نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کچھ تو حکومت کا بھی فرض ہے ۔۔۔حیدر جاوید سید

خود کو ناگزیر، مسیحا اور نجات دہندہ کے طور پر پیش کرنے والی اسٹیبلشمنٹ، سابق سوویت یونین سے زیادہ طاقتور اور باوسائل نہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حیدر جاویدسید
معیشت واقعتاً درست سمت آگے بڑھ بلکہ بھاگ رہی ہے، اسی لئے تو اڑھائی سال قبل برے حالات میں بھی ناشتہ اور دو وقت کا کھانا ہو جاتا تھا، اب اچھے حالات ہیں تو مشکل سے ایک وقت کا کھانا ہی ہوپاتا ہے۔ وزیراعظم کو کون سمجھائے کہ حضور معیشت زبانی دعوؤں سے نہیں عمل اور ٹھوس اقدامات سے مضبوط ہوتی ہے، حکومت کو احساس ہے کہ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوچکی، مسائل دن بدن گمبھیر ہوتے جارہے ہیں، بظاہر یہی لگتا ہے کہ ”گوئبلز” برانڈ حکومت کا خیال ہے کہ دعوؤں اور اعلانات سے فاقہ مستی دور ہو سکتی ہے۔
اب تو لوگ گلی محلوں میں یہ کہنے لگے کہ ان سے تو وہ چور اچھے تھے جن کے دور میں دو وقت کی روٹی تو عزت سے مل جاتی تھی۔
حزب اختلاف کے میڈیا ٹرائل میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے وزیر مشیر لمبے لمبے بھاشن دیتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ جھوٹ کا سر ہوتا ہے نا پاؤں۔
مجموعی صورتحال سے جس طور حکومت لاتعلق ہے اور صرف سیاسی انتقام میں پیش پیش اس سے بھی لوگوں کی مایوسی بڑھ رہی ہے۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ سابقہ ادوار میں تحریک انصاف کے میلے ٹھیلے اگر اس کا جمہوری حق تھے تو آج کی حزب اختلاف پر پابندیاں کیوں؟
پچھلے پندرہ دنوں کے دوران پنجاب پولیس حزب مخالف کے رہنماؤں اور کارکنوں کیخلاف درجنوں مقدمات درج ہوئے۔ چند دن قبل پی ٹی آئی کے راولپنڈی سے ایم این اے شیخ راشد نے کورونا ایس او پیز کو روندتے ہوئے بڑا اجتماع منعقد کیا، تب کیا کرونا ایک یوم کی رخصت پر تھا؟
کیوں نہ اس حکومتی ایم این اے کیخلاف مقدمہ درج کیا گیا۔
کیا حکومت یہ نہیں سمجھتی کہ اس سے اپوزیشن کے اس مؤقف کو تقویت ملی کہ کورونا کے پھیلاؤ کا پروپیگنڈہ سیاسی ہے۔ اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ سیاست بند گلی کی طرف بڑھ رہی ہے وجہ یہی ہے کہ سیاست نہیں نفرتوں کا کاروبار ہورہا ہے اور یہ دوطرفہ ہے۔
اپوزیشن کے بعض رہنماؤں کے بارے میں حکومتی اکابرین کی زبان دانیوں کے مظاہرے اور جوابی راگ دونوں سے کشیدگی بڑھ رہی ہے۔
کیسی عجیب بات ہے کہ شبلی فراز بھی حافظ سلمان بٹ بننے کی شعوری کوششوں میں مصروف ہیں۔ ویسے تو پوری تحریک انصاف اپنے قیام کے دن سے ہی اوئے توئے سے بات کرتی ہے لیکن اب تو ایسا لگتا ہے کہ بدزبانی وجہ عزت وتکریم قرار پائی ہے۔
ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ دوسری جماعتوں سے ہجرت کر کے تحریک انصاف میں جانے والے اپنی اپنی سابقہ لیڈرشپ کے بارے میں بدزبانیوں کے ریکارڈ بنا کر وفاداری کا یقین دلانے میں پیش پیش ہیں۔ کیا تحریک انصاف کے
”اصل مالکان” اس حقیقت کو بھول گئے ہیں کہ اس طرح کی بدزبانیوں کی سرپرستی انہوں نے پچھلی صدی کی آخری دو دہائیوں میں بھی کی تھی پھر نتیجہ کیا نکلا؟
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے یہاں فرقہ پرست فرقہ پرستی کی مذمت کرتے دکھائی دیتے ہیں، اسی طرح بدزبان بھی دوسروں پر اُنگلیاں اُٹھاتے ہیں، ٹیکس نہ دینے والے ٹیکس چوری کے قصے بیان کرتے ہیں، کڑوا سچ یہ ہے کہ جس کو موقع ملتا ہے ”داؤ” لگانے میں دیر نہیں کرتا، اس سب کے باوجود اگر یہ کہا جائے کہ معاملات ابتر ہوتے جارہے ہیں اور یہ کہ نفرت سے عبارت انصافی طرزسیاست کی وجہ سے نظام اور لولالنگڑا جمہوری عمل بند گلی میں پھنس کر رہ جائے گا تو یہ غلط نہیں ہوگا۔
کاش ہم سمجھ پائیں کہ ناگزیر کچھ نہیں ہوتا لیکن ناگزیر کہلانے کے شوق میں جن تباہیوں کے بیج بوئے جاتے ہیں ان کی فصل بعد کے لوگوں کو کاٹنا پڑتی ہے
جیسا کہ جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف کی بوئی فصلوں کو اب خون کے آنسو رو کر کاٹا جارہا ہے۔
مکرر عرض کرتا ہوں سیاست پہلے تجارت بنائی گئی اور اب گالی، افسوس کہ تجارت بنوانے میں بھی اسٹیبلشمنٹ پیش پیش تھی اور اب گالی بنوانے میں بھی بنیادی کردار اسی کا ہے۔
خود کو ناگزیر، مسیحا اور نجات دہندہ کے طور پر پیش کرنے والی اسٹیبلشمنٹ، سابق سوویت یونین سے زیادہ طاقتور اور باوسائل نہیں۔
مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ تجربوں کے شوقوں اور خبط عظمت وناگزیر ہونے کی سوچ سے نجات حاصل کر لی جائے۔
اس نیک کام میں جتنی تاخیر ہوئی مسائل اسی قدر سنگین ہوتے جائیں گے۔
یہ ملک جیسے بھی بنا بن گیا البتہ یہ طے ہے کہ کسی معرکہ میں ہاتھ آیا مقبوضہ علاقہ نہیں کہ مفتوحین کو فاتحین کی مرضی سے زندگی بسر کرنا ہو۔
برصغیر کی تقسیم کی حقیقی وجہ مسلمانوں کو لاحق یہ خطرہ تھا کہ ہندو اکثریت مسلم اقلیت کے حقوق دبا لے گی، تقسیم ہوگئی، الگ ملک بن گیا اب پچھلے 73 برسوں کا حساب کر لیجئے یہاں کس نے کس کے حقوق پامال کئے، کون ہے جو حقیقی عوامی جمہوریت کو اپنی ”چودہراہٹ” کیلئے خطرہ سمجھتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چودہری کے نام اور طریقہ واردات سے واقف سبھی ہیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ ان کا کوئی دوسرا شخص نام لے۔
معذرت خواں ہوں بات دوسری طرف نکل گئی، ابتدائی سطور میں عرض کیا تھا کہ حالات دن بدن بگڑتے جارہے ہیں، مہنگائی کا سیلاب بلا رکتا دکھائی نہیں دیتا، بیروزگاری بڑھ رہی ہے بلکہ اب تو کورونا سے متاثر معیشت والے عرب ملکوں سے لوگوں کی واپسی بھی شروع ہوگئی، ان حالات میں حکومت نے اپنے فرائض ادا کرنے ہیں یا سابقہ حکومتوں کو کوستے رہنے سے کام چلانا ہے اس کا جواب تو سامنے دیوار پر لکھا ہے۔
مکرر عرض ہے حکومت کے مہربان حزب اختلاف پر الفاظوں کی چاند ماری کی بجائے اپنے فرائض پر توجہ دیں۔ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کے خاتمے کیلئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے، سابقہ حکمرانوں پر جاری گولہ باری سے مسائل حل نہیں ہونے اور یہ گولہ باری کرتے وقت اگر اپنی صفوں میں موجود ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں پر ایک نظر ڈالی جائے تو ممکن ہے بہتری کی سوچ پیدا ہو۔
حرف آخر یہ ہے کہ اپوزیشن کا تو کام ہی حکمران قیادت کی بھد اُڑانا ہوتا ہے یہ تو حکمران قیادت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ماحول کو پراگندہ ہونے سے محفوظ رکھے۔
یہاں صورتحال مختلف ہے ایسا لگتا ہے کہ حکمران قیادت چاہتی ہے کہ رولے رپے چلتے بڑھتے رہیں تاکہ آنے والے دنوں میں وہ یہ کہہ کر لوگوں کو احمق بنائے کہ ہمیں تو اپوزیشن نے کام ہی نہیں کرنے دیا۔
ارے حضور! اپوزیشن تو رکاوٹیں ڈالے گی، یہ تو حکومت پر ہے کہ وہ ایسی حکمت عملی اپنائے کہ اس کی کارکردگی پر سوال اُٹھے نا یہ طعنہ ملے کہ اس نے صرف اپوزیشن کو رگیدنے اور دیوار سے لگانے کو ہی اپنی ذمہ داری سمجھ لیا تھا۔
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اڑھائی سال گزر گئے براہ کرم اب تو پچھلی حکومتوں کے نوحے پڑھنے کی بجائے اپنی کارکردگی پر توجہ دیجئے اور بتائیے کہ آپ نے اب تک کیا تیر مار لئے۔ یہ ہرمسئلہ کو پچھلی حکومتوں سے جوڑ دینا اور پھر دھواں دھار بیان بازی فریب کے سوا کچھ نہیں۔

About The Author