مئی 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بہاولنگر کی خبریں

بہاول نگرسے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلوں پر مبنی خبریں،تبصرے اور تجزیے۔

: بہاولنگر
(صاحبزادہ وحید کھرل)

سابق MPA پی پی 243 ہارون آباد چوہدری غلام مرتضی مسلم لیگ ضیاء کے مرکزی راہنماء کی ریسکیو 1122 فورٹ عباس آمد۔ ریسکیو 1122 فو رٹ عباس کے انچارج

محمد ارشد بھٹی اور ان کی uv فرض شناس اور مایہ ناز ٹیم کو وائیٹل فاونڈیشن کی طرف سے ہیلمٹ تقسیم کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کی۔

اس موقعہ پر ان کے ہمراہ صدر انجمن تاجران حاجی محمد سلیم زاہد ،سماجی شخصیت غریب اللہ غازی بھی موجود تھے

اس موقع پر تحصیل انچارج محمد ارشد بھٹی ،

عمران سرور اور محمد فرحاد نے چوہدری غلام مرتضی کو ریسکیو 1122 کی کارکردگی پر

مکمل بریفنگ دی

۔اور ان کی آمد پر ہیلمٹ دینے اور ہمیشہ نیک کاموں اور ادارہ ۔۔سے تعاون پر شکریہ ادا کیا
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::

بہاولنگر

(صاحبزادہ وحید کھرل)

فورٹ عباس کھچی والا
ٹاؤ ن کمیٹی کھچی والا کی حدود میں صفائی ستھرائی کی ابتر صورتحال۔ شہر بھر میں کوڑا کرکٹ اور گندگی کے ڈھیر۔

تعفن سے بیماریاں پھیلنے کا خدشہ۔ واٹر سپلائی کا بوسیدہ نظام بھی غیر موثر زیر زمین پانی کڑوا مضر صحت پانی سے موضی امراض شہر یوں کا مقدر بننے لگی

سماجی کارکن چوہدری اعجاز علی واہلہ کا سیکریٹری بلدیات پنجاب اور ڈپٹی کمشنر بہاولنگر سے اصلاح و احوال کا مطالبہ تفصیلات کے مطابق

ٹاؤن کمیٹی کھچی والا میں تقریباََ 35000 کی آبادی کیلےء صفائی ستھرائی کا کوئی بندوبست نہ ہے حتی کہ پینے کے لیے صاف و شفاف پانی بھی دستیاب نہ ہے

زیر زمین پانی انتہائی کڑوا اور مضر صحت ہے جس سے ڈینگی بخار، ٹائیفائڈ، ملیریا، گردوں کی امراض اور یرقان سمیت متعدد موذی امراض شہریوں کا مقدر بن رہی ہیں

مقامی شہری، اپنی مدد آپ کے تحت، شہر سے تقریباََ 5/6کلو میٹر دور نہر 9-Rاور نہر 7-Rسے پینے کے لیے پانی بھر کر لاتے ہیں

یا پھر غیر شفاف پانی مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہیں عرصہ قبل غلہ منڈی میں ایک فلٹر پلانٹ منظور ہوا جس کا کئی بار افتتاح بھی

ہو چکا لیکن تا حال یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکااور واٹر سپلائی کا نظام بھی انتہائی غیر موثر ہے

کھچی والا کے ممتاز سماجی کارکن چوہدری اعجاز علی واہلہ نے میڈیا کی و ساطت سے سیکریٹری بلدیات پنجاب اور ڈپٹی کمشنر بہاولنگر کیپٹن (ر) شعیب خان جدون سے مطالبہ کیا ہے کہ

ٹاؤن کمیٹی کی حدود میں شہریوں کو فراہمی آب کیلئے موجودہ واٹر سپلائی کے نظام کو موثر،

شہر بھرمیں صفائی کا بندوبست کیا جائے اورکم ازکم 2واٹر فلٹر پلانٹ بھی لگائے جائیں

تا کہ شہریوں کو پینے کے لیے صاف و شفاف پانی اور صفائی ستھرائی کا ماحول دستیاب ہو سکے۔

::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::

(پولیس کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے)

(خیال یار۔۔کالم نگار۔۔۔خدا یار خان چنڑ )

پچھلے دنوں سندھ پولیس کے اے ایس آئی محمد بخش نے شاندار کارنامہ سر انجام دے کر پوری سندھ پولیس کا سر فخر سے بلند کر دیا –
اے ایس آئی محمد بخش نے ایک بے بس اور مظلوم ماں کی فریاد سنی تو اس کے دل میں رحم آ گیا

اور اس کے اندر انسانیت اور فرض شناسی جاگ اٹھی – جس پر اس شخص نے اپنی اور اپنی فیملی کی جان پر کھیل کر ظالم درندوں کے ہاتھوں سے بے یارو مددگار

مظلوم اغوا شدہ بچی کو بازیاب کروایا –
یہ اے ایس آئی کے لیے بڑا رسک بھی تھا مگر جب انسان مظلوم کی مدد کی نیت کرے تو اللہ تعالیٰ اسکی غیبی امداد کرتا ہے –

جب اے ایس آئی محمد بخش اپنی اور اپنی بیٹی کی عزت داؤ پر لگا کر اس بچی کی مدد کے لیے نکل پڑا تو اللہ تعالیٰ نے اسے کامیابی و کامرانی کے ساتھ ساتھ عزت سے

ایسا نوازا کہ سندھ تو کیا پورا پاکستان عش عش کر اٹھا – پورے پاکستان میں سوشل میڈیا پر دھوم مچ گئی –

ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے محمد بخش کے اس اعلی کارنامے پر اسے خراج تحسین پیش کیا – وزیر اعظم عمران خان نے بھی فون کر کے کہا کہ دل کرتا ہے

اے ایس آئی محمد بخش کے ہاتھ چوم لوں – اور اسکے اس اچھے کام کو خوب سراہا – سندھ پولیس کے آئی جی نے بھی فوراً بیان دیا کہ محمد بخش جیسے اے ایس آئی نے سندھ پولیس کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے

-سندھ پولیس اور آئی جی کی طرف سے محمد بخش کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے زبردست پروگرام کا اہتمام کیا گیا –

جس میں محمد بخش اور اسکی فیملی کو بگھی پر بٹھا کر لایا گیا اور اس کو سندھ پولیس کی طرف سے گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اور پھولوں کے ہار پہنائے گئے اور پتیاں نچھاور کی گئیں اور گلدستہ پیش کر کے خوب استقبال کرتے ہوئے

بھرپور خراج تحسین پیش کیا گیا – اس میں کوئی شک نہیں کہ انکے اچھے کام کو سارے پاکستانیوں نے سراہا – چلو شکر ہے کہ

محمد بخش اے ایس آئی نے سندھ پولیس کو سر اٹھا کر چلنے کے قابل تو بنا دیا ہے ورنہ تو بدانتظامی اور کرپشن کے حوالے سے سندھ پولیس تباہی کے دھانے تک پہنچ چکی ہے –

جب کوئی بندہ پنجاب سے یا کسی اور صوبے سے سندھ کی حدود میں داخل ہوتا ہے تو اس سے سندھ پولیس کے جوان اتنا برا سلوک کرتے ہیں کہ

خدا کی پناہ – تلاشی ایسے لیتے ہیں کہ جیسے وہ کوئی غیر ملکی جاسوس ہو اور غیر قانونی طور پر اس علاقے میں گھسنے کی کوشش کر رہا ہو – یوں چھان بین کی جاتی ہے جیسے انھوں نے سندھ کا ویزہ اسٹیمپ کرنا ہو –

بے چارے شریف لوگ انکی مٹھی گرم کر کے اپنی جان چھڑاتے ہیں – تب کہیں جا کر انھیں سندھ کی دھرتی پر قدم رکھنے کی اجازت مل پاتی ہے – اس بات کے لکھنے کا مقصد بس اتنا ہے کہ

سندھ پولیس کے جوانوں اور اعلی افسران کو یہ احساس دلایا جائے کہ وہ صرف سندھیوں کی ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے ہر شہری کی قدر کرنا سیکھیں –

ہمارے لئے تو تمام صوبوں کی تمام فورسز قابل احترام ہیں – مقصد تو ملک پاکستان کی خدمت کرنا ہے –

سب سے پہلے تو وہ پاکستانی ہیں صوبائی حیثیت تو بعد کی بات ہے – اب میں پنجاب پولیس کا ذکر بھی کرنا چاہوں گا

ایمان داری کی بات تو یہ ہے کہ اگر پنجاب پولیس کا سندھ کی پولیس سے موازنہ کیا جائے آئے تو تعلیم ، قابلیت ، تفتیش ، کارکردگی ، خطرناک مجرموں کا مقابلہ کرنے ،

سنگین جرائم پیشہ گینگز کا سراغ لگانے اور ان کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچانے میں پنجاب پولیس کا کوئی ثانی نہیں –

اس نے کئی خطرناک گینگز کا مقابلہ کرکے ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جو ملک و قوم اور انسانیت کے ناسور بن چکے تھے –

آئے دن اغوا برائے تاوان کے واقعات رونما ہونے والے واقعات میں کافی حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے –

قبضہ مافیہ کو نکیل ڈال کر انہیں بھی کیفر کردار تک پہنچایا گیا ہے اور اب اس صوبے کی عوام پہلے سے زیادہ خود کو محفوظ خیال کرتی ہے –

بچے بچیوں کے ریپ اور ان کے قتل کی وارداتیں کرنے والے گینگز کو پنجاب پولیس نے ٹریس کرکے ان ظالم درندوں کو انجام تک پہنچایا ہے –

پاکستان کے اندر جتنی بھی فورسز ہیں انکے پاس مکمل سہولیات نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اچھی کارکردگی کے ساتھ جرائم پیشہ افراد کا بھرپور مقابلہ کر رہی ہیں –

پاکستان میں کام کرنے والی تمام فورسز کے پاس چاہے وہ اسپیشل برانچ ہو سکیورٹی برانچ ہو پٹرولنگ پولیس ہو ٹریفک پولیس ہو یا موٹر وے پولیس وغیرہ وغرہ
ان کو تو سہولیات فراہم کی جاتی ہیں

حالانکہ ان کا عوام کے ساتھ یا جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ براہ راست واسطہ کم ہی پڑتا ہے لیکن تھانہ پولیس فورس کے ساتھ عوام کا ڈائریکٹ رابطہ ہوتا ہے – جب بھی کوئی وقوعہ ہوتا ہے

یا کسی شخص سے کوئی زیادتی کرتا ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے متعلقہ تھانے پر جاتا ہے اور اپنی شکایت درج کرواتا ہے –

آگے چاہے ملزمان کتنے ہی طاقتور یا خطرناک کیوں نہ ہوں ان کا سامنا متعلقہ تھانے کی پولیس کو کرنا پڑتا ہے –

لا اینڈ آرڈر کا کوئی بھی مسئلہ چاہے روڈ بلاک ، جلسے جلوس یا دھرنا ہو یا ڈکیتی کی وارداتیں ہوں کوئی بم دھماکہ ہو یا دہشت گردوں سے آمنا سامنا کرنا ہو،

پولیس کے پاس چاہے سہولیات ہوں نہ ہو جواب دہ مقامی پولیس ہی ہوتی ہے – افسران بالا کا زور بھی بس انہی پر چلتا ہے –

میڈیا سیاست دان اور عوام بھی اپنا غصہ انہی پر نکال رہے ہوتے ہیں

اگر غور کیا جائے تو یہ دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ ہماری پولیس سہولیات کے فقدان کا شکار ہے

نہ ہماری پولیس کے پاس جدید اسلحہ ہوتا ہے نہ ریڈ کرنے کے لیے اچھی اور معیاری گاڑیاں ہوتی ہیں

ملزمان کو ٹریس کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا تو خیر ذکر ہی کیا – پولیس کا محکمہ نفری کی شدید کمی کا شکار ہے

کسی واردات یا ہنگامی حالات میں انھیں مجبوراََ دوسرے تھانوں کی پولیس سے مدد لینا پڑتی ہے –

جب تک نفری پوری ہوتی ہے اس وقت تک ملزمان واردات کر کے جا چکے ہوتے ہیں – کیونکہ کچھ نفری تو مسجدوں کے باہر پہرہ دے رہی ہوتی ہے ،

کچھ عدالتوں میں مثلیں لے کر پہنچی ہوتی ہے اور کچھ بڑے افسران کے آگے پیش ہونے کے لیے جا چکی ہوتی ہے –

تھانے میں ایک بیچارہ محرر اور ایک آدھ سنتری اپنی پرانی ٹوٹی پھوٹی رائفل لیے گیٹ پر کھڑا پہرہ دے رہا ہوتا ہے –

ملک کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے ساتھ ہی ساتھ جرائم کی شرح میں بھی ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے مگر تھانے کی نفری بجائے بڑھنے کے کم ہو رہی ہے –

اتنے مشکل حالات کے باوجود بھی پولیس کی بڑی ہمت ہے کہ وہ جرم اور مجرموں کا مقابلہ کر رہی ہے –

میرے پاس اپنی بات کی تصدیق کے لیے درجنوں نہیں سینکڑوں مثالیں ہیں – مثلا پچھلے دنوں تحصیل خیر پور ٹامیوالی کے تھانہ عنائیتی کی پولیس جو پانچ افراد پر مشتمل تھی

ایک خطرناک ڈاکو جو کہ اشتہاری تھا اور درجنوں سنگین وارداتوں کی اس پر ایف آئی آر کٹی ہوئی تھیں ،

اس پر ریڈ کیا تو پولیس کے پاس ایک پرانی زنگ آلود رائفل تھی – آگے اس اشتہاری نے پولیس پر سیدھے فائر کھول دیے –

پولیس والوں نے چھپ کر اپنی جان بچائی جبکہ ایک سپاہی محمد اعجاز سونچی c /2073 بڑی جرات و بہادری سے لڑتا رہا اور کئی ایک فائر لگنے کے باوجود اس نے

ہمت نہ ہاری اور آخر کار اس ڈاکو کو پکڑنے میں کامیاب ہو گیا – اب وہ بے چارہ نوجوان فائر لگنے سے دونوں ٹانگوں سے معذور ہو چکا ہے

اور وہ اپنا علاج تو کیا کروائے گا وہ تو روٹی کے لیے بھی تنگ ہے – نہ تو کسی سیاست دان نے نہ حکمرانوں نے نہ ہی پولیس کے اعلیٰ حکام نے اس کی خبر گیری کی ہے –

میں حکومت پنجاب اور آئی جی پنجاب کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ بے شک اس آدمی کو بگھی پر نہ بٹھائیں ،

اسے پھولوں کا دستہ بھی پیش نہ کریں ، کم از کم اس غریب کا مناسب علاج تو کروا دیں جو بے چارہ انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں اپنی زندگی گزار رہا ہے


آئی جی پنجاب اور حکومت پنجاب کو پولیس کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے – انہیں وہ تمام سہولیات فراہم کرنا ہوں گی جس کی اس محکمے کو اشد ضرورت ہے –

نفری کی کمی کو بھی پورا کرنا ہو گا – جدید اسلحہ ، مضبوط بیرکیں جدید گاڑیوں کی فراہمی کو بھی یقینی بنانا ہو گا –

انکے رہنے کے لیے کوارٹرز اور مضبوط چار دیواری والے تھانے تعمیر کرنا ہوں گے –

ساتھ ہی ساتھ اعلی کارکردگی پر پولیس اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی تاکہ

پولیس کے نوجوان ہمت و جواں مردی سے ملک و قوم کی خدمت کر سکیں
اگر ایسا نہ کیا گیا تو پولیس کے جوان یونہی زخمی ہوتے یا جانیں گنواتے رہیں گے
۔۔۔۔۔
کالم نگار ۔۔۔۔ خدا یار خان چنڑ

:

%d bloggers like this: