عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوچ سرزمین کو جغرافیائی بنیادوں پر مزید تقسیم کی پالیسیوں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ہردور میں عالمی طاقتوں نے بلوچستان کو تقسیم کیا۔ جس کی وجہ ان کی سیاسی اور عسکری طاقت کمزور پڑگئی۔ تقافت، زبان اور معاش پر منفی اثرات پڑے۔ ان کو گروہوں میں تقسیم کردیاگیا۔
عالمی طاقتوں نے ماضی میں بھی بلوچ سرزمین کو مختلف ممالک کے درمیان بانٹاگیا۔ آج بلوچ سرزمین آپ کو ایران، پاکستان، اور افغانستان میں ملے گا۔ تقسیم در تقسیم کی پالیسی کامقصد دراصل بلوچوں کو سیاسی و عسکری طورپر کمزور کرنا تھا۔ ان کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کروانا تھا۔۔ ان کی قومی تشخص کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔ ان کی طاقت کو چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم کرنا تھا۔ تاکہ بلوچ کمزور سے کمزورتر ہو سکیں اور حکمران ان پر حکمرانی کرتے رہیں۔
آج بھی عالمی طاقتیں بلوچ سرزمین کو مزید دولخت کرنے کے پالیسیاں اپنا رہی ہیں۔ مغربی بلوچستان (ایرانی بلوچستان) کو چار حصوں میں جبکہ مشرقی بلوچستان (پاکستانی بلوچستان) کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں جنوبی بلوچستان کا نام میڈیا کی زینت بنایا جارہا ہے۔ مکران اور جھالاوان ناموں کو مٹایا جارہا ہے۔ حالانکہ ان ناموں سے ایک تاریخ وابستہ ہے۔۔ ریاست مکران کی اپنی تاریخ ہے۔ جبکہ جھالاوان ریاست قلات کا ایڈمنسٹریٹیو ڈویژن تھا۔ ایک پالیسی کے تحت اس تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے۔ تاریخ کو مسخ کرنا قوموں کو مسخ کرنے کا مترادف ہوتاہے۔
ایک اطلاع کے مطابق ایران کی اسلامی مشاورتی کونسل کے ایک رکن سید محسن دہنوی نے ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان کو چار حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت بلوچستان، سیستان، مکران اور سرحد نامی چار صوبے وجود میں آ جائیں گے۔
اگر آپ ماضی کی طرف نظر ڈالیں تو مغربی بلوچستان میں بلوچوں نے ہمیشہ فارس (1935 تک فارس ایران کا سرکاری نام تھا) میں حکومتوں کے تسلط اور امتیازی سلوک روا رکھنے کی شاؤنسٹ پالیسی کے خلاف بغاوت کی ۔ بلوچ مورخوں کے مطابق ایک بلوچ سردار حسین ناروہی نے فارس حکومت کے خلاف بغاوت کی۔ دوسال کے بعد بلوچ مزاحمت کو شکست دی گئی اور سردار ناروہی کوگرفتار کرلیاگیا۔ تاہم بغاوتوں کا سلسلہ مختلف ادوارمیں چلتا رہا۔ بیسویں صدی کے شروعات میں بہرام خان نے مغربی بلوچستان کے تقریباً تمام مرکزی اور جنوبی علاقوں پر کنٹرول حاصل کرلیا۔ اور یوں بلوچ سرزمینوں کا قبضہ ختم ہوا۔ اور بالآخر برطانوی امپائر نے بہرام خان کو مغربی بلوچستان کا با اثر حکمران تسلیم کرلیا۔
1828 ء میں فارس کی فوجوں نے بلوچستان پر قبضہ کرنے کیلئے بلوچ جنگجوؤں کے خلاف فوجی آپریشن کیا۔ یہ جنگ سات مہینے تک جاری رہی۔ اور بالآخر بلوچ قوتوں پر دشمن کو فتح حاصل ہوئی۔ میر دوست محمد خان کی کمانڈ میں بلوچ قوتوں کی شکست کے نتیجے میں اسے گرفتار کرلیاگیا۔ 1928ء میں میر دوست محمد خان کو تہران جیل میں پھانسی دی گئی۔ یہ پھانسی بلوچ تاریخ میں مغربی بلوچستان کے قبضے کی علامت ہے۔
تاہم اس قبضے کے خلاف آوازیں اٹھتی رہیں۔ کچھ عرصہ قبل تنظیم جنداللہ کے سربراہ عبدالمالک ریکی ایرانی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف تحریک کا آغاز کیا۔ وہ ایران میں بلوچوں کے حقوق کے لیے بھی آواز اٹھاتے رہے۔
انھوں نے اپنی تنظیم جنداللہ کا نام پیپلز ریزسٹینٹ موومنٹ آف ایران رکھا تھا۔عبدلمالک ریکی نے اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل بان کی مون، سابق امریکی صدر براک اوباما اور ترک حکومت کو خطوط لکھے ہیں جس میں انھوں ایرانی بلوچستان میں آباد بلوچوں کی حالت کے بارے میں لکھا ہے۔ بالاآخر انہیں گرفتار کرکے ایرانی حکام کےحوالے کردیا گیا۔ ایرانی حکومت نے انہیں پھانسی دے دی۔
گزشتہ ہفتہ تربت میں ایرانی حکومت کی بلوچ دشمن پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانے والا ملا عمر بلوچ کو ان کے صاحبزادے کے ساتھ ایک مقابلے میں مارا گیا۔ ملا عمر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک بھارتی ایجنٹ کی حوالگی یا گرفتاری کا اہم کردار ہے۔ ملاعمر کی ہلاکت کے فورا بعد ایرانی سیکیورٹی اداروں نے پاک ایران سرحد پر پانچ بلوچ مزاحمت کاروں کو ماردیا ۔بلوچ حلقے ان دونوں واقعات کو دو ممالک کی پالیسی کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ایسے مزید واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔
ایرانی زیرتسلط بلوچستان میں بلوچ تیزی سے اپنی قومی شناخت کھو رہے ہیں۔ بلوچ اقلیت میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ ایران میں بلوچوں کو مکمل طور پر ملک کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی اداروں کے بنیادی ڈھانچوں سے خارج کردیا گیا ہے۔بلوچی ثقافت اور بلوچی زبان کی تشہیر ملک کے خلاف غداری تصور کیا جاتا ہے۔ اور ایسے عمل سے سفاکانہ طریقے سے نمٹا جاتا ہے۔ بہت سے فوجی چھاؤنیاں بلوچ علاقوں میں مستقل طور پر متعین کی گئی ہیں۔
ایک مرتبہ پھر عالمی قوتوں کے اشارے پر ایرانی بلوچستان کو مزید چار حصوں تقسیم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق چین ایرانی بلوچستان میں اپنے شہریوں کے لئے ایک نیا شہر بسائے گا۔ چین سے لوگوں کو لایا جائیگا۔
واضع رہے کہ ایران اور چین میں ایک معاہدہ ہوا ہے۔ جس پر اب پوری دنیا کی نظر ہے۔ دونوں ممالک کے مابین یہ اسٹریٹجک اور تجارتی معاہدہ آئندہ 25 سالوں تک قابل عمل ہوگا۔ 400 ارب ڈالر کے اس معاہدے کے تحت ایران اگلے 25 سالوں تک چین کو انتہائی سستی قیمت پر خام تیل فراہم کرے گا اور اس کے بدلے میں چین ایران میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرے گا۔
چین بڑے پیمانے پر بینکاری، ٹیلی مواصلات، بندرگاہوں، ریلوے اور دیگر درجنوں ایرانی منصوبوں میں اپنی شرکت میں اضافہ کرے گا۔دونوں ممالک باہمی تعاون کے تحت مشترکہ فوجی مشقیں اور تحقیق کریں گے۔چین اور ایران مل کر اسلحہ بنائیں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات بھی شیئر کریں گے۔
سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچ سرزمین کی مزید تقسیم کی پالیسی بھی چین کے معاہدے کا حصہ ہے۔ مشرقی بلوچستان (پاکستانی) کی موجودہ ابتر صورتحال کا ذمہ دار بھی چینی حکومت کو قراردیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت اور سینیٹر مشاہد حسین نے بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کو سابق صدر پرویز مشرف سے برابری کی بنیاد پر مذاکرات پر راضی کرلیا۔ دونوں کی ون آن ون ملاقات کسی نامعلوم مقام پر ہونی تھی۔ اس سلسلے میں نواب صاحب ایئرپورٹ پہنچے۔ تو انہیں اطلاع دی گئی کہ جہاز میں تیکنیکی خرابی ہوگئی ہے۔ اس لئے آج ملاقات نہیں ہوسکتی ہے۔ ملاقات کی آئندہ تاریخ طے کرکے آپ کو بتایا جائیگا۔ جب نواب صاحب ایئرپورٹ سے گھر کی جانب رواں تھے۔ تو آسمان پر وہی خراب جہاز صحیح حالت میں اڑ رہاتھا۔ نواب صاحب نے اپنی گاڑی روک کر جہاز کی طرف دیکھا اور اپنے محافظوں کو کہا کہ اب مجھے گھر مت لے جائیں۔ بلکہ بلوچستان کے پہاڑوں کی طرف لے جائیں۔ بالآخر 26 اگست 2006 کو کوہلو کے پہاڑوں میں اکبر بگٹی کو شہید کیا گیا۔
مصدقہ ذرائع کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے میں بیجنگ کا ہاتھ تھا۔ چائینیز حکام کا یہ خدشہ تھا کہ گوادر پورٹ کی تکمیل کے بعد انہیں بلوچستان کے تین قبائلی اضلاع میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑیگا۔ کیونکہ ان اضلاع میں مضبوط بلوچ ٹرائیبل نیشنلزم موجود ہے۔ جن میں ڈیرہ بگٹی، کوہلو اور وڈھ شامل ہیں۔ چینی حکام کا اصرار تھا کہ ان علاقوں میں فوجی آپریشن کے ذریعے ان کو کچلا جائے۔تاکہ ٹرائیبل نیشنلزم جدید سائنسی بنیادوں پر استوار نہ ہو سکے۔ اور غیر قبائلی علاقوں میں پھیل نہ سکے۔ جن میں گوادر، تربت، پنجگور، پسنی، مند، بلیدہ، آواران اور دیگر علاقے شامل ہیں۔ کیونکہ بلوچ تاریخ میں بیشتر جنگیں ٹرائیبل نیشنلزم کی بنیاد پر لڑی گئیں۔ ماضی میں خان آف قلات کے بھائی عبدالکریم بلوچ اور میر نوروز خان نے بلوچستان کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی۔ لیکن چینی حکام کو اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ 79 سالہ بزرگ رہنما کا خون انہیں آج گوادر پورٹ سے چاہ بہار پورٹ (ایران) کی جانب بھاگنے پر مجبور کردیگا ۔آج بلوچستان ایک شورش زدہ صوبہ ہوچکا ہے۔ جس کی وجہ سے چین نے ایران کے ساتھ چارسو ارب ڈالرز کے معاہدے پر دستخط کئے۔ کیونکہ موجودہ بلوچستان کے امن و امان کی صورتحال سرمایہ کاری کے لئے ناساز ہوچکی ہے ۔ لیکن بیجنگ نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ وہی پالیسی ایرانی حکومت کے ساتھ ملکر اپنائی جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے ایرانی بلوچستان کے حالات مستقبل میں پاکستانی بلوچستان سے بھی بدتر ہونگے۔ اور انہیں نکلنے کا راستہ نہیں ملے گا۔ اور ان کی ساری سرمایہ کاری سمندر برد ہوجائیگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ ،روزنامہ آزادی، کوئٹہ
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ