حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالکل صحیح بات کہی وزیراعظم نے کسی بھی معاملے میں کسی لابی کا دباؤ قبول نہیں کرنا چاہئے۔ سی پیک کے ضمن میں امریکہ اور ”برادر” ممالک کا اور داخلی امور میں طاقتوروں کا۔ ایک اچھی حکومت کی نشانی یہی ہوتی ہے کہ وہ عوام کے مفادات کو سامنے رکھے اور علاقائی وعالمی پالیسیوں میں صرف اور صرف ملک کے مفاد کو۔
اقوام کی برادری کیساتھ چلتے ہوئے بھی اپنے مفادات کو مقدم سمجھا جائے، دباؤ برداشت کرنے والے کامیاب رہتے ہیں اور لابیوں کے دباؤ پر ”سپر” ڈالنے والے کامیاب نہیں ہوتے، البتہ وہ جن اصلاحات کی اب بات کر رہے ہیں یہ اب تک ہو جانی چاہئے تھیں، ان کے پاس 300ماہرین کی ٹیم تھی (یہ بات ہمیں2011ء سے2013ء کے درمیانی ماہ وسال میں تواتر کیساتھ بتائی سمجھائی گئی) وہ کیا ہوئی۔
حکومت کو یہ وضاحت بھی کرنی چاہئے کہ سعودی عرب کو واپس کی گئی رقم چین سے کس شرح پر لی گئی کیونکہ اس کے بارے میں اطلاع یہ ہے کہ 7فیصد پر اور افواہ ساڑھے 14 سے 17فیصد تک کی ہے۔
افواہوں کو اس ملک میں ہمیشہ پر لگتے ہیں، وہ کسی دانا نے کہا تھا ”سچ جتنی دیر میں سفر کیلئے آمادہ ہوتا ہے جھوٹ دنیا کے گرد دو چکر لگا آتا ہے” کچھ ایسے ہی معاملات ہمارے چار اور ہیں۔
اچھا ویسے یہ دلچسپ بات کہی ہے کہ بغیر تیاری کے حکومت نہیں لینی چاہئے لیکن تیاریاں تو تھیں، آپ ہی کہتے تھے کہ تین سو ماہرین انقلابی خطوط پر پالیسیاں بنائیں گے، 40 دن میں کرپشن ختم اور 6ماہ میں نیا برق رفتار سفر شروع دنیا دیکھے گی۔
جہاں تک پنشن کے بوجھ کا تعلق ہے تو اس میں بھی قوم کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ 260ارب دفاعی شعبہ کی پنشن ہے اور 82ارب سول شعبہ کی۔ خیر حکومت کی مجبوریاں ہوتی ہیں یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن پرویز مشرف دور میں دفاعی شعبہ کی پنشن سول بجٹ کا حصہ بنانے کا فیصلہ ہوا تھا، یہ غالباً سال2005 کی بات ہے، پچھلے پندرہ برسوں کے دوران کسی حکومت نے اس مسئلہ پر توجہ دی نا شوکت عزیز کے غیرقانونی فیصلے کو جھنڈی کرائی۔
تین ماہ صرف معاملات سمجھنے میں لگ گئے اور ڈیڑھ سال توانائی سمیت دیگر شعبوں کے اصل اعداد وشمار جاننے میں، لیکن اب کیا ہو سکتا ہے، ماسوائے اس کے کہ وہ سارے معاملات کی اب خود نگرانی کریں اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ سوا دوسال بعد جب ان کی جماعت دوبارہ عوام کے پاس جائے تو اپنی کامیابیاں گنوا سکے۔
عین ممکن ہے کہ وزیراعظم کی ایک مشکل یہ ہو کہ ان کے وزیروں، مشیروں میں اکثریت سیاسی مسافروں کی ہے اور وہ ان سے ذہنی ہم آہنگی بنانے کی صلاحیت سے محروم ہوں، ایسا ہے تو بھی وزیروں، مشیروں کی ناکامیوں کا بوجھ وزیراعظم کو ہی اُٹھانا پڑے گا۔ زیادہ بہتر ہوتا کہ وزیراعظم اپنی حکومت کی اجتماعی کارکردگی اور پالیسیوں کا جائزہ لینے کیلئے اپنے دیرینہ ساتھیوں پر مشتمل نگران جائزہ کمیٹی بنا دیتے۔
اس کے دو فائدے ہوتے اولاً یہ کہ وزیراعظم پل پل کی صورتحال سے باخبر رہتے، ثانیاً یہ کہ حکومتی عہدیداروں کو بھی فکر دامن گیر رہتی کہ وہ پارٹی کو جوابدہ ہیں۔ اب بھی وقت ہے وہ اپنی جماعت کے نظریاتی ساتھیوں کو آگے لائیں اور معاملات کو بہتر بنانے کی حکمت عملی اپنائیں۔
22سال انہوں نے شفاف احتساب اور بلاامتیاز انصاف کے نعروں پر جدوجہد کی، انہیں ایک رپورٹ تیار کروا کے عوام کے سامنے رکھنی چاہئے کہ پھچلے اڑھائی برسوں کے دوران شفاف احتساب اور بلاامتیاز احتساب کے حوالے سے کیا اقدامات اُٹھائے گئے۔
وزیراعظم کی پریشانی بجا ہے، سازگار حالات، اچھی ٹیم اور وسائل نہیں ملے لیکن ہمیں اُمید تھی کہ جس طرح انہوں نے 92ء کا ورلڈ کپ جیتا، شوکت خانم بنایا، پھر نمل کالج اسی طرح وہ ملک کی تعمیر وترقی میں بھی کارنامہ کر دکھائیں گے۔ خیر کوئی بات نہیں، وہ ہمت اور لگن سے کام جاری رکھیں مایوس نہ ہوں، ہمارے اندھیرے بھی روشنی سے منور ہوں گے۔
وزیراعظم کا اخلاص دردمندی دونوں ہمیشہ یار رکھے جائیں گے، اپوزیشن کا کیا ہے وہ کب خوش رہتی ہے، کرنے دیں جو کرتی ہے۔ وزیراعظم تھوڑا سا سوشل میڈیا مجاہدین کو متحرک کریں، ان کے ذمہ لگائیں کہ وہ ان کامیابیوں کو عوام تک پہنچائے۔ یہ جو چند تھوڑی بہت ناکامیاں راستے کاٹے بیٹھی ہیں ان سے بھی ”نبڑ” لیا جائے گا۔ وہ بلند حوصلہ شخص ہیں، ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کی اہلیت رکھتے ہیں، اس پر دو تین آراء ہی نہیں۔
ان کی یہ بات بھی سو بلکہ ہزار فیصد سچ ہے کہ تہتر سال کا گند اڑھائی سال میں صاف نہیں ہو سکتا۔ بہتری کی گنجائش ہے اگر کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے وہ انقلابی قدم اُٹھائیں، جن مشکل حالات میں انہوں نے اقتدار سنبھالا عوام اس سے بخوبی واقف ہیں، اس لئے وہ ہر قسم کے حالات کو برداشت کر رہے ہیں تاکہ وزیراعظم کامیاب ہوں۔
جہاں تک اپوزیشن کی تقاریر اور دوسری باتوں کا تعلق ہے تو انہیں یاد ہوگا کہ جب وہ اپوزیشن میں تھے تو کیسے کیسے تاریخی خطابات سے اس وقت کرپٹ حکمرانوں کی وکٹیں اُڑایا کرتے تھے۔ ہمیں اُمید ہے کہ اب بھی وہی مین آف دی میچ رہیں گے۔ تندیٔ باد مخالف سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، یہ اونچا اُڑانے کیلئے چل رہی ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ