اشفاق نمیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسمی تبدیلی کے دوران انورژن کے عمل کی وجہ سے سردیوں میں بادل رات کے وقت زمین کی سطح پر آ جاتے ہیں اور عام طور پر سورج نکلنے کے بعد اس کی تپش سے غائب ہو جاتے ہیں جسے ہم FOG یا دھند کہتے ہیں آج کل جس دھند کا سامنا ہم کر رہے ہیں یہ فوگ نہیں SMOG ہے
اسماگ = فاگ (دھند) + سموک "دھواں” ( بشمول کاربن ڈائی آکسائیڈ۔ گرد کے ذرات اور کیمیکل بخارات)
اسموگ کے ذرائع مقامی بھی ہو سکتے ہیں اور غیر مقامی بھی۔ جب دھند اور سموک مل جاتے ہیں تو دھند کے ذرات وزنی ہو جاتے ہیں اور سورج کی تپش سے بھی غائب نہیں ہوتے۔ ایسی صورتحال کئی دن یا ہفتے تک جاری رہ سکتی ہے۔
سموگ (ڈسٹ کے نم ذدات) کے اندر کیمیکل یا پائتھوجنز (وائرس۔بیکٹیریا) ہو سکتے ہیں جس سے سماعت یا آنکھوں کی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ ان ذرات کا حجم 1 سے 5 مائیکرون کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ بیٹھتے نہیں ہیں اس لیے یہ سانس کے ذریعے پھیپھڑوں تک پہنچ کر جلن پیدا کرنے کے علاوہ آنکھوں کی سوزش کا باعث بھی بن سکتے ہیں صرف سموگ کے وہی ذرات ذمین پر گرتے ہیں جن کا سائز 10 مائیکرون یا زیادہ ہو۔
ماحول کی جس تیزی سے تباہی ہم کر رہے ہیں اس کے نقصانات ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا ہوں گے
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر