مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرحدوں پر کبھی جب میری رن پڑا ۔۔۔ حسن مجتبیٰ

کیا یہ انسانیت کے خلاف ہونے والے جنگی اور غیر جنگی جرم فقط خون کے دھبے ہیں جو بارشوں سے دھوئےجا سکتے ہیں؟

حسن مجتبیٰ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرا شہر پاک انڈیا کی سرحد پر ہونے کی وجہ سے لوگوں نے وہاں ایک استقبالیہ کیمپ قائم کیا جو قومی نغموں اور اللہ اکبر کے نعروں سے گونجتا۔ وہاں محاذ جنگ پر جانے والی فوجی گاڑیوں کے کاروانوں کو پلاؤ کی دیگیں، چنے اور گڑ کی تھیلیاں اور پھولوں کے ہار پیش کرتے۔ احمد فراز کے یہ شعر میں نے بہت برس بعد سنے۔
سرحدوں پر کبھی جب میری رن پڑا
آنسوؤں سے تمہیں الواداعیں کِہیں
تم ظفر مند تو خیر کیا لوٹے
نذر تم کو کیا جو مجھ سے بن پڑا
لیکن اس استقبالیہ کیمپ کے نذرانے اور ترانے اس وقت خاموش ہو جاتے جب وہاں سے بنگالی پاکستانی فوجی گزرتے۔ وہ قافلے خاموش گزر جاتے بغیر استقبال اور گرم جوشیوں کے، ان سرگوشیوں کے بیچ کہ بنگالی غدار ہیں، یہ فوجی بھی غدار ہیں ’دشمن‘ سے ملے ہوئے ہیں۔ میں نے سنا کہ چاول کی بچی ہوئی دیگیں بھی لوگوں نے سرحد کی ریت میں دفن کرلیں جب یہ سنا کہ اس یونٹ کا میجر اور سپاہی بنگالی ہیں۔ ’ جھوٹ بولدی ہے جھوٹیے آکاش وانیئے،
’بیکار بکواس کمپنی (بی بی سی)، لوگ ناپسندیدہ خبریں سن کر کہتے۔
ہرے لباس میں نورانی چہرے والا بزرگ سکھر والے پل پر سے ہندوستانی طیاروں کے گرائے جانے والے بم ہاتھ میں پکڑتے اور نگلتے سب کو دیکھائی دیتا۔ میرے ہندو ہمسایوں کو اپنے گھروں میں سے ’وائرلیس سیٹ رکھنے‘ اور ’راتوں کو ہندوستانی طیاروں کو چندا بیٹری سیلوں کی ٹارچیں دکھانے کے الزام میں فوج گرفتار کر لیتی۔ اب میرے محلے کی مسجد میں اگر کوئی مسافر یا فقیر شب بسری کو آتا تو اسے جاسوس ہونے کے شبہے میں ننگا کر کے تسلی کی جاتی کہ یہ جاسوس نہیں۔ کبھی کبھی اس کا ختنہ بھی شک کا فائدہ نہیں دیتا اگر اس کا رنگ گہرا سانولا اور خود پست قامت ہوتا۔
’امار گھورے رینا تمار گھورے باتی! امر گھورے کرشنا، تمار گھورے جل۔ (ہمارے گھر اندھیری راتیں ہیں اور تمہارے گھر پر روشنی ہے، ہمارے گھر پیاس ہے اور تمہارے گھر پانی)۔ ایک بنگالی لوک گیت کی سطریں ہیں۔ ایک بنگالی لوک گیت میں سکھر بیراج اور جہلم کے پانی کا قصیدہ ہے۔ ایسے لوگ گیتوں جیسے سینہ چاکانِ مشرق کو ہماری فوج عرض پاک نے اپنے ٹینکوں تلے روند ڈالا۔
ہم اسے سقوط ڈھاکہ کہتے ہیں۔ ان کو قتل کرنے کی ایسی عادت تھی جیسے کسی کو شراب یا سگریٹ کی عادت ہوتی ہے، صےافی رابرٹ ہائن نے سابقہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں بنگالیوں کے قتل عام اور زنا بالجبر کے احوال پر مبنی کتاب میں لکھا ہے۔ حمود الرحمٰن کمشن کی رپورٹ میں ایک جگہ لکھا ہے:
کتابوں اور ’واٹر للی‘ سے شغف رکھنے والے ایک چالیس سالہ کرنل نے سب سے’ کم جرم کئے‘ کہ اس نے صرف بنگالیوں کے گھروں کو آگ لگائی۔ غالباً یہ کرنل بعد میں پاکستانی فوج کے چیف آف آرمی سٹاف بھی بنے۔ سندھ میں مارشل لاء ایڈمینسٹریٹر اور گورنر بننے والے ایک اور جنرل نے نیشنل بنک آف پاکستان کی ایک شاخ کو اپنے ہاتھوں سے لوٹا۔

%d bloggers like this: