نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بات بن نہیں رہی!۔۔۔ رسول بخش رئیس

آج کل ایک بار پھر وہی کھیل جاری ہے‘ جو اس سے پہلے کئی بار کھیلا جا چکا ہے اور جس کے انجام سے بھی کوئی بے خبر نہ ہو گا۔ نظریاتی اور سیاسی طور پر خاصا رنگ دار اتحاد ابھرا ہے۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ حوادثِ زمانہ نہیں‘ پاکستانی سیاست بازوں کی رنگا رنگی ہے۔ قومی دولت سے جاگیریں‘ محلات‘ کارخانے اور دنیا کے ہر محفوظ کونے میں چھپے خزانوں کے مالکوں اور ان کے بالکوں اور بالکیوں کے لئے سیاست بازی ایک کھیل ہی ہے۔ وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ انہیں ملک‘ ریاست‘ عوام اور غریبوں کے ساتھ کبھی کوئی دل چسپی نہ تھی۔ اتنے ہی تیقن کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اب بھی کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ اتنے تجربات کئے جا چکے‘ سینکڑوں بار طفل تسلیوں سے بہلایا جا چکا‘ نا جانے ہمارے لوگوں کی آنکھیں کب کھلیں گی؟ نہ جانے انہیں رہبر اور رہزن کا فرق کب سمجھ میں آئے گا؟ صدیوں کی غلامی کے بعد‘ اور اس خطے کی تاریخ میں قومی ریاست کا تحفہ اور آزادی کی نعمت تو لاکھوں قربانیاں دینے والوں نے عطا کرا دی‘ مگر افسوس‘ زندگی نے ان کے ساتھ وفا نہ کی کہ سامراجی نظام کے کَل پرزوں سے بھی ہمیں چھٹکارا دلا سکتے اور ہم حقیقی طور پر آزاد ہو سکتے۔ وہ تو اپنے حصے کا کام کر گئے‘ لیکن پھر یہ ذمہ داری تو ہم پہ تھی کہ ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ان گماشتوں کو بھی اگر سمندر پار نہیں دھکیل سکتے تھے تو کم از کم ان کی طاقت کو تو عوامی راج سے زائل کر دیتے۔ ایسا نہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ نا صرف سامراجی دور کے وڈیرے اور ان کی نسلیں ریاستی طاقت کے حصول میں کامیاب رہے بلکہ ان کی دولت اور سماجی اثر و رسوخ میں مسلسل اضافہ ہی مشاہدے میں آیا۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسرے طبقات نے بھی آمریت کے سائے میں پناہ لے کر زیادہ سے زیادہ دولت اور طاقت اپنے ہاتھوں میں مرکوز کر لی۔ جمہوریت صرف آمرانہ ادوار میں ہی کمزور نہیں ہوئی بلکہ عوامی نمائندگی کے دعوے داروں نے بھی شخصی حکمرانی بلکہ بادشاہتیں قائم کر ڈالیں اور جمہور اور جمہوریت کو نظر انداز کیا جاتا رہا۔ غیر جمہوری حکومتوں کے برعکس انہیں تو جمہوریت کا لبادہ میسر تھا۔ اس کی پناہ میں جو کچھ اداروں‘ سیاسی جماعتوں‘ معیشت اور غریبوں کے ساتھ ہوا اس کے نتائج ہماری قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ تہی داماں رہے تو صرف عوام۔
کیسے ہم مان لیں کہ دل میں صداقت‘ زبان میں اثر اور بیانیوں میں کوئی تاثیر ممکن ہو سکتی ہے‘ جب ایک دوسرے پر کرپشن ‘ بدعنوانی‘ لوٹ مار کرنے اور غداری کے الزامات لگانے والے آج بغل گیر ہو کر ”جمہوریت‘‘ کی بحالی کی تحریک چلا رہے ہوں۔ سب باتیں تو ہمارے دلوں پہ نقش ہیں‘ مگر کیا کریں ‘ بے چارے عوام کو کچھ یاد نہیں رہتا۔ وہ بہت جلد بھول جاتے ہیں کہ ان کے رہنما ان کے ساتھ کیا کرتے رہے۔ ماضی میں ان کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوتا رہا؟ صرف یاد دہانی کے لئے گرائو‘ ہٹائو اور ہمیں بنائو کی پُرانی ”جمہوری‘‘ تحریکوں کی بات نہیں ‘ بلکہ اب سے چند سال پہلے کی بات کرتے ہیں۔ میاں صاحب نے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ذاتی مراسم پیدا کر کے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کئے تو مخالف جماعت کے بالکوں نے یہ نعرہ ایجاد فرمایا”مودی کا جو یار ہے‘ غدار ہے غدار ہے‘‘ ہم تو کبھی کسی سیاست کار کو اس زمرے میں شامل نہیں کریں گے‘ نہ ایسا کرنا چاہئے‘ مگر اس قسم کی زبان اور مکالمے کا آغاز سیاست بازوں سے ہی ہمیشہ ہوا تھا۔ اس کے ساتھ جڑے اتحادی دانش ور اور سیاسی کارندے ان کے نعروں میں ہوا بھر کر اپنا سیاسی مقام بڑا کرنے کی کاوش میں رہتے ہیں۔ اس لئے گزارش ہے کہ جو کچھ گیارہ اکٹھے ہو کر کہہ رہے ہیں‘ اپنے ماضی کے تناظر میں لیں تو سب کچھ ریت کا ڈھیر معلوم ہوتے ہیں۔ اب یہ ان کا کام ہے کہ تاریخ کو غلط ثابت کر کے دکھائیں‘ جو آج تک کوئی نہیں کر سکا‘کوشش بھی کریں تو بے سود ہو گا۔
کل پرسوں ٹیلی وژن کی سکرین پہ نظر پڑی تو ایک معتبر صحافی مسلم لیگ نون کی لاہور سے ایک خاتون رہنما نے ماضی میں میاں نواز شریف کے بارے دھڑلّے سے جو کہا‘وہ آج عمران خان صاحب کے بارے میں کہہ رہی تھیں۔ تب وہ محترم آصف علی زرداری صاحب کی جماعت کی رکن تھیں۔ آواز اور تصویر بھری پٹیوں نے سب کچھ محفوظ کر رکھا ہے‘ کچھ بھی ایسا نہیں جس کو جھٹلایا جا سکے۔ وقتاً فوقتاً کچھ سامنے آتا ہے تو گزرے کل میں ایک دوسرے کے خلاف آگ اگلنے والے کردار آج آپس میں شیر و شکر نظر آتے ہیں۔ اس پر بھی اعتراض تو نہیں بنتا‘ ان کی اپنی مرضی اور منشا کہ جو چاہیں کریں‘ سیاسی طور پر جس کا چاہیں ساتھ دیں ‘ مگر اعتراض بنتا بھی ہے کہ ایک دوسرے کو اقتدار کی کرسی سے نیچے گھسیٹنا‘ پھر گلی کوچوں ‘ محلوں اور شہروں کے چوراہوں پر مٹھائیاں بانٹنا کوئی کھیل نہیں۔ ملک میں عدم استحکام پیدا ہوا‘ ان کی بد عنوانی سے سرمایہ دار ملک چھوڑ کر بھاگااور مجموعی طور پر ہمارا قومی تشخص اور وقار بے حدمجروح ہوا۔ اس دور کے مغرب کے رسالے اور اخبار پڑھیں تو آنکھیں شرم سے جھک جاتی ہیں یہ دیکھ اور سوچ کر کہ وہ ہمارے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں۔
آج کل ایک بار پھر وہی کھیل جاری ہے‘ جو اس سے پہلے کئی بار کھیلا جا چکا ہے اور جس کے انجام سے بھی کوئی بے خبر نہ ہو گا۔ نظریاتی اور سیاسی طور پر خاصا رنگ دار اتحاد ابھرا ہے۔ موروثی سیاسی جماعتیں‘ لسانی اور علاقائی قومیت پرست‘ سب کپتان کو جمہوریت کے لئے خطرہ قرار دینے کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو دل مانتا نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ کپتان نے بیس سال تک جدوجہد کی‘ عوام کو متحرک کیا‘ نوجوانوں میں نئے پاکستان کا خواب اجاگر کیا‘ اور پھر ایسا چمکا کہ موروثیوں کی سانسیں اکھڑ گئیں۔ ان کے مخالفین ابھی تک گھبرائے گھبرائے پھرتے ہیں کہ کپتان جم گیا تو نہ صرف سب سیاسی سرمایہ کاری بے کار جائے گی‘ بلکہ ادارے حساب کتاب چکانے کے قابل ہو گئے تو باہر دندناتے پھرنے کی آزادی بھی نہیں رہے گی؛ چنانچہ پروگرام یہ مرتب کیا گیا ہے کہ کپتان کو کریز پر ٹکنے نہ دیا جائے۔ یہ فائول پلے ہے کیونکہ یہ گیندیں نہیں گولہ باری کر رہے ہیں اور اسی میں اپنے مستقبل کے خوابوں کو بھی متشکل کرنے کی سعی میں مصروف ہیں‘ نتائج سے بے خبر‘ یا بھی انجام سے لا تعلق۔ کس کو بتائیں کہ اگر آپ سیاسی کھیل آئین اور جمہوریت کے اصولوں کے مطابق نہیں کھیلیں گے تو آپ کو کون کھیلنے دے گا؟
یہ لوگ اس قدر پُر عزم ہیں کہ ایک موروثی جماعت کے ایک نوجوان رہنما نے ہمیں تاریخ تو نہیں بتائی؛ البتہ مہینہ ضرور بتا دیا ہے۔ انہوں نے اعلان فرمایا ہے کہ عمران خان کی حکومت بس جنوری تک کی مہمان ہے۔ یعنی ایک ڈیڑھ ماہ میں اس کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ ان کی ہمراہی میں ایک بزرگ مذہبی و سیاسی رہنما نے ”جنگ‘‘ کا اعلان فرمایا اور کہا ہے کہ ”اب پیچھے نہیں ہٹیں گے‘‘۔ یہ بھی کہا گیا کہ جہاں ہمیں روکنے کی کوشش کی گئی‘ وہیں دھرنا دے دیں گے۔ جب جمہوریت اور سیاست جنگوں میں تبدیل ہو جائے‘ اور انتقالِ اقتدار کے لئے آئینی طریقوں کے بجائے دھرنوں‘ شور و غل او ر مارا ماری سے کام لیا جائے تو سوچنے کی بات ہے کہ پھر جمہوریت کے لئے خطرہ کون ہے؟

About The Author