گلزاراحمد،وجاہت علی عمرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی میں کھٹڑے پہ بیٹھ کر چائے پی ہی رہا تھا کہ اتفاق سے ملتان تا میانوالی کے لمبے روٹ کی بس چائے پانی کے لیے آ رُکی۔ مسافر بس سے ابھی نیچے اتر ہی رہے تھے کہ ہوٹل کے مالک نے مجھے اشارہ کیا کہ ڈرائیور سے پنج گرائیں جانے کی بات کر لو۔ میں نے اپنی "تِلے والی کھیڑی” پہنی اور سیدھا ڈرائیور والی سیٹ کی طرف گیا۔ ٹھیٹھ میانوالی کا ڈرائیور استاد راکٹ بس کے پائلٹ گیٹ سے اک خاص ادا سے نیچے اترا۔ انگڑائی لینے کے بعد ڈرائیور استاد نے اپنے مفلر اور کان کے بیچ اٹکا "گولڈ فلیک” کا سگریٹ اتارا، ہوا کے باوجود دونوں ہاتھوں سے ماچس کی تیلی سلگائی اورایک طویل کش لگایا۔
میں نے ڈرائیور استاد کو سلام پیش کرنے کے بعد ان سے گزارش کی کہ اگر وہ مجھے پنج گرائیں تک اپنی بس میں لے جائیں تو خادم شکرگزار ہو گا۔ ڈرائیور استاد نے میانوالی انداز میں آنکھیں ترچھی کرتے ہوئے مجھے سر تا پیر سُوٹا لگاتے ہوئے ایسے غور سے دیکھا جیسے میرے وجود کا ایکسرے کر رہا ہو۔ بہرحال آج تک معلوم نہ ہو سکا کہ استاد کونسی سُر میں تھے جو انہوں نے فوری کہا کہ ” شَنا! فُکر نہ کر، نال گھن جُلساں، سرگیٹ تے چاء پانڑی تاں پیونڑ ڈے "۔ حالانکہ یہ لمبے روٹ کی بس تھی مقامی سواریاں نہیں اُٹھاتی تھی۔
کچھ مسافر چائے پی رہے تھے، کچھ اپنی” حاجت خاص "کے سلسلے میں ہوٹل کے پیچھے کھیتوں میں جگہ تلاش کر رہے تھے، کچھ ٹولی کی شکل میں باتیں کر رہے تھے کہ دو "گڈوی” والی لڑکیاں آپہنچیں اور اپنی مدبھری آواز میں ایک خاص انداز و اطوار سے گانا شروع کیا جسے سارے مسافر بڑی چاہ سے سننے لگے یہ گڈوی والیاں گانا گانے کے ساتھ ایک ایک مسافر کے کے سامنے اپنی گڈوی آگے کرتیں، ہر بندہ اپنی حیثیت اور چاہت کے مطابق انکی گڈوی میں پیسے ڈال رہا تھا۔ گڈوی والیاں بڑے شوخ انداز اور لہک لہک کر گا رہی تھیں:
چَناں تیڈے وعدے کُوڑے، کُوڑا تیڈا پیار وے۔۔۔
پکھی پردیسیاں دا، کیہڑا اعتبار وے۔۔
اساں تیکوں پیار کیتا۔ دُکھاں دا وپار کیتا۔۔
درداں دے جھولے گھلے، سڑ گئی بہار وے۔
یہ گڈوی والی لڑکیاں بھی عجیب ہوتی ہیں ۔ منہ میں مساگ ۔ ناک میں چاندی کی بُول ۔ موٹی سائز کا کنڈہ یا پوپا۔ترچھا کاجل اور سرخ قمیض کالی شلوار پیروں ننگے لمبی منزل کے مسافروں کو دلکش کورس میں گانا سنا کر رزق کماتی ہیں۔اکثر یہ لوگ چھوٹے سٹیشنوں کے ساتھ کھلی جگہ پر قلقیاں لگا کے رہتے ہیں اور پھر جگہ تبدیل کر کے دوسرے سٹیشن کے قریب بسیرا کرتے ہیں۔ میں نے ایک دفعہ ڈیرہ سے کراچی جاتے ہوئے ملتان ریلوے سٹیشن پر ایک گڈوی والی سے اس وقت کا ناہید اختر کا گایا ہوا مشھور گانا سنا تو عش عش کر اٹھا تھا کمال سُر اور آواز اور گڈوی کی تھاپ تھی ؎
پیار کبھی کرنا نہ کم ۔مر جائے گی تیری عاشی۔۔
یہ بھی پڑھیے:ملاح اور چراغی(قسط 1)۔۔۔گلزار احمد،وجاہت علی عمرانی
جاری ہے
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ