نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

محترمہ شیریں مزاری کا آدھا سچ۔۔۔حیدر جاوید سید

بہرطور محترمہ شیریں مزاری نے تو آدھی بات کی لیکن پھر بھی سمجھنے والوں کےلئے اس میں بہت ساری نشانشاں ہیں۔ اب اگر کوئی سمجھنا نہ چاہے تو اس کے لئے دستِ دعا بلند کرنا بے فائدہ ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسانی حقوق کی وفاقی وزیر محترمہ شیریں مزاری خدا کرے اپنے اس بیان کی تردید نہ کردیں کہ
’’امریکہ کی جانب سے سی پیک کی مخالفت کی جارہی ہے لیکن کوئی بھی مخالفت کرے سی پیک کو آگے بڑھایا جائے گا‘‘۔
شیریں مزاری نے یہ بھی کہا کہ
’’فائیو آئیز انٹیلی جنس گیدرنگ گروپ میں شامل امریکہ، بھارت، یورپی یونین، جاپان اور آسٹریلیا ہی دراصل سی پیک کے مخالفین کا گروپ ہے۔ اس گروپ پر ہمارے خدشات ہیں اور ہمیں اس کا جواب دینا پڑے گا‘‘۔
معلوم نہیں کہ انہوں نے ان ’’برادر‘‘ ممالک کا نام کیوں نہیں لیا جنہوں نے سال بھر تک ہم پر سفارتی دباو رکھا کہ سی پیک کو رول بیک کریں اس سفارتی دباو کو تحمل سے برداشت کرنے کے بعد جب صاف طور پر یہ واضح کردیا گیا کہ سی پیک رول بیک کرنا ممکن نہیں تو سفارتی سردمہری کا مظاہرہ یوں ہوا کہ ایک ملک نے ویزوں کے اجراء کی پالیسی سخت کردی دوسرے نے معیشت کے استحکام کے لئے رکھوائی رقم واپس مانگ لی۔
یاد رہے کہ رکھوائی گئی رقم میں سے پہلے مرحلہ پر بھی ایک ارب ڈالر واپس مانگا گیا تھا اور اب باقی کا ایک ارب ڈالر بھی مانگ لیا گیا۔
دونوں بار چینی دوست مدد کو آئے۔ ادھر ہماری حالت یہ ہے کہ دو ارب ڈالر کی رقم قبل از وقت مانگے جانے کو تیل کی قیمتوں میں کمی سے پیدا ہونے والی مشکلات سے جوڑ رہے ہیں اور ویزہ پالیسی کو کورونا سے پیدا شدہ صورتحال سے۔
یعنی ہمارے حکمران اپنے لوگوں کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے کہ انہیں حقیقت حال سےآگاہ کریں۔
ہم اگر کچھ پیچھے چلیں تو دو برادر ممالک میں سے ایک نے ہمیں پیشکش کی تھی کہ اگر گیس اور پٹرولیم کے ایرانی معاہدوں سے نکل لیں تو وہ ہمیں گوادر میں آئل ریفائنری لگادے گا۔
ہم نے ایران سے معذرت کرنا بھی گوارہ نہ کی اور سر اوکھلی میں دے دیا۔ پھر ہوا یہ کہ اس برادر ملک نے آئل ریفائنری کا سمجھوتہ بھارت سے کرلیا۔ ہم منہ دیکھتے رہ گئے۔
ظاہر ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی سی پیک سے نکلنے کی صورت میں جو لالچ دیا جارہا تھا یا جو دانہ ڈالا جارہا تھا اسے چگنے سے انکار کی وجوہات موجود تھیں۔
اب تک کے سفر میں دانہ دُنکا خیرات و صدقات اور قرضہ چگتے رہنے والوں کی یہ ادا کس کو بھاتی ہے۔
وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔
اسی طور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ’’فائیو آئیز‘‘ انٹیلی جنس گیدر گروپ‘‘ بھارت کے ایما پر قائم ہوا اس گروپ کے ارکان کے دنیا کے ان خطوں میں تجارتی مفادات کا بغور جائزہ لیجئے جن میں چین کو سی پیک کی بدولت رسائی ملنی ہےتو سارا کھیل دوچند ہوجائے گا۔
ہم ایسے قلم مزدور جو پچھلے کئی سالوں سے اپنے پالیسی سازوں کی خدمت میں سی پیک کے خلاف امریکہ بھارت گٹھ جوڑ اور مددگاروں کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ عرض کررہے تھے کہ ہمیں سیاسی و سفارتی توازن کے ساتھ چین، روس، ایران اور ترکی پر مشتمل اس گروپ کا حصہ بنناچاہیے (جس میں شرکت کیلئے ملائیشیا بھی پرجوش ہے)
تو جواباً کہا جاتا رہا کہ یہ برادر اسلامی ممالک سے تعلقات خراب کرنے کا ایجنڈا ہے
تب عرض کیا تھا کہ برادر اسلامی ممالک نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔
اقوام کی برادری کے باہمی مراسم مذاہب و عقیدوں پر نہیں معاشی مفادات پر استوار ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں ’’مقدسات‘‘ سے محبت کا بھوت سوار تھا اب بھوت اترا ہے تو پہلی آواز وفاقی کابینہ کے اندر سے آئی ہے مگر اس میں بھی تکلف سے کام لیا گیا۔
عوام کو بتایا جاناچاہیے تھا کہ آخر کیوں دو برادر اسلامی ممالک بھارتی ہمنوائی میں مصروف ہیں انہیں سی پیک سے کیا تکلیف ہے۔
آپ اگر پچھلے ایک ڈیڑھ برس کے دوران ان برادری اسلامی ممالک کی بھارت میں ہوئی سرمایہ کاری اور مزید سرمایہ کاری کے لئے ہوئے معاہدوں پر تھوڑا سا غور کریں تو اس حقیقت تک پہنچ جائیں گے کہ ان دونوں برادر ممالک کی مجبوری یا محبت کا محور ہم نہیں بلکہ بھارت ہے۔
ایک اور مثال ہے وہ یہ کہ کورونا کی پہلی لہر سے ایک برادر ملک میں محنت کش کی تارکین وطن کے لئے مسائل پیدا ہوئے لیکن برادر ملک نے بھارتی ہنرمندوں اور محنت کشوں کے لئے ایک پالیسی اپنائی اور ہمارے لئے دوسری، نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے 1500 ہنر مندوں کو ان کی کمپنیوں سے معاوضہ دلائے بغیر ملک بدر کردیا گیا۔
یہاں ہمارے پالیسی سازوں نے بونگی ماری کہ نکالے گئے افراد غیرقانونی طور پر مقیم تھے۔
ہونا یہ چاہیے تھا کہ ان نکالے گئے افراد کو میڈیا تک رسائی دی جاتی تاکہ ان کا دکھ بھی سامنے آتا۔
بہرطور محترمہ شیریں مزاری نے تو آدھی بات کی لیکن پھر بھی سمجھنے والوں کےلئے اس میں بہت ساری نشانشاں ہیں۔ اب اگر کوئی سمجھنا نہ چاہے تو اس کے لئے دستِ دعا بلند کرنا بے فائدہ ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ وزیر خارجہ کا فرض ہے کہ وہ عوام کو مریدین والی گولیاں دینے کی بجائے حقیقت حال سے آگاہ کریں اور خارجہ پالیسی کا ریویو بھی تاکہ پارلیمان ایک ایسی خارجہ پالیسی کے خدوخال وضع کرسکے جو معاشی مفادات پر استوار ہو۔ کیا یہ ہوسکے گا؟
لگدا تاں نئیں پر شئیت۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author