گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارش کو تھمے کافی وقت ہو چکا تھا لیکن ہوٹل کے قریب لگے کیکر اور پیپل کے درختوں سے پانی کی بوندیں اوپری شاخوں سے ٹپ ٹپ کرتی ہوئی نیچے گر رہی تھیں، اور ان سے بھی زمین اپنی پیاس بجھا رہی تھی۔ نہ جانے کتنی صدیوں سے زمین بارش کے قطروں سے اپنی پیاس بجھاتی چلی آرہی ہے اور یہ پانی کی بوندیں مٹیّ میں سے زمینی تہہ سے گزر کر زمین کی درمیانی خلاؤں میں جمع ہو کر زیر زمین پانی میں شامل ہو کر اندر ہی اندر پانی سے ملاپ کر رہی ہیں۔ روزِ ازل سے بارش اور زمین کا یہ ایسا عمل ہے جسے ہم اوپری سطح پر رہنے والے محسوس نہیں کر سکتے۔
ڈرائیور اپنی سیٹ پر بطورِ پائلٹ بیٹھ چکا تھا اور تیاری کا ہارن بجا رہا تھا۔ تمام مسافر ایک ایک کر بس کے اندر جانے لگے، میں بھی آگے بڑھ کر اندر جانے لگا تو بس کے کنڈکٹر نے میرا شانہ پکڑتے ہو کہا ” نہ بھتریجا نہ ! پہلے توڑ آلیاں کوں باہونڑ ڈے، تیں سیٹ تے نئیں میڈے نال گیٹ اچ کھڑ و کے ونجنڑیں ” مرتا کیا نہ کرتا ایک طرف ہو کے ٹھہر گیا اور ایڑی کے بل کھڑے کنڈکٹر کے سر پر لپٹے رنگین مفلر اور کان کے درمیان اٹکے سگریٹ اور اس سگریٹ کے ٹِکے رہنے کی وجہ جاننے کی کوشش کرتا رہا کہ آخر پورے ملک کے ڈرائیور اور کنڈکٹر وں کا یہ ایک جیسا حلیہ کیوں ہوتا ہے۔ مجھے بس میں تو بیٹھنے کی جگہ نہ ملی،
البتہ احساس فخر ضرور زندہ ہوا تھا کہ میں“باوا آدم”کے زمانے کی راکٹ نما بس میں سوار ہوں۔ اس بس کی کھڑکیاں زیادہ تر شیشوں سے محروم تھیں البتہ کچھ سریا نما سلاخیں ضرور لگا رکھی تھیں ۔ پنج گرائیں سے ایک میل پہلے کنڈکٹر نے مجھے مطلع کر دیا کہ "بھتریجا” بس پنج گرائیں سٹاپ پر نہیں رُکے گی بلکہ تھوڑی آہستہ ہو گی اور آپ نے بس سے اتر کر اسی سمت بھاگنا ہے جدھر بس جا رہی ہے۔ اللہ اللہ کر کے میں اسی طرح پنج گرائیں والی سڑک پر بس کے ساتھ دوڑتے دوڑتے اترا۔ وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ مجھے اترتے وقت کوئی ” تُھڈا یا اُدھرکا” نہیں لگا۔
فورا مجھے اپنی جیب کا خیال آیا، میں نے اپنی قمیض کی ” پاسے والی جیب ” کو ٹٹولا، اپنی جیب کو صحیح سلامت پا کر شکر ادا کیا کہ خدا نے جیب کتروں کی چھری سے بچا لیا۔ میں جیب کتروں کی مہارت کا دل و جان سے قائل ہوں۔ اس لیے پوری طرح محتاط اور بھرپور حفاظت کا انتظام رکھتا ہوں۔ بس میں سفر کے دوران اگر جھٹکے کی وجہ سے کسی پہ گر جاؤں یہ تو ممکن ہے، لیکن اپنی جیب پر سے نظر ہٹا لوں یہ ذرہ مشکل ہے، اگرچہ جیب میں سادہ کاغذ بھی نہ ہو۔ لیکن مجھے یہ بات بالکل گوارا نہیں کہ میں کسی مسجد کے سامنے کپڑا بچھا کر بیٹھوں اور آواز لگاؤں ” میں مسلمان ہوں بھائیو، میں مسافر ہوں "۔
اللہ کا شکر ادا کرنے کے بعد میں سڑک کے مغربی طرف بیٹ کے اندر کے راستے پر چلنے لگا۔سورج غروب ہونے میں ابھی دو گھنٹے باقی تھی اور شام سے پہلے مجھے منزل پر پہنچنا ضروری تھا۔ لال آلی جھوک کا یہ فاصلہ تین چار میل تھا جسے یہاں کے لو گ” لیلا باک” کہتے ہیں، مطلب اتنا قریب کہ لیلے کی منمناہٹ کی آواز سنائی دیتی ہے۔ میں سندھو دریا کے بیٹ کے تل میں اتر کر کچے راستے پر چلنے لگا۔ راستے میں ٹاہلی کے درخت کی گری ہوئی ایک شاخ اٹھائی اسکے خشک پتے صاف کر کے حفظ ماتقدم ایک "سوٹی ” کسی ناگہانی آفت کے لیے بنا کہ ہاتھ میں پکڑ لی۔
ہر طرف خود رو جھاڑیاں، کیکر، پراسوں، املتاس اور لسوڑے کے درخت اپنی پوری آب و تاب سے میرا استقبال کرتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ تھوڑے فاصلے پر ایک تالاب نما پانی کی ” ڈھنڈ” نظر آئی، قریب گیا تو صاف و شفاف اور نتھرا ہوا پانی دعوت ِ نظارہ دے رہا تھا، سوچا سفر کی گرد اور تھکاوٹ بھگانے اور ہاتھ منہ دھونے کے لیے قدرت نے خاص میرے لیے اہتمام کیا ہے۔ پانی شیشے کی طرح شفاف تھا، پانی کے اندر کیا دیکھتا ہوں دو انچ کی لمبائی والے دس پندرہ مچھلی کے بچے ایک قطار میں تیر رہے ہیں، جن کے آگے ایک اسی سائز کی مچھلی کا "پونگا” ہوائی جہاز کی طرح تیر رہا ہے۔
یہ پائلٹ نما پونگا جدھر مڑتا ساری قطار اس کے پیچھے ایسے مڑتی جیسے فوجی پریڈ میں چلتے ہیں۔ میں یہ منظر کافی دیر دیکھتا رہا اور لطف اندوز اور حیران ہوتا رہا۔ میں نے سوچا اگر ڈھنڈ کے پانی کو ہاتھ لگایا تو ارتعاش پیدا ہونے کی وجہ سے ان پونگوں کی پی ٹی یا پریڈ میں خلل پیدا ہو جائے گا، سو ہاتھ منہ دھونے کے پروگرام
کو معطل کر کے دوبارا چل پڑا۔
جاری ہے ۔۔۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ