اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اُداسی ہنتھی یا دریا پنتھی؟۔۔۔یونس رومی

حاصل مطلب کہ ہمارے ہاں مذہب ایک کاروبار بن گیا ہے، جہاں پر ہمیں مذہب، فرقہ، قومیت کے نام بیوقوف بنا کر لڑوایا جاتا ہے اور وہ اپنا کاروبار کرتے ہیں اور مرتا انسان ہے

یونس رومی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کڑوا سچ

پرانے دکان پر نیا نام، اسی طرح پرانے مذہب کے آستانوں  تیرھ کو نیا نام دے کر اپنا کاروبار چلایا جاتا ہے ،  جیسے دریا پنتھی والے دریا کو  دریا بادشاہ، دولھ دریا ، زندہ پیر، خوجہ خضر، جھولے لعل ، اڈیرو لعل کہتے ہیں،

یونس  رومی

, دریا پنتھی  فرقے والے  احترام  کے طور پر دریا کو مخلتف ناموں سے پکارتے ہیں ۔ دولھ دریا خان، دریا بادشاہ، اڈیرو لعل، جھوے لعل، خواجہ خضر،زندہ پیر  وغیرہ ۔ اگر ہم تاریخی اعتبار سے جانچیں تو ہندوں کے سمندر ،پانی کا اوتار ورون دیوتا ہے، جس  کا سواری مگر مچھ اور ہتیار رسی ہے،

آج بھی منگو پیر میں مگر مچھوں کے نظر باس( نظرانہ ) باسی جاتی ہے اور  جب کے  جھولے لعل والوں کے حساب سے جھولے لعل کا سواری پلہ مچھلی اور کنول کا پھول ہیں،  اداسی پنتھی اور سکھ  اکثربابا گرو نانک کو ہی ورونا دیوتا  جھولے لعل مانتے ہیں کیونکہ یہ لوگ ہندو ازم سے  سکھ ازم  میں داخل ہوگئے تھے ،

جو بعد میں اداسی پنتھ کے صورت میں سکھوں کا ایک نیا فرقہ بن گیا تھا، ، اداسی پنتھی والے    سنگھ سبھا تحریک تک سکھوں کے فلسفے اور سکھ کے اہم درگاہوں کے متولی تھے۔ مشنری نرملا سکھوں کی طرح ،

انہوں نے بھی 18 ویں اور 19 ویں صدی کے اوائل میں سکھ کے لوگوں میں بڑی تعداد میں لوگوں کو لایا۔ ان کے مذہبی رواج مندروں کے اندر سکھ گرووں کی تصاویر اور مجسموں کے ساتھ ساتھ ہندو مجسمہ کو قبول کرتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو "اوم نامو برہمنے” کے ساتھ مبارکباد دیتے ہیں ،

اور جب کہ اڈیرولعل  والوں کے مظابق   گروکھنات نے  جھولے لعل کو الکھ نرنجن  کہتے ہیں اور وہ ہندوؤں کی طرح ہتھا یوگا پر عمل کرتے ہیں۔  جب 20 ویں صدی کے اوائل میں سنگھ سبھا کی تحریک ، جس میں خالصہ سکھوں کا غلبہ تھا ، نے سکھ کی شناخت کو نئی شکل دی تو ، ادسی مہنتوں کو سکھوں کے مزارات سے بے دخل کردیا گیا۔  اس تنازعہ کے دوران ، اداسیوں نے خود کو سکھوں کی بجائے ہندو مانا ۔

https://en.wikipedia.org/wiki/Sects_of_Sikhism

 یہ لوگ خد کو ہندو کہلاتے ہیں پر سارے رسومات سکھوں کی ہے   جس کو  جھولے لعل اور اڈیروکہتے ہیں،   اگر ہم ان سب ناموں کو تاریخی حوالوں سے جانچے تو گرو گورکھ ناتھ   10 صدی  سے 13 صدی کا دورانیہ کا ہے اور اڈیرو لعل  16 صدی کا ہے،   اور جب کے بابا گرو نانک 1469سے1538ہے۔ اور جب کے اداسی پنتھ فرقہ کا دورانیہ 18،19 صدی ہے،

  اڈیرو لعل کا صل نام شیخ طاہر ہے ، جس کو زبردستی اڈیرو لعل کا نام دیا گیا ہے،  ایک شیخ طاہر نہیں جس کو اڈیرو لال بنایا گیا ہے،  بلکہ خلیفہ اب خلیفہ میر غیاث الدین محمد عباسی 1509 وفات جس کو لال شہباز  قلندر کا نام دے کر دو ہندو دو مسلمان سجادہ نشین بنا کر بیٹھ گئے ہیں جو کے چاروں خاندانیں  آپس میں رشتیدار ہی ہیں، جس پر کبھی مروندی لکھا جاتا ہے تو کبھی مرندی جو سمجھ سے بالاتر ہے

 آزادی کے وقت بنو امیہ کے لوگ پاکستان آئے تھے گوادر کے راستے جنہوں نے اپنے بڑوں کے نام کے مناسبت سے مروندی لگایا کیونکہ مروان کے اولاد وں کا لقب مروندی ہے،

اور جب کے 2000میں ایران والوں کا اثر رسوخ زیادہ ہوا تو انہوں نے مروندی کا تختہ تبدیل کر کے مرند کے نام سے اپنا تختی لگا لیا  کیونکہ مرند ایران کے شہر کا نام ہے۔

اور جبکہ مرزا قلیچ بیگ قدیم سندھ میں رقمزار ہے کہ قلندر کے متولی شیخ تھے یہ لو  گ زبردستی درگاہ کی چابیاں چھین لی تھی  اور درگاہ پر قابض ہوگئے تھے،جس کیوجہ سے ان کے ہاتھ سوکھ گئے تھے، اور پھر لال شہباز قلندر پر ہندو کے رسومات ، بجھن، دھمال، ہونا معمول ہوگیا ہے،

  سادہ بیلہ جس کو شاد بیلہ بنا  کر ہندوں کا ایک تیرتھ بنایا  گیا جو اصل میں عباسی خاندان کے آثار نمایا ہے، بکھر کا قلعہ، چوکنڈی مزار، میر معصوم کا منارہ اس کے اس پاس ہے، جب کے جس کو خوجہ خضر کہتے ہیں وہ خواجہ خضر سیوہانی ہے،

سادھ بیلہ اصل میں میر معصوم نے بنایا تھا، اکبر کے دور میں ، جس کیلئے سندھ  کے دانشور متفق ہیں کے بکھر اصل میں عباسیوں کے آثار ہیں، ، شکارپور میں خانقاہ حسینیہ کو اداسین سادا آشرم  شکارپور میں تبدیل کیا تھا 1969،70 میں ،  ، دریا پنتھیوں سے بہت پہلے ملاح، موہانڑے اور میر بحر ، دریا بادشاہ کو نذرانے پیش کرتے تھے۔

”جھولے لال ، بیڑے پار“کا نعرہ ملاحوں کا منتر ہے۔ مسلمان ملاح اور موہانڑے، خواجہ خضر، منگھو پیر، پیر سانولو اور حضرت الیاس علیہ السلام کو پکارتے ہیں۔عبداللہ شاہ غازی سمندر کے سیدی ہیں۔لال قلندر کے بارے میں ملاحوں کا عقیدہ ہے کہ دریا ان کو سلام کرنے آتا ہے

 اور جب ہندوں ، سکھوں کے مذہبی شخصیات کو دیکھتے ہیں تو وہ  اسلام کے مذہیب شخصیات میں یکسانیت ہے، جیسا کے باب گرو نانک اور سلطان باہو میں یکسانیت ہے

اگر ہم سخی سرور کے آستان، القب اور تاریخ پر نظر دورائیں تو  سخی سرور کے مریدین کو سلطانیہ کہا جاتا ہے اور سب سے زیادہ  سخی سرور کےسکھ ہی مرید تھے سخی سرور کے ، پشاور، لاہور، گجرانوالہ، جالندہر میں سخی سرور کے آستان موجو ہیں،،اور جب کے سلطان باہو کے مریدین کو بھی سلطانیہ کہا جاتا ہے، جو حل طلب ہے،

۔ اب آپ اجین باہو کے نام سے تو واقف ہی ہونگے اگر نہیں تو روشن داس کا آرٹیکل پڑھیں یا پھر گوگل کریں اجین باہو کہون تھے پتہ چل جائیگا،، راجپوت کہون تھے اور راجپوتوں کا آبو پہاڑ سے کیا تعلق ہیں، اس کے لیئے تاریخ میو راجپوت ملاحظ کریں،،، اور جب کے جھولے لعل اور پیراں پیر دستگیر کے خیالی تصویروں میں بھی بہت مماثلت پائی جاتی ہے جب کے دس گیر ایک بلوچی لفظ ہے جس کا مطلب ہاتھ  پکڑنے والا۔ دست ، ہاتھ گیر ، پکڑنے والا

۔ اور اگر آپ بابا گرو نانک، سلطان باہو، جھولے لال  اور دستگیر کے خیال تصویروں پر نظر دوڑائیں تو سب  بابا گرو نانک کے ہی لگتے ہیں، https://www.facebook.com/story.php?story_fbid=2097622447174106&id=100007791135119

 اسلام آباد میں مشہور امام بری کا مزار ہے ۔ جس کے بارے میں ڈاکٹر حسن دانی کا کہنا ہے کہ یہ پہلے بدھوں کا اسٹوپہ ہوا کرتا تھا ۔ ایک ایسا ہی مزار بلوچستان میں بی بی نانی کا ہے ۔ یہاں قدیم زمانے میں بی بی نانی یا نانیا دیوی مندر تھا ۔

یہ وسط ایشیا میں سیتھوں کی مشہور دیوی تھی ۔ جب اس علاقہ کے لوگوں مسلمان ہوئے تو اس دیوی کا تقدس ان کے دلوں سے محو نہیں ہوا تھا ۔

اس لیے اس مندر کو بی بی نانی کا مزار بنا دیا اور اس کی بدستور تحریم کی جاتی رہیہے۔ وسط ایشیا اور برصغیر میں کئی اولیا کے مقبرے قدیم بدھ اور ہندوؤں کے اسٹوپوں اور مندورؤں پر واقع ہیں ۔ ایسا ہی ایک مزار شیخ شہاب الدین سہروری کا بخارا میں ہے ۔ وہاں پہلے بدھوں کا اسٹوپہ تھا اور زائرین کا مرکز ہوا کرتا تھا اور یہ قیصر ہندی کہلاتا تھا ۔ مگر شہاب الدین سہرودی کی تدفین کے بعد یہ عرفان محل کہلانے لگا ۔

ہنگول نیشنل پارکے کے پاس  چندر گپت موریا کے نام سے مڈ والکینو ہے جس کو  مقامی لوگ خورد کہا جاتا ہے ، جو لوگ کہاتے ہیں، ، لاہوت لا مقام ایک ہندو تیرت تھا ، جس کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے نام سے جوڑا گیا اسی طرح قدم مبارک جو اصل میں وشنو کا قدم ہے پر اس کو بھی حضرت علی رضی اللہ تعالی کے نام سے جوڑا جاتا ہے ،

اس کے لیئے اما شاہی ، یا شاہی پنت کے کتاب دس اوتار ملاحظہ کریں کے کس طرح ہندوں کے دیوتاوں کو مسلمان نبیوں کے ساتھ جوڑا گیا تھا، ہمارے رسومات سارے ہندوں کے ہے پر تختی مسلمانوں کے لگائے گئے ہیں

حاصل مطلب کہ ہمارے ہاں مذہب ایک کاروبار بن گیا ہے، جہاں پر ہمیں مذہب، فرقہ، قومیت کے نام بیوقوف بنا کر لڑوایا جاتا ہے اور وہ اپنا کاروبار کرتے ہیں اور مرتا انسان ہے  ، ہم کیوں نہ اس خدا کو بلائیں جو  ہماری شہ رگ سے نزدیک ہے،

ہر مذہب انسانیت کا درس دیا ہے، ہر مذہب محبت کا درس دیتا ہے، ہر مذیب ایک اللہ کی واحدانیت کا درس دیتا ہے، اللہ ہر چیز معاف کر سکتا ہے پر کسی بندے کا حق معاف نہیں کرتا، اور ہم لوگوں کو اذیت دینے سے گریز نہیں کرتے باقی سارا دن  مندر مسجدوں کو  بنانے میں لگے ہوتے ہیں،

اگر مندر مسجد کے پاس ایک عدد ہسپتال ، مدرسہ، سکول۔  بھی ہونا چاہیئے جہاں انسانیت کا درس  ملتا رہے اور درد مٹتا رہے۔

یہ بھی پڑھیے:

خانقاہ حسینیہ شکارپور۔۔۔یونس رومی 

ہندوستان کی تاریخ اورعباسی خاندان ۔۔۔یونس رومی 

عباسی خاندان اور شکارپور تاریخ کے آئینے میں۔۔۔ یونس رومی

ستیوں کے آستان سے چوکنڈی سکھر تک کا سفر ۔۔۔ یونس رومی

شہید عنایت شاہ لنگاہ اور مہدویت تحریک کے اصل حقائق۔۔۔ یونس رومی

لال شہباز قلندرؒ اصل میں مصر کے عباسی خلیفہ کے شہزادےہیں ۔۔۔ یونس رومی

 

%d bloggers like this: