نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

" جو شخص آج معاہدہ تاشقند پر تنقید کرتا ہے، وہ تو معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ لکھنے اور اس کا نیشنل اسمبلی میں خطاب میں اس کا کریڈٹ لیتا رہا ہے۔"

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوہدری مجید انور ایڈوکیٹ پنحاب کی تحصیل خانیوال(اب ضلع) ضلع ملتان پی پی پی کے بانی صدر تھے اور شیخ رشید احمد بابائے سوشلزم کے گہرے ساتھی تھے اور اپنے علاقے میں وہ پی پی پی کی تشکیل سے بھی پہلے بائیں بازو کے خیالات کے سیاسی ورکر کے طور پر مشہور تھے۔ جب وہ مرض موت میں مبتلا ہسپتال کے بیڈ پر پڑے تھے تو میں ان کی عیادت کے لیے پہنچا اور بات سے بات نکلتی گئی تو انہوں نے بتایا کہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے 21 جون 1966ء کو ایوب خان کی کابینہ سے استعفا دے دیا اور اپنی تقریروں میں انہوں نے ایوب خان کے معاہدہ تاشقند کو پاکستان کے قومی مفاد اور سلامتی کے منافی معاہدہ قرار دینے شروع کیا تو پہلی بار سرکاری پریس پاکستان ٹرسٹ کے اخبارات نے جوابا خود ذوالفقار علی بھٹو کی حب الوطنی پر سوال اٹھا دیا- ان کے ہندوستان کا شہری ہونے کا پروپیگنڈا کیا گیا۔ اور اس پروپیگنڈے کو اس دور کے تمام اخبارات میں نمایاں جگہ ملی اور جب ذوالفقار علی بھٹو نے پی پی پی کی بنیاد رکھ دی
اور وہ 21ستمبر1968ء کو حیدرآباد سندھ ایک بڑے جلسے سے خطاب کرنے والے تھے جس کی اجازت نہ ملنے پر ایک کوٹھی میں یہ جلسہ ہوا جس میں بہت بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے تو ذوالفقار علی بھٹو نے ایک بار پھر تاشقند کے معاہدے کو لیکر ایوب خان پر شدید تنقید کی تو اکتوبر کے پہلے ہفتے 5 اکتوبر 1968ء گورنر مغربی پاکستان جنرل موسی خان حیدرآباد پہنچے اور ایک جلسے میں انہوں نے پہلی بار ذوالفقار علی بھٹو کا نام لیے بغیر یہ الزام لگایا:
” جو شخص آج معاہدہ تاشقند پر تنقید کرتا ہے، وہ تو معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ لکھنے اور اس کا نیشنل اسمبلی میں خطاب میں اس کا کریڈٹ لیتا رہا ہے۔”
چوہدری مجید انور ایڈوکیٹ نے نحیف اور کمزور آواز میں کہا،
"بیٹا! گورنر مغربی پاکستان کے حیدرآباد جلسے میں بھٹو پر لگائے الزام کو سرکاری پاکستان نیشنل پریس ٹرسٹ کے تمام اخبارات سمیت اکثر انگریزی و اردو اخبارات نے نمایاں کرکے فرنٹ پیج پر شایع کیا تھا اور اس کے جواب میں پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری کا بیان اگلے دن چند اخبارات میں ایک کالمی سرخی کے تحت اندرونی صفحات میں شایع ہوا تھا جس میں اس الزام کی تردید کرتے ہوئے جے اے رحیم گورنر مغربی پاکستان کو چیلنج کیا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کا لکھا ہوا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ منظر پر لائیں اور نیشنل اسمبلی کی کاروائی سے بھٹو کی تقریر کا ریکارڈ کا عکس اخبارات میں شایع کریں۔ تب سے لیکر اب تک بھٹو کے مخالف ایوب خان کی محبت میں بھٹو پر اسی الزام کی گردان کرتے رہتے ہیں۔ بھٹو کے مخالف بہت کم ظرف ہیں۔”
کافی سالوں بعد جب میں نے ہر برٹ فیلڈ مین کی کتاب "دا اومنی بس ” پڑھنا شروع کی تو اس کی دوسری جلد کا باب 14 بعنوان : لاسٹ فیز” پہ پہنچا تو ہربرٹ فیلڈمین نے اس الزام کا پہلی بار گورنر مغربی پاکستان جنرل موسی خان کی حیدرآباد تقریر میں سامنے آنے کا زکر کیا تو بات اور پکی ہوگی اور پھر میں نے پنجاب یونیورسٹی کی سنٹرل لائبریری میں موجود پاکستان ٹائمز کے آرکائیوز سے سال 1968ء کی فائلز نکلواکر 6 اکتوبر 1968ء کے اخبار کی فائل دیکھی تو گورنر موسی خان کی تقریر بارے خبر فرنٹ پیج پر دو کالمی تھی۔
معاہدہ تاشقند 1966ء جنوری کی 23 تاریخ کو سائن ہوا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو نے 21 جون 1966ء کو کابینہ سے استعفا دیا تھا۔ میں نے جنوری سے جون تک پاکستان ٹائمز ، امروز کی آرکائیوز فائل دیکھیں اور مجھے کہیں ڈھونڈے سے یہ خبر نہ ملی کہ ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ تیار کرنے کا کریڈٹ لیا ہو اور ہی قومی اسمبلی میں ان کی کوئی تقریر بارے خبر سننے کو ملی۔
کیا بطور گورنر مغربی پاکستان جنرل موسی کے لیے نیشنل اسمبلی کا تقریری ریکارڈ اور بھٹو صاحب کا لکھا تاشقند معاہدے کا ڈرافٹ پریس کو پیش کردینا کوئی مشکل کام تھا؟
لیکن پاکستان میں بھٹو کے ہر ایک مخالف نے چاہے وہ دائیں بازو کا تھا یا بائیں بازو کا یا قوم پرست تھا، اس نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جنرل موسی کے لگائے الزام کو سچ مان لیا اور جب موقعہ ملا ذوالفقار علی بھٹو کی کردار کشی کو اپنا فرض جانا۔

About The Author