حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کابل یونیورسٹی میں منعقدہ ’’کتاب میلہ‘‘ پر حملے کے چند دن بعد ہی داعش نے شہر کے گنجان آباد علاقوں پر 17راکٹ حملے کئے۔ افغان وزارت داخلہ نے ان حملوں میں 14 افراد کے جاں بحق اور 35 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ 17راکٹ حملوں میں گنجان آباد علاقوں کے ان حصوں کونشانہ بنایا گیا جہاں ہزارہ برادری کے لوگ نسبتاً زیادہ تعداد میں آباد ہیں؟
ہفتہ کے روز کئے جانے والے ان راکٹ حملوں سے ایک بار پھر افغان معاہدہ امن کے مستقبل پر سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
کابل میں ذرائع ابلاغ کے ایک نمائندے وحدت علی بابک کے مطابق داعش نے راکٹ حملوں کے لئے اس دن کا انتخاب کیا جب قطر میں امریکی وزیر خارجہ اور طالبان کے نمائندوں میں ملاقات ہورہی تھی۔
اسفنداللہ خان کابل کے معروف ماہر تعلیم ہیں ان کا کہناہے کہ ہم افغانیوں کو ایسا لگتا ہے کہ
’’ آگ، خون، لاشیں اور کھنڈرات ایک بار پھر ہمارے نصیب میں لکھے جارہے ہیں‘‘۔
ہزارہ برادری جو کہ پچھلے دو تین سالوں کے دوران کابل میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی اس صورتحال پر پریشان ہے۔
خود افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ یہ کہتے پائے گئے کہ موجودہ حالات میں امریکہ کا افغانستان سے انخلاء کا فیصلہ تشویشناک ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اپنی بقا و سلامتی اورپائیدار امن کے قیام کی جنگ لڑرہے ہیں ان حالات میں امریکی فوجیوں کے انخلاء کا فیصلہ افغانوں کو درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے مترادف ثابت ہوگا۔
افغان امور کے ماہر اورتجزیہ نگار عقیل یوسفزئی کہتے ہیں، افغانستان ایک بارپھر 1980ء کی دہائی کے ان برسوں میں واپس پلٹ رہا ہے جب سوویت امریکہ جنگ کے خاتمے کےبعد امریکہ اور اتحادی افغانوں کو بے یارومددگار چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
ہفتہ کو کابل میں داعش کے راکٹ اور بم حملوں میں انسانی جانوں کا ضیاع یقیناً افسوسناک ہے لیکن ان حملوں کے بعد تجزیہ نگار مستقبل کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کررہے ہیں انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ امن خوش آئند بات ہے لیکن جس بنیادی سوال کو نظرانداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ ایک طرف تو طالبان سے معاہدہ امن کرنے کے بعد دیگر معاملات کو طے کررہا ہے تا کہ فوجیوں کا انخلاء پروگرام کے مطابق ہو مگر دوسری طرف افغانستان میں امریکی سرپرستی میں منظم ہوئی دہشت گرد تنظیم داعش کا دولت اسلامیہ خراسان چیپٹر دہشت گردی میں مصروف ہے۔
یہ امر کسی سے مخفی نہیں رہا کہ داعش کے جنگجووں کو افغانستان تک لانے میں امریکہ سے کس ایشیائی ملک نے تعاون کیا اور داعشی جنگجووں سے بھرے بگرام ایئربیس پر اترنے والے طیاروں نے کس ملک سے اڑان بھری تھی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ داعش کے جنگجووں کو عراق اورشام سے ایک ایشیائی ملک کے تعاون سے امریکی افغانستان لائے جیسے ہی داعش کا افغانستان میں ورود ہوا بھارتی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھارت سے کابل پہنچی ا ور داعش سے منسلک ہوگئی۔
یہ آمد اور بھارت سے افرادی قوت کا افغانستان پہنچنا محض اتفاق نہیں نا ہی یہ اتفاق ہے کہ پچھلے دو اڑھائی سالوں کے دوران داعش کا ہدف ہزارہ برادری کی آبادی والے علاقے، سکول اور ہسپتال رہے۔
پچھلے سال عید میلادالنبیؐ کے پروگرام پر داعش کے حملے نے صورتحال کو مزید واضح کردیا۔ یعنی داعش کا ہدف صوفی سنی اورشیعہ مسلمان ہوں گے۔ داعش کے دولت اسلامیہ خراسان چیپٹر میں بھارتی مسلمانوں کی شمولیت اور دہشت گردی کے بعض واقعات میں ان کے کردار کے علاوہ بھارت سے داعش خراسان کے لئے مالی عطیات بھی بھجوائے گئے۔
افرادی قوت اور رقوم کی ترسیل کے حوالے سے ستمبر میں امریکی کانگریس کی انسداد دہشت گردی کمیٹی نے بعض سوالات بھی اٹھائے تھے۔ بھارت نے ان سوالات کا جواب دینے کی بجائے اسوقت یہ کہا کہ ان الزامات کے پیچھے پاکستان ہے۔
کابل میں ذرائع ابلاغ سے منسلک تجزیہ نگاروں کے لئے یہ خبریں حیران کن تھیں کہ سکھوں کی عبادت گاہ، کابل یونیورسٹی اوردہشت گردی کے چند دوسرے واقعات میں بھارتی شہری ملوث تھے۔
دولت اسلامیہ خراسان کے ترجمان کے طور پر ذرائع ابلاغ سے رابطہ کرنے والے محمد اسلم معاذ کا کہنا تھا کہ
’’ اہم بات یہ نہیں کہ داعش میں کن کن ممالک کے مسلمان نوجوان شامل ہیں بلکہ اہم بات یہ ہے کہ اسلام مصنوعی جغرافیائی سرحدوں سے ماوراء ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم دولت اسلامیہ خراسان کے قیام کے لئے جدوجہد کررہے ہیں‘‘۔
یہاں سوال یہ ہے کہ کیا خطے کے ممالک اس بڑھتے ہوئے خطرہ سے ناواقف ہیں یا سبھی امریکی ہاتھی کے پاوں میں اپنا پاوں ڈالے مست ہیں اور ان کی آنکھ اس وقت کھلے گی جب داعش خراسان چیپٹر افغانستان سے باہر نکل کر دہشت گردی کی کارروائیاں کرے گا؟
یہاں اس امر کا مدنظر رکھا جانا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی متعدد کالعدم تنظیموں کے جنگجو آپریشن ضرب عضب کے بعد اپنی تنظیموں سے الگ ہوکر داعش میں شامل ہوئے۔
چند ماہ قبل افغان نیشنل آرمی کی کارروائیوں کے دوران سعید اورکزئی سمیت 5افراد مارے بھی گئے۔ سعید قبل ازیں کالعدم ٹی ٹی پی کے کمانڈر تھے بعدازاں داعش میں شامل ہوئے۔ اسی طرح کالعدم لشکر جھنگوی العالمی نے سال دو ہزارہ اٹھارہ میں داعش کے ساتھ مل کر کارروائیوں کا اعلان کیا تھا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ افغانستان میں منظم و متحرک داعش کی سرگرمیاں پورے خطے کے لئے خطرہ ہیں۔
بدقسمتی یہ ہے کہ داعش کو افغانستان پہنچانے والے امریکی ان دنوں افغان معاہدہ امن کا پرچم تھامے ہوئے ہیں۔ صاف لفظوں میں یہ ہے کہ داعش کے خراسان چیپٹر کی سرپرستی امریکی انخلاء کے بعد بھارت سنبھالے گا اور خطے کے مسلم ممالک کے لئے دہشت گردی کے بدترین دور کا آغاز ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا خطے کی مسلم ریاستوں کو اس خطرے کا احساس ہے؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ