مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

لال شہباز قلندرؒ اصل میں مصر کے عباسی خلیفہ کے شہزادےہیں ۔۔۔ یونس رومی

مرند ایران کا ایک شہر کا نام ہے جو تبریز میں واقع ہے، یہ شہر صوبے کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے پرانے زمانے میں مرند کو مریانہ، مندگرانہ، مرنڈابھی کہتے  تھے

یونس رومی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سندھ صوفیا کرام کی سرزمین ہے، جہاں مخلتلف مذاہب کا مرکز رہا ہے، ہندو ازم یہاں کی پرانی مذہب کے ماننے کی جگھ ہے جس کی وجہ سے ہندو رسومات کی بھرمار ہر جگھ نظر آتی ہے، اسلام نے شروعاتی دور میں سندھ ہند میں پہلنا شروع ہوا تھا، بعد میں مخلتف دور میں مسلمانوں نے ہندوستان علما دین یہاں پر آءے، جنکی مزارات آج تک موجود ہیں،

آج بھی سندھ وہند مسلمان بزرگوں کے مزارات ہیں،خاص طور پر سندھ جس کو صوفیا کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے سندھ کی  ایسی ہی ہستی جو لال شہباز قلندر کے نام سے مشہور ہے، جن کے حسب و نسب کے بارے جتنے دانشور اتنے ہی باتیں، کسی کے پاس مستند حوالہ جات نہیں ہیں، کبھی لال شہباز کو راجہ بھرتھر ی کا ٓاستان تو کبھی گندگی کا ڈیر تو کبھی وحشاہوں کا اڈہ، ان کے خانوادے کے بارے میں کبھی ان کو سہروردی تو کبھی قرامطی اسماعیلی تو کبھی مجرد تو کبھی کرامات کے آڑ میں ان کی توہین اور ان کے شہر کے بارے میں کبھی مروندی تو کبھی مرندی، تو کبھی میمد تو کبھی میمند کبھی مرد تو کبھی مرو، اور جبکہ  لال شہباز کے درگاہ کے رسومات کا اندازاہ لگایا گیا تو سب ہندؤوں کی رسومات نکلیں ، سب سے اہم بات کہ درگاہ کے چار سجادہ نشین دو مسلمان تو دو ہندو خاندان جو ایک پیچیدہ اور حل طلب معاملہ ہے ، قدیم سندھ میں مرزا قلیچ بیگ صاحب  درگاہ کے متولی  کی بابت لکھتے ہیں کہ یہاں پر شیخ درگاہ کے متولی تھے سید تو عزاداری کے بہانے آئے اور درگاہ پر قابض ہوگئے تھے۔

جب درگاہ کا چابیاں چھین کر تالا کھولنے کی کوش کیا گیا تو ان کے ہاتھ سوکھ گئے، درگاہ پر دو مسلمان اور دو ہندو خاندان ہیں، لکیاری، سبزواری، اورقانون گو خاندان اور مولچند خاندانوں کا قبضہ ہے جو ایک معمہ سے کم نہیں ،، ،

جب راقم نے لال شہباز قلندر کے شہر کے بارے میں تاریخ کے اوراق پلٹے اور اس جدید دور میں جہاں ایک کلک پر دنیا آپ کی پہنچ میں آجاتی ہے تو ایک عجیب سا معاملہ نظر آیا 2017 سے پہلے درگاہ کے اوپر مروندی لکھا ہوا تو جو خوکش دھماکے کے بعد مرندی بن گیا،

مرند ایران کا ایک شہر کا نام ہے جو تبریز میں واقع ہے، یہ شہر صوبے کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے پرانے زمانے میں مرند کو مریانہ، مندگرانہ، مرنڈابھی کہتے  تھے، میموند افغانستان کے صوبے قندھار میں واقع ہے،جو قندار سے مغر ب کی طرف 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، میمند ایران کا ضلع ہے جو شاہراہ بابک اور صوبہ کرمان میں واقع ہے، مرو جو کے پرانہ شہر کا نام ہے،جس کا ذکر رحیمدا شیداءی مولاءی تاریخ اسلام میں بھی ذکر کیا، مرو جو کہ دریا مرگب کے کنارے پر واقع ہے آمو دریا اور مرگب دریا کے درمیان میں واقع اس شہر کوماورالنہر بھی کہا جاتا ہے، اب مرو شہر کے ہونے کیوجہ سے مروندی تو مروندی تو نہیں ہوسکتا ، کیونکہ  مرو ایک شہر کا نام ہے نہ کے ندی کا اگر مرو شہر تھا تو اس کا لقب کچھ اس طرح ہوتا مروازی ہوتا نہ کے مروندی،مرو کے ایک بزرگ کا لقب کچھ اس طرح ہے احمد بن عبداللہ مروازی باقی مروندی کا لقب دینا ایک بات کو واضح کرتا ہے کہ یہ لوگ لال شہباز سے نفرت کرتے تھے تبھی ان کو وحشاہوں کے بازار میں قیام، تو کبھی مجر تو کبھی کیا لکھا گیا،

اصل کہانی کچھ اس طرح لگتی ہے،،مرواندیز یا مرواندی جو کہ مروان کو اولاد کو بھی کہا جاتا ہے، مروان کے بیٹے کانام عبدا لمالک تھا جو بنی امیہ کے بادشاہ کی  نسل تھے ،ان کی اولاد کو مرواندی یا مرواندیز بھی کہا جاتا ہے اور ہمارے ہاں مروان کو ایک گالی سمجھا جاتا ہے، شاید اسی لئے مرواندی کے بجائے مروندی کہا گیا ہو، ،کیونکہ اگر ہم لال شہباز کے ناموں کا مطلب لیں تو ان کےمطلب ہی الگ نکلتے ہیں اب جب ان کو کچھ ملا نہیں تو ان لوگوں نے مروندی سے مرندی لکھ دیا،

کیونکہ مروندی کے نام سے کوئی شہر نہیں ہے، باقی مرند ایران میں ہے تاکہ آسانی سے لال شہباز کو اسماعیلی ظاہر کیا جا سکے، جیسے شاہی پنتھ اما م شاہی جو کہ قرامطی اسماعیلی کا ایک فرقہ ہے، شاہی پنتھ کے مطلق علی احمد بروہی اپنی کتاب سندھ بلوچستان کے مزاروں کے تاریخ کے صفحہ نمبر 180پر لکھتے ہیں کے اسماعیلی داعی پیر نور دین نے ست پنتھ کے نام سے ایک عقیدہ متارف کرایا، جس میں ہندو عقائد کو یکجا کیا گیا تھا، اور دس اوتار کے نام سے کتاب بھی لکھی گئی تھی، اور مسلمان اور ہندو شخصیتوں کو ایک ساتھ ملادیا گیا، اور حضرت علی ؓ کو وشنو کا اوتار لکھا گیا اور کالکان کا لقب دیا گیا ،

اگر اسماعیلی ہیں قلندر تو پھر ان کا اثر زیادہ ہے درگاہ پر، اگر سوہدروی ہیں تو ان کی کوئی چیز نظر نہیں آتی، جیسے اسماعیلی بوہری فخر الدین عباسی کو سرکار اول کے نام اپنا اما م مانتے ہیں جس کا ذکر بشیر احمد گردیزی اپنے کتاب مارواڑ میں سندھی حکمران،کرتے ہیں، ، سندھ کے درگاہوں پر عموما تین دن کا میلا لگتا ہے جو اسلامی حج کا چربہ ہے، سارے رسومات اسلامی حج کے طرز پر ادا کئے جاتے ہیں، جس میں باہر سے آنے والے لوگ اپنے ساتھ خیمے لاتے ہیں اور تین دن تک کا قیام کرتے ہیں، اگر آپ پاکستان قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن کی ویب سائٹ کی اردو لغات جو آن لائن ہے ہر ایک لفظ کا الگ مطلب نکالینگے تو آپ خود بخود سمجھ جائینگے کہ لال شہباز کے ناموں کےا ندر کیا راز چھپا ہوا ہے، لال کا مطلب اردو لغات کے مطابق پیارا، دلارا،وہ شخص جو بولنے سے محروم ،گونگا، غصے والا آدمی ،ہندؤوں کے ناموں کا ایک جز جیسے رام لال، جواہر لال اور شہباز کا مطلب سفید باز، عقاب، بھنگ پینے والوں کا پیر، نوجوان، شریف آدمی، بہادر اور قلندر کا مطلب تصوف کاحامل وہ شخص جو روحانی طور ترقی کر گیا ہو جو اپنے وجود کو دنیا سے ترک کیا ہو اور خدا کی ذات پر متوجہ ہو، مست، فقیر، وہ فقیر جو سر اور داڑھی منڈاتا ہو،بیوی بچوں کا چھوڑا ہوا ہو، ریچھ باندر نچانے والا، شودر جو مسلمان ہو ان کے مصلی قبیلےکوقلندر بھی کہا جاتا ہے جھولے لا ل جو ہندو سندھی کو دریا کا اوتار مانتے ہیں جو کہ اصل میں وروں دیوتا کا اوتار ہے جو پانی اور سمندر کا دیوتا مانا جاتا ہے ا ور ورن دیوتا کی سواری مگر مچھ اور ہتھیار رسی ہے،

دریا سندھ پر بسنے والے سندھ اور پنجاب کو لوگ اکثر دریا پنتھی تھے، جو دریا اور ان کے جیوت کی پوجا کی جاتی ہے، کراچی میں منگھو پیر کے نام سے ایک درگاہ ہے جہاں مگر مچھ کی پوجا کی جاتی ہے، کبھی لال شہباز کو جھولے لال کہتے ہیں تو کبھی اڈیرو لعل کو تو کبھی خضر سیوستانی کے مزار جو دریا سندھ سکھر روہڑی کے پاس ایک جزیرے پر واقع ہے، لال شہبار اور مجر د کہانی اصل میں مہابھارت کا ایک کردار ہے کرو خاندان کے بادشاہ شانتنو کی بیوی گنگا دیوی سے دیورت نام کا بچہ ہوا۔ گنگا دیوی کے چلے جانے کے بعد شانتنو دوسری بیوی ستیاوتی عرف یوجنہ گندھی سے شادی کی۔ جس کے بطن سے چترانگدا اور چترویریہ دو بچے پیدا ہوئے۔

دیورت  نےاپنے باپ کی خوشی کے لیے عمر بھر مجرد رہنے کا عہد (بھیشم پرتگیہ) کیا تھا۔ جس کی وجہ سے دیورت بھیشم کے نام سے مشہور ہوا ، اب مجرد یا تو عنایت شہید لنگا ہ کے بیٹےخلیل اللہ لنگاہ کے نسبت سے یا پھر بابا گرو نانک کے بیٹے سری رام چند جو کے مجرد تھے ان کے وجہ سے اب ان کا علم انہی لوگوں کو ہوگا جنہوں نے جھوٹ لکھا اور بولا تھا، ۔ میلہ مہدویت کی نشانی ہے جس کا مطلب تین روز کا حج کرنا ، مہدویت میں عموما نماز، روزہ، قران، سے منعرف ہوتے ہیں وہ ذکر کو مانتے ہیں اور پنا حج اپنے مرشد کے درگاہ پر مناتے ہیں جیسے مکران کے زگری کوہ مراد پر ہر سال حج کرنے چلتے ہیں جھوک والے میران شاہ پر اسی طرح سب درگاہوں مہدویت کا غلبہ زیادہ نظر آتا ہے، مہدویت اسلام اور ہندوازم کا مکشچر ہے دھمال سندھ کے ہر درگاہ پر ہوتی ہے ایسا سمجھے ایک لازم جز سمجھا جاتا ہے ، ، ، دھمال ہندی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے شور، غل، تھپ، اصلاحا یہ ایک راگ ہے جو فقیر عموما الا پتے رہتے ہیں، سندھی لغت مطبوعہ 1873 کے مطابق دھمال ایک سر کا نام ہے، جو ہولی کے زمانے میں الاپا جاتا ہے، دھمال ایک تاری کا بھی نام ہے، دھمال میں 14ماترے ہوتے ہیں دھمال میں نقارہ خاص وجہ پیدا کرتا ہے، جس کو بھیر کہا جاتا ہے، ، لال شہباز قلندر کے درگاہ میں موجود تمام رسومات ہندوں کی ہیں، جن کا اسلام اور مسلمانوں س کوءی واسطہ نہیں ہے،شنک جو کے کرشن کا شنک بجھاتے ہیں کرشن نے مہابارت میں شنک بجھا کر جنگ کی شروعات کیا تھا، لال شہباز قلندر کے دور کا بھی بڑا مسلا بنا ہوا ہے تھا جس کو مسعود مفتی صاحب اپنی کتاب میں واضع کیا ہے، کراما ت کے دوران ایک واقع بیان کرتے ہیں کے غیاث الدین تغلق کو دعا دی کے آپ کو دونوں شہزادے بادشاہ ہونگے جن کے نام محمد تغلق اور فیروز شاہ تغلق تھے جو بعد میں بادشاہ بن گءے تھے، کیونکہ عموما غیاث الدین بلبن کا دور دکھیا جاتا رہا ہے، محمد خان شہید جو اس کے بیٹے کا نام تھا انہیں ناموں کا آپس میں ملنے کیوجہ سے ان جھوٹوں نے تاریخ کا بیڑا غرق کیا ہوا تھا، غیاث الدین بلبن اور محمد خان شہید کا دور 1265سے 1285 اور جب کے غیاث الدین تغلق اور محمد تغلق کا دور 1320 سے 1351 تک کا ہے، اور مشہور شاعر امیر خسرو کا بھی دور دونوں بادشاہو کا بھی دور میں ہے۔محمد تغلق کے دور میں عباسی خلیفہ میر غیاث الدین محمد عباسی دہلی تشریف لاءے تھے ۔ لال شہباز کے اوپر ایک آرٹیکل راقم نے سندھی پنھنجی اخبار میں بھی لکھ چکا ہے، جو بروز 8 جنور ی کو سندھی اخبار میں شایع ہوا تھا، اسی طرح لال شہباز قلندر کو راجہ بھرھری کا آستان بتاتے ہیں اس کے اوپر بھی راقم نے 12 فبروری کو بھی آرٹیکل لکھ چکا ہے، راجہ بھرت ھری اجین کا کردار تھا جس کا گروہ گورکھ ناتھ تھا اور کچھ پٹانادر بھی کہتے تھےم اجین کا بادشاہ تھا بیوی کے بیوفاءی میں جوگی سادھو بن گیا تھا، اور راجہ بھرھرہ ھندوستان کے شمال ، پنجاب، ھریانہ۔ بھار، اترپردیش، چتیس گڑھ، مغربی بنگال کے لوک کہانیوں کا ایک ھیرو ہے، 1870 میں ایک کتاب وکرم اینڈ ویمپاءر لکھا گیا تھا، اور جبکہ ہمارے کچھ تاریخدان تاریخ کو بگاڑنے کے چکر میں راجہ بھرت ھری کا آستان دکھانے پر بضد آرہے تو اجین میں راجہ بھرتھری کا غار اور ہاتھ کا نشان بھی ہے اور مکلی کے دامن میں ماتا شنگھ بوانی کالی دیوی یا کالی ماتا کا آستان مشہور ہے، جہاں سے نانی مندر یا بیبی نانی کا مندر ھنگلاج ماتا کیلءے یہاں سے یاترا کی شروعات کی جاتی ہے، کچ اور راجستان کے لوگ اسی راستے سے ھنگلاج کا یاترا کی شروعات کرتے ہیں، اور جبکہ سیوہن اور ملکی کا راستہ 240کلومیٹر ہے اور سیوہن اور اجین کا مفاصلہ 1200 سے زیاداہ مفاصلہ کا ہے، اگر گرو گورکھ ناتھ کا کہا جاتا تو پھر بھی بات مین وزن ہوتی کیونکہ گورکھ ہل اسٹیشن 110 کلومیٹر کے فاصلے پرنزدیک واقع ہے، یا لکی کے پہاڑ بھی،،شجرے کے مطلعق زیادہ طر آٹھ سے دس شجرے تک ہی ینچھ اتے ہیں اور کچھ بیس تک اور حضرت علی ؓ کے خاندان علوی سے جوڑا جاتا ہے، ظالمو اگر لال شہباز حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خاندان سے ہوتا تو کبھی اس طرح کرامات کے آڑ میں تذلیل نہیں کرتےعباسی تھا تبھی جو منہ میں آیا بک دیا اور لکھ ڈالا۔، کبھی سوہروردی تو کبھی اسماعیلی ، اصل میں لال شہباز قلندر عباسی تھے اور ان کا تعلق مصر کے عباسی خلیفہ کے خاندان سے تھا،جن کا پورا نام میر غیاث الدین محمد بن الحاکم بالامراللہ احمد ابن عباس عباسی تھا، عباسی خاندان کا کچھ افراد کا ایشا وسط ایشیا کے طرف آنے کی روایات ملتے ہیں، اسی طرح آل رسول ﷺ میں سے چند خاندان نے ایشیا کا رخ کیا، جنہوں نے دین کی اشاعت میں اپنی جان و مال کی قربانی دی، حضرت قثم ابن عباس ؓ جو نبی کرم ﷺ کے چچا زادہ تھا جنہوں نے اسلام کی اشاعت کیلءے سمرقند تشریف لاءے تھے، جن کی خانقاہ آج بھی سمرقند میں شاہ زندہ کے نام سے مشہور ہے، بنی امیہ کے بعد بنی عباس خاندان کا حکمومت رہا جو سانحہ بغداد کے بعد ختم ہوا، بغداد کے بعد عباسی خاندان کے کچھ افراد مصر چلے گءے جہاں ان کو خلافت کا عہدہ ملتا رہا، ایک دور تھا جب منگول خاندان پوری دینا پر اپنا ظلم کا سکی جماءے رکھا آدھے دنیا تک اپنی حکومت قاءم کی، جب اللہ کسی کو چن لیتا ہے اپنے دین کیلءے تو اس کے دل کو اپنے نور سے روشن کرتا ہے، اسی طرح بہت سے منگول مسلمان شروع ہوگءے تھے جن میں چغتاءی خانات کے بادشاہ جن کا نام علاء الدین طرمشرین تھا اور یہ دور 1331تھا جب مصر کے اس وقت کے خلیفہ المستکفی باللہ عبدالرحمن سلیمان کا خلافت تھا ، سقوط بغداد سے پہلے مسلمان حکمران جن کا اپنا آزاد ریاستیں قاءم ہوگءے تھے پھر بھی خلافت کا سند خلیفہ سے حاصل کیا جاتا تھا اس وقت بھی کچھ اس طرح تھا جب علاء الدین طرمشرین کے دل میں جب اسلام کی روشنی پہل چکی تھی تو اس وقت مصر سے ایک قافلہ چغتاءی خان کو مسلمان بنانے کے غرض سے ایک خلیفہ زادا عباسی کے سربراہی میں دنیا کے مشہور سیاح ابن بطوطہ کے ساتھ سفر کو روانا ہوا ، ابن بطوطہ خلیفہ زادے کے ساتھ سمر قند پہنچا اور چغاءی خان کو مسلمان کیا اور مسلمان ہونے کے بعد علاء الدین طرمشرین نے خلیفہ زادے کو حضرت قثم ابن عباس ؓکے خانقاہ کا متولی بنایا تھا،جس کو شاہ زندہ کے نام سے جانا جاتا ہے، اگر خلیفہ زادے اور ابن بطوطہ کے قیام کو سمر قند میں دیکھا جاءے تو تقریبا دس سال پر محیط تھا، اس دوران خلیفہ زادہ عباسی کو علم ہوا کے دہلی کے مسلمان بادشاہ ان کے بڑے دیوانے ہیں تو خلیفہ زادے نے اپنے دو سفیر صوفی محمد ہمدانی اور محمد بن ابی شرفی کو ان کے پاس دیلی بھجوادیا، اس وقت دہلی پر محمد تغلق کا حکومت تھا ، جب دونوں سفیر دہلی پہنچے تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا اور بغداد کے جو لوگ اس وقت دہلی میں مقیم تھے انہوں نے خلیفہ کے صحیح النسبتی کی تصدیق کیا ، واپسی پر ان کو خلیفہ کیلءے نذرانہ بھیجا اور خلیفہ کو ہندوستان آنے کی دعوت دی ، خلیفہ کے آنے کی تصدیق تاریخ کے مستند کتابیں کرتی ہیں جن میں،، جنت السندھ، تاریخ ہندوستان، تاریخ فرشتہ، اور ابن بطوطہ کا سفر نامہ ، اور خلافت ہندوستان ، خلافت اور ہندوستان میں معروف تاریخدان سید سلیمان ندوی صاحب میں واضع طور پر عباسی خلیفہ میر غیاث الدین محمد عباسی کے دہلی آمد کے متعلق لکھتے ہیں کے جب محمد تغلق کو احساس ہوا کے بغیر خلیفہ کے خلعت کے اسلامی حکومت کرنا غیر شرعی ہے تو اس نے مصر ایک جماعت بھیجا اور جب جماعت خلعت لیکر دہلی پہنچا تو بادشاہ خد ان کے استقبال کیلءے دہلی سے باہر تشریف لاءے، اور جب عباسی خلیفہ کے دو سفیر ہندوستان آءے تو اور بادشاہ کو جب خلیفہ زادہ عباسی کا سمر قند میں علم ہوا تو منت سماجت کر کے ان کو دہلی بلوایا ، ابن بطوطہ کا سمرقند سے جو راستہ اپنایا وہ ہرات، قندہار اور درہ بولان سے ہوتا ہوا بکھر موجود سکہر پہنچے جہاں سے ان کو دریا سندھ سے کشتی کے ذریعے ملتان پہنچایا گیا، ملتان سے دہلی کو سفر گھوڑوں پر کیا جب دہلی پہنچھے تو بادشاہ خد ان کے استقبال کیلءے دہلی سے باھر تشریف لاءءے، جب بادشاہ خلیفہ سے مصافحہ کر رہے تھے تو بادشاہ نے کہا اگر میں خلیفہ احمد ابوا لعباس سے بیعت نہ لیتا تو آپ سے بیعت لے لیتا، جس پر عباسی خلیفہ نے فرمایا کے میں خد احمد ابوالعباس سے بیعت ہوں، سید سیلمان ندوی صاحب خلافت اور ہندوستان میں بدر چاج کے حوالے سے لکھتا ہے کے بدر چاج جو اس وقت دہلی دربار کا شاعر تھا، بدر چاج خلیفہ کے والد صاحب کے حوالے سے لکھتا ہے کے شاہ بن احمد ابولعباس جو اس وقت مصر میں خلافت کے مستند ر بیٹھا ہوا تھا جن کو پورا نام الحاکم بالامراللہ احمد ابن عباس تھا جن کے خلافت کا دورانیہ 1341 سے 1351 تک کا ہے، ابن بطوطہ کے سندھی مترجم جو سندھی دبی بورڈ سے شایع شدہ ہے، جس میں میر غیاث الدین محمد عباسی کیلءے نازیبا الفاط استعمال کیا گیا ہے، غیاث الدین محمد کے شادی کو ملک سیف الدین محمد کے ساتھ جوڑ ا گیا جن کو شاہ کا ایک عرب دکھیا گیا ہے، ملک سیف الدین اصل میں غوری خاندان سے تھا، ملک سیف الدین، قوام الدین، عماد المک شھاب الدین غوری خاندان کے نسل سے تھے، اور ملک سیف الدین جو کہ سلطان محمد تغلق کا بہنوءی تھا، اور جن کو خداوند زادہ کا لوب ملا ہوا تھا، جب کے خلیفہ میر غیاث الدین محمد عباسی کا بھی نکاح سلطان محمد تغلق کے بہن سے ہوا تھا، جن کا نام فیروزہ آخوند تھی، اور سلطان فیروز تغللق کے کتاب تاریخ فیروز شاہی مین مخدومزادہ عباسی کا نام اسعتمال کیا گیا ، فیروز شاہ کے دور میں کے دور میں عباسی شہزادے کو مخدوزادہ کا لقب دیا گیا ، اور فیروز شاہ کے دور میں صدر جہاں ( وزیر اعظم ) تھا، جن کو میر خان بھی کہا جاتا تھا، جس کو تذکرہ امیر خانی کے مصنف نے لکھا ہے کے ایک لاکھ کے عیوض میر خان سے امیر خان کا لقب دی گیا تھا، جو اس بات کی دلیل ہے کے میر خان نام تھا، جن کو سندھ کے دانشوروں نے امیر خان بنا دیا گیا ہے، اور تاریخ فیروز شاہی کے 226 صفحہ پر امیر خان جہان لکھ دیا ہے، نام اور لقب اور عہدے کو ملا کا تضاد بنانے کی کوشش کی گءی ہے، سندھ کے دانشوروں نے میر غیاث الدین محمد عباسی کے بہت سے القاب دیے تھے، اسلام راہی صاحب اپنی تصنیف فیروز شاہ تغلق میں میر غیاث الدین محمد عباسی کے دو صاحبزادوں کا ذکر بھی کرتے ہیں ، میر جلال خان جو کہ حسین خان کا بھاءی ہے بقول منتخب التواریخ کے جب لودی خاندان سے جنگ ہوا تھا جس میں حسین خان نے اپنی بھاءی کے رہاءی کروادیتا ہے، جس کو جلال ادین خلجی لکھا گیا، خلجی کا دور کہاں اور فیروز شاہ کا دور کہاں، میر جلال الدین خان لمعروف سرح پوش بخاری، امیر کلاں، اور نظام الملک حسین خان کا نام شاہ بیگ ، میر غیا ث الدین محمد المعروف لال شہباز قلندر کے بہت سے القا ب ہیں، میر خان، ملا میر، سبزواری، سیف اللسان، مہدی، ابولغیث، وغیرہ، جن کی عمر 200سال تھی، رنگ گندہم، بڑے عمر کیوجہ سے کمر جھک گیا تھا، 1510کے قریب ان کا انتقال ہوا تھا، امیر تیمور ہندوستان پر جب حملا کرتا ہے تو میر غیاث الدین محمد عباسی لامعروف لا ل شہباز قلندر مالوہ میں مقیم تھے، جن کو سندھ کے تاریخدان ابولغیث کے لقب سے پکارتے ہیں، ابوالغیث کو مرزا پیر محمد سے ملتان ملنے کا لکھتے ہیں اصل میں مالوہ سے دہلی امیر تیمور سے ملنے جاتا ہے، راستے میں میر غیاث الدین محمد عباسی حضور اکرم ﷺ کے دربار میں اپنی امان کی دعا منگتا ہے لکھنے والے لکھتے ہیں کے امیر تیمور کو حضور اکرم ﷺ کا خواب میں دیدار ہوتا ہے تو نبی کریم ﷺ امیر تیمور کو میر غیاث الدین محمد کا چہرہ دکھا کر کہتا ہے کے میرے اولاد کے ساتھ نرمی سے پیش آنا، مالوہ سے دہلی کا سفر دس د ن کا تھا،کھتے ہیں جب میر غیاث الدین محمد عباسی المعروف لال شہباز قلندر جب دہلی دربار میں پہنچ جاتا ہے تو امیر تیمور ان کو پہچا ن جاتا ہے اور ان کے استقبال کرنے کیلءے تخت سے اتر کر خد ان کا ستقبال کرتا ہے اور ان کو اپنے پاس بٹھا دیتا ہے ، مخدوزادہ کے سفارش پر دہلی اور پورے ہندوستان پر قیامت رک جاتا ہے، مخدوزادہ غیاث الدین محمد عباسی المعروف لال شہباز قلندر اپنی بیٹی گوہر شاد کی نکاح امیر تیمور کے چھوٹے حاحبزادے شاہ رخ مرزا سے کرتے ہیں، خلیفہ میر غیاث الدین محمد عباسی المعروف لال شہباز قلندر سمر قند ترکستان سے آتے یں تبھی ان وکیپیڈیا میں گوہر شاد کے والد صاحب کو غیاث الدین ترخان لکھا ہے ، امیر تیمور ہندوستان چھوڑتے ہوءے میر غیاث الدین محمد عباسی المعروف لال شہباز قلندر کو ہندوستان ان کے حوالے کرتا ہے، نبی کریم ﷺ کے سفارش کے صدقے اور کچھ امیروں کے مشوروں کیوجہ سے جو خلیفہ زادہ کو سمر قند میں پہنچاتے تھے، باقی خضر خان جن کے نسل کا پتہ نہیں اور نہ ان کی تاریخ کا ان کو ہندوستان کیسے ملا، مخدوم غیاث الدین محمد المعروف لال شہباز قلندر کے اولادو بہت سے ہیں جن کی تعداد کا صحیح علم نہیں ہے، چند کا ذکر کتابوں میں راقم کو ملا ہے، اور باقیوں کی تالش جاری ہے، تاریخ فرشتہ کے مطابق محمد شاہ بن غیاث الدین کی شادی سیف الدین غوری کی بیٹی سے ہوتی ہے ملک سیف الدین غوری اور خلیفہ مخدوم زادہ میر غیاث الدین محمد عباسی ہم زلف ہوتے ہیں، جس میں محمد بن غیا ث الدین کے والدہ ملتان ہوتی ہے، جب وہ پہنچ جاتی ہے تو سب خوش ہوتے ہیں، محمد شاہ کو میر بزرگ کے نام سے سندھ میں جانا جاتا ہے،اور مبارک شاہ بھی محمد شاہ کے بھاءی تھے ایک ماں سے تھے، ، جبکہ حسین خان اور جلال خان سرخ پوش المعروف امیر کلاں ایک ماں سے تھے اقوام الدین المعروف قاضی قادن اور عرب شاہ ایک ماں سے ہیں، سید سلام، فرید خان ، عبدالرحیم، ابوالمکارم، وغیرہ ، تاریخ طاہری، مکلی نامہ، تاریخ معصومی، تحفتہ الکرام ، بیگلار نامہ ، تاریخ مظہر شاہجہانی، تذکرہ امیر خانی، تاریخ کلہوڑا دور یہ سب اگر عباسی خاندان نے لکھواءے ہیں تو ان سب کتابوں میں رد بدل یا گیا ہے، کوءی بھی بندہ پیسے خرچ کرکے خد کو اور اپنے خاندان کو گالیاں نہیں دے سکتا ، یہ کیسے ہوکتا ہے، اس کا مطلب سب کتابوں کو لکھوایا گیا ہے بقول پیر حسام الدین راشدی صاھب کے کلہوڑا دور کتاب کے کے ہم تاریخ سندھ لکھوا رہے ہیں، صحیح تو کہتے ہیں جن کا اعتاف ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب سندھ کی خاموش تاریخ میں ذکر کرتے ہیں، ان کتابوں میں سب عباسی خاندان کے افراد کا ذکر تو ہے پر مخلتف ناموں سے، مرزا قلیچ بیگ نے قدیم سندھ میں عباسی خاندان کے افرادوں کو مختلف ناموں سے یاد کیا ہے، جیسے قاسم خانی سید، میر خانی، سید، لودی سید، عرب شاہی سید، سبزواری سید، میرکی سید، عریضی سید، کاشانی سید، مازندانی سید، بکھری سید، بخاری سید، گیلانی سید،یہ سب عباسی خاندان کے افراد ہیں جن کو ا کے ماوں کے نسبت سے پہچان دیا گیا ہے، 1400سے 1520 تک مکمل ہندوستان پر عباسی خاندان کا حکومت تھا، ضرورت اس بات کی ہے کے عباسی خاندان کی تاریخ کو دنیا کے سامنے سچاءی کے ساتھ لایا جاءے ان کو ان کا جاءز مقام دیا جاءے، باقی اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں،

%d bloggers like this: