حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی جہاندیدہ سیاسی کارکن ہیں۔ ایک ٹی وی چینل میں (یہ چینل ان دنوں جاتی امراء نیوز بنا ہوا ہے) میزبان کی سازشی تھیوری کو یہ کہہ کرروند دیاکہ سیاسی جدوجہد کے دوران اتحادیوں کے ساتھ کھڑے ہیں وقت آیا تو اسمبلیوں سے استعفیٰ بھی دیں گے۔
جاتی امراء نیوز کے مالک کی زرداری سے پرانی عداوت ہے لیکن اس عداوت میں زیادہ آگ اس نفرت کی ہے جو مالک کے مرحوم والد کو بھٹو صاحب اور پیپلزپارٹی سے رہی۔
جاتی امراء نیوز کے مالک کاالمیہ یہ ہے کہ کئی ماہ تک اسے جیل میں عمران خان کی حکومت نے رکھا۔
بظاہر کیس پراپرٹی کا تھا لیکن درپردہ ایک ویڈیو کا معاملہ ہے جو راوی کے بقول اس نے ریحام خان سے ساڑھے چارکروڑ میں خریدی تھی۔
راوی کی خبر میں سچائی کتنی ہے اس پر بحث اٹھانے کی ضرورت نہیں البتہ یہ حقیقت ہے کہ گرفتاری اور کئی ماہ تک جیل میں رکھنے کی وجہ صرف ایل ڈی اے کے قواعد کی مبینہ خلاف ورزی نہیں ہوسکتی۔
کچھ نہ کچھ ہے ضرور جس کی پردہ داری فریقین کو مقصود ہے۔ سرائیکی میں کہتے ہیں
’’لالہ بھاہ لائو ساکوں کیا‘‘۔
بس یہی بات اپنی بھی ہے ہمیں کیا قصہ جو بھی ہو ، ابھی تو یہ ہے کہ سعید غنی نے جاتی امراء نیوز کی سازی تھیوری اور پروگرام کے میزبان کے کینے دونوں کا مزاج درست کردیا، پی ڈی ایم کے اس اعلان کےبعد کہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دیں گے اور یہ کہ تمام پارٹیوںکے ارکان اسمبلی 31دسمبر تک اپنے استعفے پارلیمانی لیڈروں کے حوالے کردیں گے۔
منگل کی شام سے کچھ سیاپا فروش بولائے بولائے پھرتے ہیں اور تو اور پیپلزپارٹی کے 1988ء والے دور میں پیپلز میڈیا سیل کے نام پر لاکھوں روپے ماہوار لے کر 1990ء میں لاہور میں تین جدید حمام کھولنے والے سینئر تجزیہ نگار کو بھی آگ لگی ہوئی ہے۔
اس سینئر تجزیہ نگار میں رتی برابر شرم ہو تو وہ پیپلز میڈیا سیل کے نام پر وصول کی گئی 3کروڑ 42لاکھ روپے کی رقم پیپلزپارٹی کے منہ پر مارے لیکن وہ ایسا نہیں کرے گا سارے ٹھاٹھ باٹھ اس رقم سے تو ہیں ورنہ سبھی جانتے ہیں کہ حضرت کی اوقات کیا تھی۔
پیپلزپارٹی سیاسی جماعت ہے خامیاں اورخوبیاں ہر جماعت میں ہوتی ہیں اس میں بھی ہوں گی البتہ اس کے قائدین اور کارکنوں کی جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم میں پرعزم جدوجہد اور قربانیوں سے انکار ممکن نہیں یہ پیپلزپارٹی ہی تھی جس کے کارکنوں نے خودسوزی سے پھانسیاں تک مسکراکر جھیلیں۔ ہزاروں کارکنوں نے کوڑے کھائے۔
غلطیاں ہوئیں تو تنقید بھی ہوئی لیکن صحافتی تاریخ شاہد ہے کہ جاتی امرا نیوز نے پیپلزپارٹی کی قیادت کی کردار کشی کے لئے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے مہرے کے طور پر کردار ادا کیا۔
اب بھی آزادی اظہار کے اس علمبردار ادارے کا آزادی اظہارکے نام پر گھنائونا کردار سب کے سامنے ہے۔ ایک جماعت کے ترجمان کے طور پر فرائض ادا کرتے ہوئے اس کے مالک اور ملازمین صحافتی اصولوں کو بھول جاتے ہیں۔ پیپلزپارٹی سے مالکان کے خاندانی عناد کا حساب چکاتے اس کے ملازمین کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ انہوں نے مشرف دور میں بڑی قربانیاں دیں۔
کیا تنہا اس ادارے کے ملازمین نے قربانی دی؟
پرویز مشرف اور موجودہ جاتی امرا نیوزکے مالکان کا تنازع کچھ اور تھا۔
مالک کا خیال تھاکہ وہ بادشاہ گر ہے اس کے ادارے نے نوازشریف حکومت کا تختہ الٹے جانے اور پھر بعد کے برسوں میں مشرف کو جس طرح ایک آزاد خیال رہنما کے طور پر قوم کے سامنے پیش کیا اس کا حق خدمت صحیح طور پر نہیں ملا۔ جنرل مشرف نے ایک دن متعلقہ اداروں سے ان شکووں کے حوالے سے پوچھا تو پتہ چلا کہ اپنے حق سے زیادہ سرکاری اشتہارات لینے والے اس ادارے کے شکوے کبھی ختم نہیں ہوتے۔
ایک شکوہ یہ بھی ہے کہ فلاں شخص کو پرنس کریم آغا خان کی درخواست پر رہا کیوں کیا گیا۔ پچھلے بارہ ساڑھے بارہ برسوں سے جاتی امراوء نیوز کا کردار نبھاتے اس میڈیا ہائوس نے پیپلزپارٹی کے 2008ء سے 2013ء تک کے دور میں خوب رونق میلہ لگایا تھا۔
قیامت مسعود تو جاتی امراء پر نشر ہونے والے اپنے پروگرام میں زرداری کا تختہ الٹ کر سوتے تھے۔ بات طویل ہوگئی عرض یہ کرنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے لئے پسندوناپسندیدگی ہونا بڑی بات ہے نہ یہ خلاف واقعہ بنیادی بات یہ ہے کہ ذاتی دشمنی کو صحافت کی آڑ میں نکالنے کے عمل کی تائید نہیں کی جاسکتی۔
یہ بجاہے (اگر راوی کی بات درست ہے) کہ جاتی امرا نیوز کے مالک نے برُی بہادری سے جیل کاٹی اور ’’ویڈیو‘‘ کی موجودگی سے انکار کردیامگر کیا اپنے دنیاوی رازقوں کی خوشنودی کے لئے دوسروں کی سیاست کو مشکوک بنانے کے لئے جملہ بازی آزادی صحافت ہے؟
یہ بہت عجیب ملک ہے یہاں آئی بی کے سربراہ کی معرفت اخبار کا ایڈیٹر بننے والا بھی آزادی صحافت کا علمبردارہونے کا مدعی ہے۔
کالم یہاں تک لکھ پایا تھاکہ راوی نے ایک اور اطلاع دی۔ حکومت پنجاب نے صوبہ بھرمیں تین ہزار سے زیادہ افراد کو ایک سے تین ماہ تک نظربندکرنے کے لئے گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے یہ گرفتاری ان فہرستوں کے مطابق ہوگی جو حال ہی میں وزارت داخلہ کے ایما پر مرتب کی گئی ہیں۔
یاد رہے کہ وزارت داخلہ کے حکم پر پنجاب بھراور خصوصاً لاہور، شیخوپورہ، گوجرانوالہ، فیصل آباد، سیالکوٹ وغیرہ میں نون لیگ، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کے فعال رہنمائوں اور کارکنوں کی فہرستیں مرتب کی گئی تھیں اب پنجاب حکومت 13دسمبر کا جلسہ روکنے کے لئے ان فہرستوں میں شامل افراد کو گرفتار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت ان گرفتاریوں کی منظوری دے چکے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر