مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستانی ایجاد جس سے ایک منٹ میں کرونا وائرس کی تشخیص ممکن۔۔۔مونا خان

پاکستانی سائنس دانوں نے مصنوعی ذہانت پر مبنی ایک سافٹ ویئر تیار کیا ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک منٹ کے اندر بتا سکتا ہے کہ کسی شخص کو کووڈ ہے یا نہیں۔

موناخان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان نے مقامی سطح پر پھیپھڑوں میں کرونا (کورونا) وائرس کی تشخیص کا جدید سافٹ وئیر تیار کر لیا ہے۔

اس سافٹ وئیر کا نام کووڈ ریپڈ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ڈیٹیکشن (COVID Rapid AI-Detection) ہے، جب کہ اس حوالے سے ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) نے کرونا کی جدید تشخیصی میڈیکل ڈیوائس کووریڈ (COV-RAID) کی منظوری بھی دے دی ہے۔

یہ سافٹ ویئر کیسے کام کرتا ہے اور اس کی فیس کتنی ہو گی؟ ان سوالات کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان میں ادویات کی منظوری دینے والے ادارے ڈریپ کے سربراہ ڈاکٹر عاصم رؤف سے رابطہ کیا۔

ڈریپ نوٹیفیکیشن کے مطابق ڈیوائس کو ڈریپ ایکٹ 2012 کے تحت رجسٹرڈ کیا گیا ہے۔ سی ای او ڈریپ ڈاکٹر عاصم رؤف نے اس کی رجسٹریشن کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ’بنیادی طورپر کووریڈ پھیپھڑوں میں کرونا وائرس کے انفیکشن کی تشخیص کرے گا۔‘

یہ ٹیسٹ کیسے کام کرتا ہے؟

کووریڈ کی ویب سائٹ کے مطابق اس سافٹ ویئر کے اندر ایسے مریضوں کے 35 ہزار سے زیادہ ایکسرے فیڈ کیے گئے ہیں جن کے اندر ماہر اور تجربہ کار ریڈیالوجسٹس نے کرونا کی تشخیص کی تھی۔ جب کوئی شخص ٹیسٹ کرواتا ہے تو یہ سافٹ ویئر اس کی چھاتی کے ایکس رے کا موازنہ اپنے ڈیٹا بیس میں موجود ایکس ریز سے کرتا ہے اور اس کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے کہ یہ شخص کرونا سے متاثر ہے یا نہیں۔

اس کمپیوٹر سافٹ وئیر کی مدد سے ایک منٹ کے اندر نتیجہ حاصل کیا جائے گا کہ کرونا وائرس مریض کے جسم میں موجود ہے یا نہیں ہے۔

کووریڈ کی ویب سائٹ کے مطابق چونکہ اس سے نتائج فوری حاصل ہوں گے اس لیے بڑے  پیمانے پر کرونا ٹیسٹ کیے جا سکیں گے۔

کوریڈ کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق اس ٹیکنالوجی کا سب سے سود مند استعمال ہوائی اڈوں اور سرحدوں پر ہو گا جہاں لوگوں کے ایکسرے کی مدد سے فوری جانچ کر لی جائے گی کہ اس شخص میں کرونا وائرس موجود ہے یا نہیں۔ اگر کوریڈ مثبت آ جاتا ہے تو مسافر کو فوری طور پر قرنطینہ میں بھیجا جا سکتا ہے۔ اس کے مقابلے پر سی پی آر ٹیسٹ کے نتائج 24 گھنٹوں میں آتے ہیں۔

 سی ایکس آر مشین کو دیہی علاقوں میں بھی آسانی سے لے جا کر کرونا کی تشخیص کی جا سکتی ہے تاکہ مریض کو زیادہ سفر نہ کرنا پڑے۔

اس مقصد کے لیے ماہرین کی ٹیمیں مرتب کی جا رہی ہیں تاکہ یہ سروس ائیرپورٹس سمیت پورے ملک میں 24 گھنٹے میسر ہو۔

واضح رہے کہ اس وقت کرونا کے دو ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں ایک پی سی آر، جس میں ناک اور گلے سے نمونہ لیا جاتا ہے جبکہ دوسرا اینٹی باڈیز ٹیسٹ ہے جس میں خون سے نمونہ حاصل کر کے اُس کی جانچ کی جاتی ہے۔

جب سوال پوچھا گیا کہ کووریڈ ٹیسٹ ان سے کس حد تک مختلف ہے اور اس میں کون سی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے تو ڈاکٹر عاصم نے بتایا کہ یہ بنیادی طور پر ایک سافٹ وئیر ہے جو پہلے کمپیوٹر میں انسٹال کیا جائے گا اور اس سافٹ ویئر سے متعلقہ ڈیٹا جو وائرس کی جانچ کرے گا وہ بھی انسٹال کیا جائے گا۔ اس میں مریض کا CXR مشین کی مدد سے ڈیجیٹل ایکسرے لیا جائے گا، پھر کمپیوٹرائزڈ جانچ یا آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا استعمال کر کے یہ تجزیہ کیا جائے گا کہ پھیپھڑے کتنے متاثر ہیں۔

کیا اس کی تمام ریسرچ اور ڈویلپمنٹ پاکستان میں ہوئی ہے یا اس کے لیے کسی اور ملک سے مدد حاصل کی گئی ہے؟

اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس سارے معاملے میں کسی دوسرے ملک سے مدد حاصل نہیں کی گئی بلکہ پاکستان انجینیئرنگ کونسل اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت اس پر گذشتہ چارپانچ ماہ سے کام کر رہے تھے، اور تجربات بھی کیے۔

انہوں نے کہا کہ کووریڈ ڈیوائس نیشنل الیکٹرانکس کمپلیکس پاکستان (NECOP) کی تیار کردہ ہے۔

خیال رہے کہ NECOP کا قیام سنہ 2008 میں عمل میں آیا تھا۔ نی کوپ کو چینی ٹیکنالوجی کے اشتراک سے تشکیل دیا گیا جس میں مقامی ذرائع کا استعمال چینی ادارے سی ٹیک کی مدد سے ہوا۔ ابتدا میں چینی ادارے سی ٹیک نے مقامی سائنس دانوں کو ٹریننگ اور ٹیکینکل معاونت فراہم کی تھی۔ مقامی سطح پر نی کوپ، انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹرونکس اور وزارت دفاع کے ضلعی ادارے نیسکام کا مشترکہ پروجیکٹ ہے۔

نی کوپ میں سائنسی اور دفاعی آلات جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کیے جاتے ہیں۔

پی سی آر اور اینٹی باڈیز کے مقابلے پر اس ٹیسٹ کی درست ہونے کی شرح کیا ہے؟

 وزارت خارجہ کے ڈویژن سائنس ڈپلومیسی کے بیان کے مطابق اس ٹیسٹ کے درست ہونےکی شرح 90 فیصد ہے جو مریض کے سینے اور پھیپھڑوں کے ایکسرے سے چیک کیا جائے گا۔

اس ٹیسٹ کو کب تک بڑی سطح پر جاری کرنے کا پلان ہے اور کیا اسے دوسرے ملکوں کو برآمد بھی کیا جا سکتا ہے؟

 ڈاکٹر عاصم نے بتایا کہ کووریڈ میڈیکل ڈیوائس دنیا کے چند ممالک کے پاس پہلے ہی موجود ہے لیکن چونکہ پاکستان نے مکمل طور پر مقامی سطح پر اسے تیار کیا ہے  اس لیے کووریڈ ڈیوائس جلد ملک بھر میں دستیاب ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کووریڈ ٹیکنالوجی دنیا کے دیگر ممالک کو بھی فراہم کر سکے گا۔ ان کے مطابق کووریڈ ڈیوائس کی مقامی سطح پر تیاری پاکستانی سائنس دانوں اور ماہرین کی بڑی کامیابی ہے۔

کرونا کے ٹیسٹ عام لوگوں کے لیے بہت مہنگے ہیں۔ آپ کے ٹیسٹ کی قیمت کیا ہو گی؟

اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’یہ ویسا ٹیسٹ نہیں کہ گھر بیٹھ کر ہو جائے یا کٹ خرید کرقیمت ادا کی جائے۔ انہوں نے کہا چونکہ یہ ٹیسٹ ماہرین ہی کریں گے اس لیے اس کے لیے ہسپتال جانا ہو گا اور مناسب ایکسرے ٹیسٹ کی جو قیمت ہے اس کی فیس اس سے کم ہو گی۔ تاہم ابھی اس کی حتمی قیمت بتانے سے قاصر ہوں۔‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو

%d bloggers like this: