حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم دونوں ہی تھے یادوں کو پھرولتے ہوئے۔ چار اَور تو مسائل ہی مسائل ہیں۔ فقیر راحموں نے لقمہ دیا
’’مسائل کا سورج ہمیشہ سوا نیزے پر رہتا ہے‘‘۔ اثبات میں سر ہلانے کے سوا چارہ نہیں۔
بے اختیار سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم یاد آگئے۔ ارشاد فرمایا
’’انسان کا ظرف علم اور عدل زبان میں پوشیدہ ہے‘‘۔
نصف صدی سے تیرہ برس اوپر ہونے کو ہیں تعلق میدانوں کی دھول نہیں ہوا کرتا۔ تعلق وقت کے ساتھ مستحکم ہوتے ہیں اور بستیاں بستے بستے بستی ہیں۔
فقیر راحموں نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا۔
’’ذات کے اکلاپے کا علاج خاموشی نہیں تقسیم ہے۔ جو ہو ، جتنا بھی ہو بانٹ لیا جائے‘‘
عرض کیا،جمع پونجی ہے کیا؟
دامن جھاڑتا ہوا وہ اُٹھا اور ریک میں سے کتاب نکالتے ہوئے بولا۔
’’سانسوں کا رقص جاری ہے اپنے وقت پر تمام ہوگا‘‘ سانسوں کا رقص؟ ٹک ٹک دیکھتے سوال کیا۔ جی ہاں! جواب ملا۔
رقص ذات کے نظارے ہی الگ ہیں ،
ساعت بھر کے وقفے سے کہا بھگت کبیر کہہ گئے۔
’’مورکھ تو کسی حال میں شاداں نہیں ہوتا‘‘
اور یہ ناشکرا پن نسل درنسل منتقل ہوتا ہے۔ شاہ اتنے کوڑھ مغز کیوں ہو کبھی بات سمجھ بھی لیا کرو، سرجھکائے ساری باتیں سننا پڑتی ہیں، باتیں ہی تو ہیں ان کے سوا کیا ہے۔
فقیر راحموں پھر بولے! ’’بھید کے تالے کی چابی کلام میں ہے۔ خاموشی بھید کو اور کلام آدمی کو زیبا ہے ، تجاوز دونوں میں مناسب نہیں‘‘۔
کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے میں نے سوچا، فقیر اب فلسفہ گھوٹ کے پھیلانے پر مصر ہے۔
یادوں کی گٹھڑی کھولتے ہی بنی۔ حافظ شیرازی رح نے دستک دی۔
’’بھید کلام تک ہی بھید رہتا ہے ادھر بات شروع ہوئی اُدھر بھید کو پر لگ گئے‘‘۔
ہم عہد نفساں کے ستائے مارے یہ باتیں کب سمجھتے ہیں۔ سمجھنا جن کا فرض تھا انہوں نے آنکھیں پیٹ سے لگا لیں، نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔کیا ہم وہ دن دیکھ پائیں گے جب لوگ یہ سمجھ چکے ہوں کہ جہالت، جھوٹ اور سینہ زوری فساد کی جڑ ہیں۔
ان تینوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے فرزانگی کا مظاہرہ ضروری ہے؟
ماہ وسال بیت چکے، ایک دن فقیر راحموں سے دریافت کیا تھا۔
’’من مندر کب آباد ہوتا ہے؟ ٹھٹھ اُڑاتے ہوئے اس نے کہا ’’شاہ! زمین ہو تو فصل کاشت ہوتی ہے ،لوگ بھی عجیب ہیں جس مقام پر دانش کے چراغ جلانے چاہئیں وہاں مورتیاں رکھ دیتے ہیں‘‘۔
مطالعے نے ذہن پر دستک دی ، یاد آیا ضابطے بہت ضروری ہیں مگر مساوی اطلاق اس سے بھی زیادہ ضروری ہے ورنہ دھونس والے پیٹ بھریں گے اور محکوم بدحال رہیں گے۔ کیسی شاندار بات ہے ،یہ کہتے سبھی ہیں مگر بالادستوں کیخلاف محکوموں کو میدان عمل میں لانے کیلئے ان کی تربیت کا حق کوئی کوئی ادا کرتا ہے۔
پیٹ بھروں کی مستیاں عجیب ہوتی ہیں۔ کاہنوں کے باغی سامت نے کہا تھا
’’کاہن فریب دے رہے ہیں ،انہیں فقط سونے چاندی چڑھاؤں اور پیٹ سے غرض ہے۔ وہ مالک عادل کیسے ہوگا جو کاہنوں کا پیٹ بھرے اور اناج اُگانے والوں کو بھوکا سلائے؟‘‘
ہم کس طور زندگی کے سلسلہ کو جوڑیں۔ مطالعے کے اوراق پلٹیں، کب اور کس کی بات کریں۔ چھ دہائیوں میں تو بس یہی سمجھ میں آیاجو چاراَور کے لوگوں سے اپنی ذات سے زیادہ محبت نہ کر پائیں وہ مقصد زندگی سے کیونکر شناسا ہو سکتے ہیں‘‘۔
مجھے ان سموں فضیل بن عیاض یاد آئے۔ کہا تھا
’’عالمین کے رب نے کسی پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا تخلیق کے ظرف کو خالق سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے‘‘۔
یہاں تو صورت یہ ہے کہ ہر شخص خود کو عقل کل سمجھتا ہے۔ خودپسندی کے مرض لاعلاج کا شکار ہجوم ہے۔ ہجوم کیا ہے ،آدمیوں کا جنگل ہے۔
فقیر راحموں نے کاندھا تھپ تھپاتے ہوئے کہا ’’شاہ! جو درسِ زندگی سے منہ موڑ جاتے ہوں انہیں گھوٹ کر تو کچھ نہیں پلایا جا سکتا‘‘۔
سیدی شاہ لطیف بھٹائی کی یادوں نے دستک دی۔ کہہ رہے تھے ’’ہائے ری انا۔ کیسے قربان کریں لوگ اسی سے بندھے تو جیتے ہیں‘‘۔
فقیر راحموں گویا ہوئے ’’جس کو یار کے کوچے جانا ہو وہ اپنے اندر اُتر جائے‘‘۔
کیا کمال بات کہی حافظ شیرازی نے
’’دوست کی گلی میں پہلا قدم وہی رکھ پاتا ہے جسے میخانے کی دہلیز عبور کرنے کا سلیقہ آتا ہو‘‘۔
یہاں تو لوگ یوں اترا اترا کر چلتے ہیں جیسے زندگی ان سے پوچھ کر سانس لیتی ہوئی آگے بڑھتی ہو۔
فقیر راحموں نے یادوں کی گٹھڑی باندھنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ’’عیب جوئی میں یکتا لوگوں کو کون سمجھائے کہ یہ کار لاحاصل ہے۔ زندگی کے پیچھے بھاگتے چلے جانے کا فائدہ‘‘؟
اس سمے شاہ حسین رح یاد آگئے ،فرما تے ہیں
’’زندگی بس صبح سے شام تک کی مسافت کا ہی تو نام ہے، لوگ نہ جانے کیوں اپنا حق ادا کرنے کی بجائے عیب جوئی میں پورا دن برباد کر دیتے ہیں‘‘۔
مادھو لال کے شاہ حسین نے ہی کہا تھا۔
’’حساب کا دفتر کھلنے سے پہلے آدمی ایک نگاہ خود پر ڈال لے تو خالق کے سامنے سرخرو ہو سکتا ہے لیکن یہاں یار کے سامنے سرخرو ہونے کی تمنا کتنوں کو ہے؟
صاف سیدھی بات ہے خواہشوں کی بکل مارے زمین پر اتراتے پھرتے لوگوں کی اکثریت کا خیال ہے جو ہے اس سے آگے کچھ نہیں اس لئے پا لینے کا ہر طریقہ جائز ہے۔
فقیر راحموں ایک دن کہہ رہے تھے۔
’’شاہ! جو دیتا ہے وہ حساب بھی لے گا‘‘ عرض کیا! یاروں سے حساب کیسا؟۔
رسان سے بولے یار حساب نہ بھی کرے تو اس کے سامنے جاتے ہوئے اپنے اندر کا آدمی حساب کرنے لگتا ہے جواب قلب پر اُترتا ہے۔
ہم بھی عجیب لوگ ہیں، زندہ رہنے کیلئے سہارا بننے والوں کی خوشنودی اور بالادستوں کی اطاعت کو حاصل زندگی سمجھتے ہیں۔
معاف کیجئے گا! ذہن ودل کے کواڑ بند کر کے بیٹھ رہنے کی بدولت سوالوں سے نجات نہیں مل جاتی۔ سوال زندہ آدمیوں کے ذہن میں ہی آتے ہیں اور جواب زندوں پر ہی واجب ہے۔
عقل پر لٹھ برسانے والے ہوں یا مُردے ان سے سوال کیسے؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر