیکشن کمپین میں بڑے بلند بانگ دعوے اور میکنیزم اور سسٹم کی باتیں کرتی تھی کہ شاید حکومت میں آنے کے فوراً بعد کوئی جادو کی چھڑی پھیر دیں گے۔ مگر بدقسمتی سے دائیں بائیں وہی لوگ ہیں جو برسوں سے ہر حکومت کا حصہ ہیں تو ان سے بہتری کی کیا توقع کیجاسکتی ہے. ہاں یہ ضرور ہوسکتا ہے سو پیاز بھی اور سو جوتے بھی،

جس کی مثال شیخ رشید وفاقی وزیر ریلوے مبینہ طور پر جن کا کہنا کہ لاک ڈائون بارے محکمہ ریلوے کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ کل تک صوبہ،مرکز، پاک آرمی ہر ایک کا اپنا ایک نقطہ نظر تھا حالانکہ اس موقع پر ایک کنٹرول روم ہوتا اور وہیں سے ساری باتیں ہوتیں تو کیا ہی بہتر ہوتا۔کیونکہ صوبے اپنے اپنے طور پر،مرکز اپنے اپنے طور پر مشیرصحت اپنے طور پر معلومات فراہم کررہے تھے۔رہی سہی کسر آل پارٹیز وڈیو کانفرنس نے پوری کردی،

%d bloggers like this: