مئی 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قوم پرست کارکنوں کا فخر، لالہ اقبال بلوچ۔۔۔حیدر جاوید سید

فقیر کی رائے یہی ہے کہ لالہ سب کا دوست ہے اور سب سے زیادہ اپنے بچوں کا ہونابھی چاہیے، اولاد سے دوستی والدین کیلئے زیادہ سودمند رہتی ہے اس سے مسائل پیدا نہیں ہوتے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقیر راحموں
لالہ اقبال بلوچ ہماری وسوں کا محنت کش سیاسی کارکن ہے۔ ویسے تو یہ جوڑی ہے بلوچ فرینڈز کے نام سے لالہ اقبال بلوچ اور اظہر بلوچ۔ دونوں ہمہ وقت ساتھ ہوتے ہیں۔
سماجی خدمت کا شعبہ ہو یا سرائیکی قومی تحریک کے حوالے سے پروگرام، لیاقت پور میں دونوں پیش پیش رہتے ہیں۔ سفید پوش محنت کش لالہ اقبال کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ دو سال قبل وسیب کی ادبی سماجی تنظیم سوجھل دھرتی واس نے پہلا تاج محمد خان لنگاہ سیاسی کارکن ایوارڈ دیا تھا۔
وہ اس ایوارڈ کے حقدار بھی ہیں اپنا اور بچوں کا پیٹ کاٹ کر قومی جدوجہد کےاخراجات میں حصہ ڈالنے والے اب کم کم ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب سیاسی کارکنوں کاکلچر تاریخ کا حصہ بنتا جارہا ہے، لالہ نے اپنی ہمت، لگن اور جدوجہد سے عملی طورپر ثابت کیا کہ ’’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘۔
ہمارا ان سے تعارف چند سال قبل اس وقت ہوا تھا جب ہم ایک عدد سرائیکی قوم پرست پارٹی میں ہوا کرتے تھے۔
تعارف حسن معاویہ ایڈووکیٹ نے کروایاتھا۔ بس اب یہ نہ پوچھ لیجئے گاکہ وہ پارٹی کیا ہوئی۔ جو ہوا اس پر ہم نے وسیب زادوں سے ہاتھ جوڑ کر معذرت کی بلکہ دو کالم بھی لکھے اور تفصیل کے ساتھ اپنی معروضات پیش کیں۔
انسان تجربوں سے سیکھتاہے ہم نے بھی سیکھا۔ اس سبق کی اہم سطر یہ رہی ہے کہ سیاسی جماعتوں سے فاصلہ پر رہا جائے تاکہ قلم مزدوری متاثر نہ ہو۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ فاصلہ کے باوجود کسی نہ کسی سے ہمدردی تو ہوتی ہے۔ وہ ہمیں بھی ہے۔ اے این پی اور پیپلزپارٹی کے ساتھ سرائیکی قومی تحریک میں جدوجہد کرتی جماعتوں کےلئے محبت بھرا نرم گوشتہ ہے، کیوں نہ ہو، آخر ہمارا خمیر بھی سرائیکی وسیب کی مٹی سے گندھا ہے،
خیر ہم لالہ اقبال کا ذکر کررہے تھے، داڑھی میں اتری سفیدی محنت مشقت کی وجہ سے ہے ورنہ لالہ ابھی جوان ہیں۔
اپنے پرعزم جذبوں کے ساتھ ان دنوں سرائیکی قوم پرست جماعت سرائیکستان ڈیموکریٹ پارٹی کا حصہ ہیں۔ ان کی اور ہماری مشترکہ پارٹی کا راتوں رات کریاکرم ہوا تو لالہ بضد تھے کہ ہم نئی پارٹی بناتے ہیں۔ وہ بضد تھے کہ میں لیاقت پور شفٹ ہوجائوں مل کر کوئی چھوٹاموٹا کاروبار کرتے ہیں اور ساتھ وسیب کی خدمت بھی۔ پارٹی بنانے کی دھن اس قدر سوار تھی کہ انہوں نے ایک عدد مکان برائے قیام بھی دیکھ لیا۔ تب یہ عرض کرتے بنی کہ ملازمت چھوڑ کر لاہور واپسی اب ممکن نہیں اب اگلا سوال یہ تھا کہ پھر ہم کیا کریں؟
عرض کیا نوجوانوں کی سیاسی تربیت کیجئے اور جو سرائیکی جماعت پسند آئے اس میں شامل ہوجائیں۔
ایک دن لالہ نے ایس ڈی پی میں شمولیت کا اعلان کردیا۔ ہمیں خبر تھی وہ آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ متحرک آدمی ہیں کچھ نہ کچھ قومیات کے حوالے سے کرتے رہنے کی دھن سر پر سوار رہتی ہے۔ ان کی شخصیت کا دوسرا رخ ایک سماج سدھار کارکن کاہے۔
اپنے چار اور کے لوگوں کی خدمت اور ان کے مسائل کے حل کے لئے ہمہ وقت تیار، کبھی کبھی اس کا نتیجہ اچھا بھی نہیں نکلتا۔ یہی ان کے ساتھ ہوا۔ علاقے کے چٹی دلالوں، وڈیروں، کاروباری سیاست کاروں اور رشوت خور پولیس اہلکاروں کی آنکھوں میں کھٹکتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ان سماج دشمن عناصر نے متحد ہوکر ان کے خلاف سازش بھی کی لیکن منہ کی کھانا پڑی۔
اس سازش سے بچ نکلنے کے بعد لالہ مزید عزم و حوصلہ کے ساتھ میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔
اظہر بلوچ اور لالہ مل کر بہت سارے نیک کام بھی کرتے ہیں۔ مستحق لوگوں کی بساط مطابق مالی مدد، طلباء کیلئے کتابوں کی فراہمی، کامیابی حاصل کرنے والے طلباء و طالبات کو ایوارڈ دینا بھی شامل ہے۔ سرائیکی اہل دانش، شاعروں اور ادیبوں کےا عزاز میں محافل کا اہتمام اور یاد آوری کے لئے اعزازی شیلڈز بھی۔ سرائیکی قومی تحریک کا اصل سرمایہ لالہ جیسے پرعزم اور محنت کش سیاسی کارکن ہیں۔
ان کے دم سے ہی تحریک آگے بڑھ رہی ہے ورنہ اخباری بیانی اور فیس بکی ہجوم تو بے شمار ہے گو ان کی بھی موجودہ حالات میں اپنی جگہ اہمیت ہے لیکن تحریک کو بنیادی طورپر ایسے ہی ساتھیوں کی ضرورت ہے جو اپنی بساط سے بڑھ کر کام کرتے اور آگے بڑھتے ہیں۔
چند سال اُدھر لالہ، حسن معاویہ ایڈووکیٹ اور ہم نے مل کر طے کیا تھا کہ وسیب کے مختلف اضلاع میں نوجوانوں کی تربیت کیلئے ہر ماہ ایک مکالماتی نشست کا اہتمام کریں گے۔ افسوس کہ اس پر عمل نہ ہوسکا۔ سچ یہ ہے کہ اس میں بھی قصور ہمارا ہی ہے۔ ہم ہی وعدے کے باوجود ہر ماہ لاہور سے وسیب نہ آسکے۔
لیاقت پور میں سرائیکی قومی تحریک کا حقیقی اور روشن چہرہ لالہ ہی ہیں کیوں نہ ہوں جس محنت کش نے محنت مزدوری کے ساتھ اولاد کی جدید تقاضوں کے مطابق تربیت میں کوئی کسر نہ اٹھارکھی ہو اور اولاد بھی خصوصاً صاحبزادیاں سرائیکی قومی تحریک کی پرجوش کارکن ہوں۔
لالہ شاندار مجلسی آدمی ہے گھنٹوں مختلف موضوعات پر بات کرنے اور دلیل کے ساتھ اپنی رائے پیش کرنے کا فن بھی جانتا ہے۔
جب کبھی فون کرے یہ ضرور پوچھتاہے مرشد میں اب کون سی کتاب پڑھوں۔ بتائی ہوئی کتاب خریدنے کے لئے انہیں ملتان تک کا سفر کرنے پڑے تو خوشی سے کرتاہے۔ سرائیکی قومی تحریک میں اپناحصہ ڈالنے کے ساتھ لالہ کتاب دوست، مہمان نواز اور دوستوں کا خیرخواہ ہے۔
اس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کوئی اس سے ناراض نہ ہو لیکن فطرت کا اصول یہ ہے کہ سبھی راضی کہاں ہوتے ہیں۔ کچھ ناراض کچھ راضی زندگی اسی کا نام ہے۔
لالہ ہمارے دوست ہیں۔ ہمارے زیادہ یا شاہ جی کے، اس کا فیصلہ وہی کرسکتے ہیں۔
فقیر کی رائے یہی ہے کہ لالہ سب کا دوست ہے اور سب سے زیادہ اپنے بچوں کا ہونابھی چاہیے، اولاد سے دوستی والدین کیلئے زیادہ سودمند رہتی ہے اس سے مسائل پیدا نہیں ہوتے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: