چولستان دلچسپ حقائق
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ریاست بہاولپور میں موجود صحرائے چولستان کو مقامی آبادی ’’روہی‘‘ کے نام سے بھی پکارتی ہوئی نظر آتی ہے۔
اس خطے کی آواز خواجہ غلام فرید کی شاعری میں بھی اسے روہی کے نام سے پکارا گیا ہے۔ جس قدر ’’روہی“ میں ریت موجود ہے اسی تناسب سے منظر کشی خواجہ غلام فرید کی شاعری میں بھی موجود ہے۔
آپ لفظوں سے ایسا منظر پیش کرتے ہیں کہ سننے اور پڑھنے والوں پر ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ’’روہی‘‘ میں محسوس کرتے ہیں–
لفظ ’’چولستان‘‘ ترکی لفظ ’’چول‘‘ سے لیا گیا ہے جس کے معنی ’’صحرا‘‘ کے ہیں۔ ١٩۴۵ء میں منعقد ہونے والی سلوی کلچر کانفرنس میں لیفٹننٹ کرنل ویسٹ لینڈ نے ١٨۷٠ء سے ١٩٣۵ء کے درمیان چولستان کے سروے پر مشتمل ایک منفرد نقشہ پیش کیا گیا تھا۔
جس میں ریت کے ٹیلوں کی جگہ بدلنے کا منظر دکھایا گیا تھا۔ اس نقشہ کے مطابق ریت کے ٹیلوں نے ان ٦۵ برسوں میں آدھ میل سفر طے کیا تھا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ لفظ ’’چولن‘‘ اسی حرکت کی غمازی کرتا ہے۔
چولستان بہاولپور سے کم و بیش تیس (٣٠) کلومیٹر کی مسافت پر موجود ہے۔ اس کا رقبہ ایک ہزار دو سو مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔
یہ علاقہ صحرائے تھر سے جا ملتا ہے جو کہ بھارت اور سندھ تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ جنوب مشرق میں بھارتی ریاست راجھستان سے جا ملتا ہے،
جسے تھر کہتے ہیں۔ مؤرخین کے مطابق چولستان کے صحرا میں کسی زمانے میں 400 قلعے موجود تھے۔
یہ قلعے تین قطاروں میں تھے۔ پہلی قطار پھولرا سے شروع ہو کر لیرا تک٬ دوسری رکن پور سے اسلام گڑھ جبکہ تیسری بیلکنار سے کپو تک تھی۔
ان کی دیواریں جپسم اور گارے سے تعمیر کی گئی تھیں۔ کچھ کا وجود تو ایک ہزار قبل مسیح کا پتہ دیتا تھا۔
اس کا مشہور و معروف مقام قلعہ ڈیراور ہے جسے قلعہ ڈیر اور سنگھ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ قلعہ بہاول پور کی تحصیل احمد پور شرقیہ سے ۴٩ کلومیٹر کی مسافت پر صحرا کے وسط میں موجود ہے۔ ٢٢٠ میٹر کے اس چوکور قلعہ میں ۴٠ برج ہیں۔
اس قلعہ میں سے ایک سرنگ موجود ہے جو اپنے عروج کے زمانہ میں براستہ جیسلمیر٬ دہلی تک جاتی تھی۔ قلعہ کی دیوار کے ساتھ ساتھ ایک نالہ موجود ہے۔ مؤرخین کے مطابق یہاں سے ایک دریا گزرتا تھا جو کہ
دریائے ستلج کی ایک شاخ تھی۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ یہ قلعہ ریاست جیسلمیر کے راجہ کی ملکیت تھا۔
اسے اس کے بھانجے نے تعمیر کروایا۔ اس قلعہ کی دوبارہ تعمیر نواب محمد بہاول خان اول نے ١۷٣٣ء میں کروائی۔ جبکہ ریاست بہاول پور کی الگ عملداری کا آغاز ١٦٩٠ء میں ہوا اور مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا (١۷١٩ء تا ١۷۴٨ء) کے دور میں باقی صوبے
داروں کی طرح یہ ریاست بھی خودمختار ہو گئی۔ جبکہ ٢٢ فروری ١٨٣٣ء کو انگریزوں اور بہاولپور ریاست کے درمیان معاہدہ طے پایا
جس کی رُو سے یہ ریاست برٹش سٹیٹس آف انڈیا کے ماتحت آ گئی۔ جو کہ ڈائریکٹ برطانوی عمل داری کا حصہ نہیں تھی۔
چولستان کے زیریں علاقہ کو ’’ہاکڑہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ جہاں خود رو جھاڑیاں اور پودے مثلاً سر٬ تیلے٬ سرکانے٬
سروٹ اور ملھے جیسے نباتات بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اس علاقہ کے ٹیلوں کی بلندی دو سو فٹ تک ہوتی ہے۔
آندھیوں اور طوفانوں سے چولستان میں جہاں ٹیلے ایک جگہ سے دوسری جگہ سرکتے ہیں، وہیں یہ مختلف شکلیں بھی اختیار کر لیتے ہیں۔
جن میں ایک ’’برخان‘‘ کہلاتی ہے۔ ’’برخان‘‘ شکل و شبہات میں پہلی تاریخوں کے چاند سے مماثلت رکھتے ہیں۔
چولستان میں پانی کی قلت رہتی ہے۔ لوگ ٹوبھوں سے پانی پیتے ہیں۔ جو کسی گہرے علاقے میں بارش کے آنے سے جمع ہو جاتا ہے۔
زیرِ زمین پانی ٨٠ فٹ نیچے موجود ہے مگر وہ کڑوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قبل از مسیح چولستان ایک سرسبز و شاداب علاقہ تھا۔ 4000 قبل مسیح دریائے ہاکڑہ کے کنارے
اس کی عظیم تہذیب ہاکڑہ نے سانسیں لینا شروع کیں۔ جو کہ 1200 قبل مسیح تک پوری آب و تاب کے ساتھ موجود رہی،
کیونکہ دریا اپنے عروج پر تھا ۔ 600 ق م میں دریا کے پانی میں کمی ہونا شروع ہوئی اور بالآخر ایک عظیم تہذیب اپنے انجام کو پہنچی۔ اس کا مقام مصری٬ بابلی اور میسو پوٹیمائی تہذیبیں کے قریب تھا۔
چولستان میں بولے جانا والا مارواڑی لہجہ ہے اپنے اندر بہت سے تاریخی و جغرافیائی عوامل کو ظاہر کرتا ہے۔
جبکہ ریاست میں موجود ڈائیلیکٹ کو ریاستی بھی کہا جاتا ہے۔ چولستانی معیشت کا انحصار زیادہ تر گائے٬
بکریوں٬ بھیڑوں پر کیا جاتا ہے۔ مگر موسم سرما میں یہاں مختلف قسم کی دستکاری اور مٹی کے برتن بھی بنائے جاتے ہیں ۔
اس ضمن میں احمد پور شرقیہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ جہاں کے مٹی کے برتن پنجاب سمیت پورے ملک میں اپنی کھپت رکھتے ہیں۔
چولستانی خواتین بھی اپنی فطرت کے مطابق زیورات سے خصوصی دلچسپی رکھتی ہیں ۔ ان کے زیورات میں نتھ٬ کٹ مالا٬
کنگن اور پازیب کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ جبکہ دیگر صحرائی علاقوں کی مانند ادھر بھی خواتین کی کلائیاں چوڑیوں سے بھری رہتی ہیں۔ چولستان میں بارشوں سے اگنے والا ایک جنگل بھی موجود ہے ۔
سالانہ بارش کی اوسط ١٢ سینٹی میٹر ہے۔ چولستان میں موجود "ڈیراور” مسجد کم و بیش سو برس قبل تعمیر کی گئی۔
اس کی تعمیر میں سفید ماربل استعمال ہوا۔ اس کا طرز تعمیر دہلی کے لال قلعہ اور کسی قدر بابری مسجد سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ چولستان میں موجود چننڑ پیر کا مزار پوری ریاست میں ایک روحانی مقام کا درجہ رکھتا ہے
جبکہ روہی میں ہونے والی جیپ ریلی پاکستان سمیت دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔
١٩٩٩ء کی خشک سالی نے چولستان کی زراعت اور جانوروں پر تباہ کن اثرات مرتب کئے۔ اس ضمن میں پاکستان کونسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورسز (pcrwr) نے دین گڑھ فیلڈ اسٹیشن پر کام کیا جس کے چولستان زندگی پر اچھے اثرات مرتب ہوئے۔
سائنٹیفیک سروے کے مطابق اس خطہ میں آبی ذخائر بنانے کی گنجائش موجود ہے۔ ادارے کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ
آبی ذخیرہ ایسی جگہ پر بنایا جا سکتا ہے جس میں پانی جمع کرنے کی قوت ہے۔ نیز وہ زمین پانی کو بھی کم جذب کرتی ہو۔
ایک آبی ذخیرہ کی گنجائش پندرہ ہزار کیوبک میٹر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ انسانوں اور دو لاکھ مویشیوں کیلئے 70 لاکھ کیوبک میٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے
جبکہ باقی ذخیرہ کیا گیا تین سو ملین کیوبک میٹر پانی زراعت اور فارمنگ کیلئے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
اے وی پڑھو
چوکیل بانڈہ: فطرت کے دلفریب رنگوں کی جادونگری||اکمل خان
ڈیرہ کی گمشدہ نیلی کوٹھی !!||رمیض حبیب
سوات میں سیلاب متاثرین کے مسائل کی درست عکاسی ہو رہی ہے؟||اکمل خان