حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سندھ کے دارالحکومت کراچی کے ساتویں شہر پشاور کے خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں آکسیجن سلنڈر نہ ہونے سے تین دن قبل 8مریض جان سے گئے (یاد رہے کہ اس ہسپتال کے بورڈ آف گورنر کے چیئرمین وزیراعظم عمران خان کے کزن نوشیروان برکی ہیں جو امریکہ میں رہتے ہیں لیکن ساری مراعات کے ساتھ کرایہ آمدورفت بھی ڈکاررہے ہیں پچھلے سات سالوں سے)۔
اصولی طور پر سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ اور وزیر صحت محترمہ عذرا پہیجو کو اب تک استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا لیکن پتہ نہیں کیوں نہیں دیا۔
آپ سندھ کے مقابلہ میں خیبر پختونخوا چلیں جائیں، آکسیجن سلنڈر ہتھ ریڑھیوں پر لئے خدمت گار ہسپتالوں کے باہر کھڑے ہوتے ہیں۔
ادویات دوسرے صوبوں کے مقابلہ میں تین سو فیصد سستی ملتی ہیں۔ ترقی بھی ٹھیک ٹھاک ہوئی ہے۔
معاف کیجئے گا سندھ اور خیبر پختونخوا گڈمڈ ہوگئے۔ خیبر پختونخوا کو خیر سے جنت بنادیاگیا ہے۔
پچھلے ساڑھے سات برسوں میں تحریک انصاف نے ایک ارب درخت لگائے، تین سو ڈیم، اڑھائی سو یونیورسٹیاں۔ ارے یونیورسٹیاں کچھ زیادہ نہیں ہوگئیں؟
ویسے یہ ساری آسمان کو چھوتی ہوئی ترقی سوشل میڈیا پر ہے زمینی حقائق کیا ہیں اس کا اندازہ خیبر پختونخوا میں آکسیجن نہ ملنے سے 8افراد کے سانحہ ارتحال کی خبر سے ہوجاتا ہے۔
اللہ معاف کرے یہ واقعہ سندھ میں ہوا ہوتا تو آبپاروی و بنی گالوی لشکراور سیاپا فروشوں نے اب تک فیصل واڈے کی قیادت میں اَت اٹھادینی تھی۔
ہوتاہے ہمارے یہاں ایسا ہی ہوتا ہے اپنی آنکھ کا شہتیر دیکھائی نہیں دیتا اور دوسرے کی آنکھ کا تنکا سات کوس سے نظر آجاتا ہے۔
مثال کے طور پر ہمارے عزت مآب وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم غیرملکی اشاروں پر چل رہی ہے۔
ادھر پی ڈی ایم والے روزاول سے الزام لگارہے ہیں تحریک انصاف کو اسٹیبلشمنٹ امریکہ کے کہنے پر لائی ہے تاکہ سی پیک منصوبے کو پیک کروایا جائے۔
آپ کو یاد ہوگا پی ٹی آئی پر اس طرح کا الزام 2014ء میں بھی لگا تھا۔
یہ سستی الزام تراشی کی سیاست ہمارے یہاں ٹکے ٹوکری ہوچکی پھر بھی سیاستدانوں اور مریدان آبپارہ شریف کو بہت پسند ہے۔ عقل نہ ہو تو موجاں ہی موجاں ہیں۔
سچ پوچھئے تو ہم پاکستانیوں کو کسی بیرونی دشمن کی ضرورت ہی نہیں۔ ہم اس معاملے میں خودکفیل ہیں یقین نہ ہو تو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے۔
ہر دور میں غداری والا چھان بورابکا، پتہ نہیں ان سیاستدانوں اورآبپارویوں کو کب یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ حب الوطنی مخصوص طبقے کی ملکیت نہیں ہوتی۔
المیہ یہی ہے کہ اس ملک میں ہر چیز ’’انہی‘‘ کی ملکیت ہے لوگ باگ تو گھکو گھوڑے ہوں جیسے، اب یہی دیکھ لیجئے، سیاستدانوں کی کرپشن کے ایسے چرچے ہیں کہ ایک پوری نسل منہ بھر کے انہیں گالیاں دیتی ہے
لیکن اسی نسل کی محبوب جماعت میں جو سابق چور حکمرانوں کے متوالے ہیں ان کے بارے کوئی نہیں بولتااور تو اور آپا فردوس عاشق اعوان ہی نہیں ’’جھلیج‘‘ رہیں۔
اللہ خوش رکھے مرشد گیلانی نے انہیں اپنے دور میں وزیر اطلاعات بنایا تھا کس کے کہنے پر صدر زرداری یا کسی اور کے یہ مرشدہی بہتر بتاسکتے ہیں البتہ انہیں وزارت سے ہٹایا اس لئے گیا تھا کہ وہ کابینہ کے اجلاسوں میں موبائل فون آن کرکے تشریف فرما ہوتی تھیں، کیوں؟
اس سوال کا جواب آپا ہی دے سکتی ہیں یا پھر فقیر راحموں جو ان کا عقیدت مند ہے۔
عقیدت مندوں سے یاد آیا ایک بار ہمارے بابا جانی کے مرید چاچا رشید انہیں ملنے آئے، بابا جانی کراچی گئے ہوئے تھے۔ چائے پانی پوچھنے کے بعد ہم نے چاچا رشید سے پوچھا کیسے آنا ہوا؟
بولے یہ میرا بھتیجا ہے نماز روزہ سے بھاگتا ہے، کام دھندہ بھی کوئی نہیں کرتا، بڑے شاہ جی سے تعویز لینا تھا۔ چاچا رشید کے اس بیان کے بعد ہم نے جو جواب دیا وہ اگر یہاں لکھ دیں تو اس فقیر راحموں کی خواہش پوری ہوجائے گی مطلب ’’شہادت دگ تے پئی اے‘‘۔
عقیدت مند ہوتے بڑے بھولے اور سادہ لوگ ہیں دودن اُدھر سوشل میڈیا پر ایک پیر کی تصویر گردش کررہی تھی۔ صحت مند ہٹا کٹا پیر کرسی پرٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے بیٹھاہے اور دادا کی عمر کا سفید ریش مرید زمین پر بیٹھا پیر کی ٹانگیں دبارہا ہے۔
اخلاقی اقدار اور ادب و آداب سے محروم اس پیر سے بندہ پوچھے حضرت یہی تربیت ہے جو بڑوں نے دی؟
خیر چھوڑیں یہاں ہر طرف یہی حال ہے۔ ادب آداب،حفظ مراتب اخلاقیات سب بے معنی چیزیں ہیں۔
’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس یا جس دے گھر دانے اُس دے کملے وی سیانے‘‘والی صورتحال ہے۔
صورتحال تو آجکل پیر بنی گالوی شریف کی بھی کچھ کچھ مخدوش ہی لگ رہی ہے تبھی تو وہ اور ان کے ہمنوا لفظوں کو نیزے بنائے مخالفین کو چھید کرتے پھررہے ہیں۔ پیر بنی گالوی نے دو دن قبل کہا کہ کرسی چھوڑدوں گا این آر او نہیں دوں گا۔
فقیر راحموں کے ایک سجن دوست محمد کہتے ہیں پیر بنی گالوی کو غصہ ہی بہت ہے۔ ہم نے پوچھا کس بات کا تو بولے، پی ڈی ایم کے جلسوں میں اپنے خلاف ہونے والے تقریروں پر۔ عرض کیا تقریریں تو پیر جی آف بنی گالوی بھی خوب پھڑکاتے رہتے ہیں۔
چلیں اس بات کو بھی جانے دیں، یہ جو پی ڈی ایم والے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا سوچ رہے ہیں واقعتاً مستعفی ہونے کا فیصلہ کر بھی لیں گے؟ آپا فردوس عاشق اعوان نے تو اعلان کیا ہے کہ اپوزیشن استعفیٰ دے ہم ضمنی انتخابات کروادیں گے۔
کچھ اسی طرح کی بات ڈنگریات میں پی ایچ ڈی امریکہ پلٹ پروفیسر نے بھی کہی ہے لیکن کیا واقعی حکومت کو ضمنی انتخابات کروانے کا وقت مل جائے گا؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ