جون 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈیرہ اسماعیل خان کا 1883 کا گزیٹیر ۔۔۔گلزار احمد

اس کتاب کے صفحہ 113 پر یہاں کی سماجی زندگی کو موضوع بنایا گیا ھے۔لکھا ھے ڈیرہ کے شھری اور دیہی آبادی کی اکثریت کچے گھروں میں مقیم ھے۔ان گھروں کی دیواریں کچی مٹی جسے چویڑی کہتے ہیں سے بنائی گئی ہیں۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔

میں ایسی کتابوں کی تلاش میں سرگرداں رہتا ھوں۔ اس گزیٹیر میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ ڈیڑھ سو سال پہلے ضلع ڈیرہ میں کیا ھو رہا تھا۔ اس گزیٹیر کے مطابق 1883 میں ڈیرہ اسماعیل خان پنجاب کا ضلع تھا اور دریاۓ سندھ کے دونوں طرف یعنی مشرق اور مغرب میں اس کی حدود پھیلی ہوئی تھی۔
ضلع ڈیرہ کی اس وقت پانچ تحصیلیں تھیں ۔تحصیل ٹانک۔تحصیل کلاچی۔تحصیل ڈیرہ اسماعیل خان دریا کے مغربی کنارے پر تھیں جبکہ تحصیل لیہ اور بھکر مشرقی کنارے پر تھیں۔ 279 صفحے کی اس کتاب کی کچھ دلچسپ باتیں اپنے قارئین سے ضرور شیئر کرونگا۔ آئیے دیکھتے ہیں ڈیڑھ سو سال پہلے اس شھر میں کیا ھو رہا تھا۔
اس کتاب کے صفحہ 113 پر یہاں کی سماجی زندگی کو موضوع بنایا گیا ھے۔لکھا ھے ڈیرہ کے شھری اور دیہی آبادی کی اکثریت کچے گھروں میں مقیم ھے۔ان گھروں کی دیواریں کچی مٹی جسے چویڑی کہتے ہیں سے بنائی گئی ہیں۔
گھر میں ایک بڑا ہال نما کمرہ ھوتا ھے جسے کوٹھا کہتے ہیں ۔اس کوٹھے کے اندر سارا گھرانا اِکٹھا رھتا ھے۔کمرے میں ایک بڑی چارپائی ہوتی ھے جس کے اوپر سارے گھر کے افراد سردیوں میں ایک بڑی رضائی اوڑھ کے سو جاتے ہیں۔اسی کمرے میں ایک طرف مویشی بندھے ہوتے ہیں اور ایک طرف چولھا یعنی کچن ھوتا ھے۔
جب میں یہ سطریں پڑھ رہا تھا کہ سب لوگ ایک کمرے اور چارپائی پر سما جاتے تو مجھے سلطان باھو کا کلام یاد آگیا۔ سلطان باھو فرماتے ہیں۔۔۔۔؎
دِل دریا سمندروں ڈونگے کون دِلاں دِیاں جَانے ھُو۔۔۔وِچے بِیڑے وِچے جِھیڑے وِچے وَنجھ مُوہانے ھُو۔۔۔
عورت کی سماجی حیثیت کا ذکر کرتے ہوۓ انگریز لکھتا ھے سماجی اور معاشرتی طور پر یہاں کی عورت کو پردے میں چھپایا نہیں جاتا۔یہاں کے ہر گھر کا دروازہ ایک کھلے صحن کی طرف کھلتا ھے جس کے اردگرد چھوٹی سی مٹی کی چار دیواری بنا دی جاتی ھے۔
عورت اس چادیوری کے اندر نہ صرف گھومتی پھرتی ھے بلکہ وہ اپنے روزمرہ کے سارے کام بھی اسی چھوٹی سی چار دیواری کے اندر سر انجام دیتی ھے۔یہاں وہ گیہوں اور مکئی کے دانے پیستی ھے گاۓ۔بھینس اور بکریوں کا دودھ دوہتی ھے کھانا پکاتی ھے جھاڑو اور دیگر امور سرانجام دیتی ھے۔
فارغ وقت میں سلائی کڑھائی فینسی جوتے بنانا پشمینہ کپاس کی صفائی رضایئاں بنانا ۔مٹی کے برتنوں پر ڈیزائین تخلیق کرنا۔فصلوں کی کٹائ میں حصہ لینا۔کپڑوں کی دھلائی اور دور دراز کے کنوٶں سے پانی بھر کر لانا شامل ھے۔
اسی گزیٹیر کے صفحہ نمبر 117 پر انگریز لکھتا ھے کہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے سارے ہندو داڑھیاں رکھتے ہیں۔ شکل و شباھت میں یہاں کے ہندوٶں اور مسلمانوں میں فرق کرنا بھت مشکل ھے یہاں کے مسلمان عموماً اپنی مونچھوں کو کترتے ہیں مگر ہندو انہیں بڑھنے دیتے ہیں۔
تھل کے مگسی بلوچ قبیلے کے ہاں داڑھیاں اور موچھیں ترشوانا غلط تصور کیا جاتا ھے۔یاد رھے تھل۔بھکر بھی ضلع ڈیرہ کے اندر تھے۔ مختلف مذاھب کا ذکر کرتے ہوۓ صفحہ 121 پر انگریز لکھتا ھے کہ مسلمانوں ۔ہندوٶں۔عیسائیوں اور سکھوں کے علاوہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کا کوئی مذھب نہیں ۔
وہ ہر قسم کی چیزیں کھا جاتے ہیں۔اس قسم کی ایک قوم دریاۓ سندھ کے اندر اور کناروں پر آباد ھے جن کو ۔۔کیہل۔۔کہا جاتا ھے۔ کیہل لوگ عام طور پر مچھلی کھاتے ہیں مگر وہ کچھوے اور کُمیاں اور کچھ اور جانور بھی کھا جاتے ہیں ۔اس لئے انکو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔
اس گزیٹیر میں یہاں کے ندی نالے۔جانور۔پرندے ۔رسومات سب درج ہیں اور پرانے لوگوں کی زندگی پر دلچسپ روشنی ڈالتی ھے۔

%d bloggers like this: