حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ڈی ایم کے لاہور جلسہ میں اگر تھے ہی تین ساڑھے تین ہزار لوگ تو پھر ’’الاو‘‘ کیوں بھڑک رہے ہیں اور مرچیں کیوں چبائی جارہی ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ اس بار بدزبانی میں وہ طبقہ پیش پیش ہے جس کا دعویٰ ہے کہ ان کے بزرگوں کی اخلاقی معراج مسلمہ ہے۔
پی ڈی ایم ایک سیاسی اتحاد ہے بالکل ویسا ہی جیسا نوازشریف کے دوسرے دور میں بننے والا سیاسی اتحاد تھا جس کے ’’تانگے‘‘ کی سواریوں میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک بھی شامل تھے۔ جی ڈی اے نامی یہ اتحاد وہی کچھ چاہتا تھا جو اب پی ڈی اے والے چاہتے ہیں۔
تب نتیجہ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کی صورت میں برآمد ہوا اب نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ فوری طورپر اس کا جواب یہ ہے کہ اب شاید اسٹیبلشمنٹ ایڈونچر نہ کرنے پائے۔
اس کی بہت ساری وجوہات ہیں مگر اہم ترین وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں قدامت پسند ری پبلکن کی جگہ ڈیموکریٹ اقتدار سنبھالنے والے ہیں دوسری وجہ یہ ہے کہ پچھلے اڑھائی سال کی ناقص حکومتی کارکردگی سے پیدا شدہ مسائل اس قدر سنگین ہیں کہ ایڈونچر کرنے والے ان مسائل کا حل تلاش نہیں کرپائیں گے اور نہ ایڈونچر کو انقلاب بناکر پیش کرسکیں گے۔
تیسری وجہ علاقائی اور عالمی صورتحال ہے۔ امریکہ افغانستان سے رخصت ہونے کو ہے۔ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان معاہدہ امن کے لئے ابتدائی سمجھوتہ ہوچکا۔ امریکہ کو اب ماضی کی طرح ہماری ضرورت نہیں رہی اس کی امیدوں، آرزووں اور مستقبل کی ضرورت بھارت ہے جہاں سرمایہ دار ممالک کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی 140ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ہے۔
سادہ لفظوں میں یہ کہہ سمجھ لیجئے کہ ہمارے پاس خودسپردگی سمیت سب کچھ ہے لیکن اب ان سے کام چلے گا نہ مال ملنے کو ہے۔
ان حالات میں دانشمندی کے مظاہرے کی ضرورت ہے۔ یکطرفہ دانشمندی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگی بلکہ دونوں فریقوں، حکومت اور اپوزیشن کو دانشمندی کا مظاہرہ کرناہوگا۔ ہم آگے بڑھنے سے قبل یہ سوال ضرور آپ کے سامنے رکھنا چاہیں گے کہ کیا سیاسی قائدین کی ہٹ دھرمی نفرتوں کی سیاست اور دستوری و جمہوری ذمہ داریوں سے انحراف کی روش حالات کو بگاڑنے کا ذریعہ نہیں بنے گی؟
اس سوال پر غور کیجئے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کو عوامی تائید حاصل نہیں تو ملتان اور لاہور میں مجموعی طور پر 37 مقدمات کیوں درج ہوئے۔ وزیروں، مشیروں، کرائے کے ترجمانوں اور خودساختہ انقلابیوں کے دہنوں سے شعلے کیوں نکل رہے ہیں۔
ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کی صفوں میں موجود سابق جیالے اور متوالے اسٹیبلشمنٹ کی تربیت یافتہ نسل سے بھی بڑے بدزبان ہیں
ثانیاً یہ کہ مذہبی پاپائیت کو امر ربی کے طور پر پیش کرنے والوں کے جمہوریت کوکوسنے سمجھ میں آتے ہیں کیونکہ مذہبی پاپائیت لوگوں کے حقوق اور شعور کو روند کر مذہب اور عقیدوں کے جبر سے بھرے نظاموں سے رزق پاتی ہے۔
افسوس کہ اس تلخ حقیقت کو سمجھنے کی بجائے کوسنے ہی کوسنے ہیں۔
اس صورتحال کے بیچوں بیچ کچھ دوست غیرجانبداری کا بھاشن دے رہے ہیں اور وہ خود جانبداری کے قلعہ بالا حصار کی منڈھیر پر کھڑے ہیں۔
ارے بھیا!
غیرجانبداری تو کھلی منافقت کو کہتے ہیں انسان جانبدار ہی ہوتے ہیں۔ غیرجانبداری درحقیقت ظالم کے ظلم کو تحفظ دینے کا نام ہے۔
مسلم تاریخ سے درجنوں مثالیں عرض کی جاسکتی ہے افسوس کہ پھر نیزوں ، تیروں اور بھالوں والے لشکر چڑھ دوڑیں گے۔
ایک اور اہم بات ہے وہ یہ کہ کیا یہ سیاستدانوں کو منہ بھرکے گالیاں دینے والے اصول پسند 73سالوں سے اس ملک کو لوٹنے والے ڈاکوئوں بارےدو لفظ کہنے کی جرات کریں گے؟ آسان جواب یہ ہے کہ بالکل نہیں۔
لاریب سیاستدانوں سے غلطیاں ہوئیں ان کی صفوں میں برے لوگ بھی ہیں لیکن ان برے یا اچھے لوگوں کے احتساب کا حق صرف عوام کو ہے۔ یقیناً ملکی قانون کو بھی یہ حق حاصل ہے لیکن جب قانون اہل اقتدار کی لونڈی بن جائے تو بداعتمادی کی خلیج گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔
فی الوقت یہی صورتحال ہے۔ ادھر پارساوں کی حکومت کا حال یہ ہے کہ چینی، گندم، آٹا، ادویات اور ایل این جی میں اربوں کھربوں کے کھابے کھانے والے اس کی اپنی صفوں میں موجود ہیں اور انگلیاں دوسروں پر اٹھائی جارہی ہیں۔
بلاامتیاز احتساب اگر کرنا ہے تو پہلے گھر کے چوروں کو گرفت میں لانا ہوگا۔ یہی حال اسٹیبلشمنٹ کا ہے وہ بھی اپنی صفوں میں موجود لٹیروں کو قانون کی گرفت میں لانے کی بجائے کرائے کے چھاتہ برداروں کے ذریعے پروپیگنڈے میں مصروف ہے جس سے یہ تاثر پیدا کروانا مقصود ہوتا ہے کہ ’’اِن نجات دہندوں‘‘ کے سوا سب چور لٹیرے اور ڈاکو ہیں۔
پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک اس کے مطالبات اور قائدین سے اختلاف کا آپ کو حق ہے لیکن اپنے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے دستور کو روندنے والوں کو مسیحا اور لے پالکوں کو انقلابی بناکر پیش کرنے سے اجتناب زیادہ بہتر ہے۔
حرفِ آخر یہ ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں کا فرض ہے کہ کچھ وقت نکال کر عوام کو درپیش مسائل پر بھی غور کرنے کی زحمت کرلیں۔
عوام مہنگائی، غربت اور بیروزگاری سے بدحال ہوئے جارہے ہیں۔ ان بنیادی نوعیت کے سنگین مسائل کا حل صرف حکومت وقت کی ذمہ داری نہیں بلکہ جمہوریت کے دوسرے فریق اپوزیشن پر بھی برابر کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
ایک بات اور عرض کردوں، سیاسی جماعتوں کی محبت میں فرقہ وارانہ ضد اور ہٹ دھرمی سے کام نہ لیجئے، ضد اور ہٹ دھرمی کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر