مئی 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا ڈان میڈیا گروپ کی ادارتی پالیسی مالکان کے اثر سے آزاد ہے؟ ۔۔۔عامر حسینی

مجھے ڈان کے سینئر اسٹاف رپورٹر شمیم مرحوم نے کراچی پریس کلب کے لان میں اس حوالے سے کئی قصّے سنائے تھے-

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اکتوبر کی 31 تاریخ کو بزرگ صحافی سلیم عاصمی صاحب کا انتقال ہوا تو میں نے فیس بک وال پر "ایسا کہاں سے لاؤں” کے عنوان سے ان کا تعزیت نامہ لکھا- اس تعزیت نامے میں، میں نے انھیں جرآت مند و بے باک صحافی لکھا- مالکان کے دباؤ میں نہ آنے والا ایڈیٹر لکھا- اور یہ بھی کہا کہ عباس ناصر اور ظفر عباس کے دور میں تو ڈان کی ادارتی پالیسی مالکان کے مکمل تابع ہوگئی- تو یہ کہا گیا کہ سلیم عاصمی صاحب کی جرآت و بہادری تو ڈان اخبار میں نظر نہیں آئی لیکن ظفر عباس کی نظر آتی ہے- اس چیز نے مجھے مجبور کردیا کہ میں اس بارے میں کچھ روشنی ڈالوں کہ ڈان اخبار میں کہنے کو تو ایک باقاعدہ پروفیشنل ایڈیٹر ہمیشہ سے موجود رہا ہے لیکن کیا وہ پروفیشنل ایڈیٹرادارتی پالیسی بنانے اور اخبار کو چلانے میں آزاد بھی رہا کہ نہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب تفصیل میں جائے بغیر ملنے کا نہیں ہے-

یہ بات درست ہے کہ اس وقت پاکستان کے اخبارات ہوں یا ٹی وی چینلز ہوں اکثریت جگہ پر ایڈیٹر اور چیف ایڈیٹر دونوں کے دونوں مالکان کے قبیلے سے ہوتے ہیں اورجہاں نہیں ہوتے وہاں غیر رشتے دار ایڈیٹر اور چیف ایڈیٹر دونوں ہی مالک کے بے دام غلام ہوا کرتے ہیں-

لیکن یہ جو ڈان میڈیا گروپ کے اشراف لبرل مالکان ایڈیٹر کی آزادی کا نام لیکر دوسرے میڈیا گروپوں سے اپنے گروپ کو ممتاز اور بہتر بتاتے ہیں، یہ خود کتنے کمپرومائزڈ گروپ ہیں ان کا اندازہ لگایا جانا بہت ضروری ہے-

At Dawn things are not decided by the owners, and that news and views published in the paper are the sole prerogative of its editor.

From this point of view, Dawn is perhaps the only paper in Pakistan which has always had a professional editor, and the owners had not grabbed the editor’s slot – except once by force of circumstances – to make a mockery of editorial independence. Despite being a political family, the Haroons, owners of the Dawn media group, leave it to the editor to run the paper once the broad contours of policy are in place.

https://www.dawn.com/news/1361017

ڈان میں فیصلے مالکان نہیں کرتے، اخبار میں خبریں اور نکتہ نظر

اس نکتہ نظر سے، ڈان شاید واحد اخبار ہے جس میں ہمیشہ ایک پیشہ ور مدیر رہا ہے اور مالکان نے کبھی "ادارتی آزادی” کو مذاق بنانے کے لیے مدیر کے عہدے پہ قبضہ نہیں کیا— سوائے ایک مرتبہ کے جب حالات نے مجبور کردیا—— ایک سیاسی خاندان ہونے کے باوجود، ڈان میڈیا کے مالکان نے، ایک وسیع پالیسی کے اندر اخبار کو چلانے کا اختیار مدیر کو سونپے رکھا ہے-

کراچی پریس کلب کے سابق صدر اور انسانی حقوق کمیشن پاکستان سندھ کے سابق جنرل سیکرٹری سلیم عاصمی صاحب گزر گئے- ان کی وفات صحافت میں حروف کی حرمت کا پاس رکھنے والوں کے لیے صدمے کا باعث بنی ہے- ہر آنکھ اشکبار ہے-  ان کے ساتھ محبت کرنے والوں کے ہاں فرش عزا بچھا ہوا ہے- ان کے کولیگ، ان کے جونئیر اور ان سے انسپائریشن لینے والے ان سے اپنی محبت کا اظہار کررہے ہیں-

میں ڈیلی ڈان کا مستقل قاری ہوں- اور جب سے میں نے ڈان باقاعدگی سے پڑھنا شروع کیا تب سے لیکر ابتک میرے سب سے پسندیدہ ڈان کے مدیروں میں احمد علی اور اس کے بعد سلیم عاصمی صاحب کا نام آتا ہے- یہ دو ایسے ایڈیٹر تھے جن کے دوسرے فلور پر واقع دفتر میں تیسرے فلور پر واقع مالک کے دفتر سے کوئی ناجائز پریس ایڈوائس بھیجنے کی ہمت نہیں کی جاسکتی تھی- اور ٹھیک معانی میں ڈیلی ڈان میں آزاد مدیر یہی دو تھے-

محمد علی صدیقی صاحب کا ایک مضمون 4 اکتوبر2017ء کی ڈان کی اشاعت میں شایع ہوا تھا- اس مضمون میں انھوں نے پہلے تو یہ دعوی کیا کہ ڈان اخبار میں خبریں اور دیگر تحریری مواد کے چھپنے نہ چھپنے کے معاملے میں مالکان مداخلت نہیں کرتے اور یہ سراسر مدیر کی صوابدید ہے- دوسرا دعوا انھوں نے یہ کیا ہارون خاندان ایک سیاسی خاندان ہونے کے باوجود ایک وسیع تر ادارتی پالیسی کے تحت اخبار چلانے کی زمہ داری اخبار کے پیشہ ور مدیر پر چھوڑ دیتا ہے-

یہ دونوں دعوے ہی محل نظر ہیں- سیٹھ ہارون کا خاندان جب سے ڈان میڈیا گروپ کے معاملات دیکھ رہا ہے تب سے لیکر ابتک اس میڈیا گروپ کی پبلیکیشنز پر اس خاندان کے سیاسی جھکاؤ کے اثرات اور پرچھائیاں نظر آتی رہی ہیں جس کا اعتراف اور جس کا وجود اس اخبار کے آرکائیوز میں دیکھا جاسکتا ہے-

ایوب خان کے زمانے میں سیٹھ ہارون کا خاندان ایوب خان کی بنائی کنونشن لیگ کا اہم اور چلتا پرزہ تھا اور اس اخبار کی ادارتی پالیسی ایوب خان کی تعریف اور حمایت میں رہی اور صدارتی الیکشن کے دوران ڈان اخبار میں محترمہ فاطمہ جناح اور کمبائنڈ اپوزیشن کی کردار کشی کی جاتی رہی-

ایوب خان کے زمانے میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے تاشقند معاہدے پر ایوب خان سے اختلاف کرتے ہوئے استعفا دیا تو بھٹو اور ان کے خاندان کی کردار کشی کی مہم ایوب خان کے سرکاری میڈیا مشیروں نے چلائی جس کی سربراہی الطاف گوہر کررہے تھے اور انہوں نے بھٹو کی کردار کشی کے لیے جتنے افسانے گھڑے ان کو ڈیلی ڈان میں شایع کیا گیا- اور پھر اسی ڈان اخبار نے پاکستان پیپلزپارٹی کی تاسیس کی بس ایک کالمی خبر شایع کی اور اس خبر کا انداز بھی طنز سے بھرا ہوا تھا-

یحیی خان کے دور میں بھی اس اخبار کا بھٹو صاحب سے رویہ معاندانہ رہا- اور بعد ازاں جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی اخبار کے مالکان نہ صرف جاکر آمر حکومت کے ساتھ کھڑے ہوگئے بلکہ مارشل لاء کے وائٹ پیپر کو بھی اخبار نے خوب کوریج دی- اس زمانے میں ڈان کے مالکان کے پاس سندھ کی گورنرشپ بھی آگئی- اس دوران بار بار مدیر صاحبان کو مجبور کیا جاتا رہا کہ وہ جنرل ضیاء الحق کے حوالے سے سافٹ کارنر رکھیں-

ڈان اخبار نے ہمیشہ لیفٹ پالیسیز کو ہدف تنقید بنایا- یہ لبرل بورژوازی کا ترجمان بنا رہا- اس کی ادارتی پالیسیوں میں ہمیشہ ایوب خان کے دورکو سنہری دور بناکر پیش کیا جاتا رہا- ضیاء الحق کی ڈی نیشنلائزیشن، سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام، ڈاکٹر محبوب الحق کی سرمایہ دار پالیسیوں سے اسے کوئی اختلاف نہ تھا اور یہ ان دنوں ان پالیسیوں کا حامی تھا- اسے چند ایک لبرل آدرش سے ہمدردی تھی-

ڈان اخبار کی ادارتی پالیسی میں ایک بہت بڑا شفٹ نوے کی دہائی میں دیکھنے کو ملا، جب اس کے مالکان کے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے خاندان سے روابط بڑھنے شروع ہوئے- اور یہ روابط مشرف دور کے آخر میں اپنے عروج پر پہنچ گئے- احمد علی اور عصمیمی دو ایسے ایڈیٹر تھے جنھوں نے ڈان اخبار کے مالکان کی نواز شریف کی طرف شفٹ کرنے کو ڈان کی پالیسی بنانے کی مزاحمت کی-

مجھے ڈان کے سینئر اسٹاف رپورٹر شمیم مرحوم نے کراچی پریس کلب کے لان میں اس حوالے سے کئی قصّے سنائے تھے- لیکن جب ادارت عباس ناصر کے پاس آئی تھی تو عباس ناصر ایک ایسے ایڈیٹر ثابت ہوئے جو کافی حد تک مالکان کے دباؤ میں آئے بلکہ ایک طرح سے خود انھوں نے بھی نواز شریف کیمپ جوائن کرلیا- لیکن عباس ناصر کے دور میں ڈیلی ڈان نے کم از کم نواز شریف کی سب سے بڑی سیاسی حریف جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے آصف علی زرداری کو بنا کسی عدالتی فیصلے کے مجرم اور لٹیرا اپنے اداریے میں نہیں لکھا تھا- اور نہ ہی ادارتی صفحے پر ان دنوں کبھی ایسا مضمون شایع ہوا تھا جس میں فوج کے سربراہ کو مارشل لا لگانے کی دعوت دی گئی ہو-

ہاں عباس ناصر کے دور سے یہ ہونا شروع ہوگیا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت اور اس کی سرگرمیوں کی نمایاں کوریج کم سے کم ہوتی چلی گئی اور نواز لیگ کی کوریج بڑھتی چلی گئی-

ناصر عباس نے جیسے ہی روزنامہ ڈان کی ادارت سنبھالی، انھوں نے اپنے اسٹاف رپورٹرز پر یہ پابندی لگادی کہ وہ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والوں کی مذہبی شناخت درج نہیں کریں گے- روزنامہ ڈان ناصر عباس کی ادارت کے سارے دور میں ظفر عباس کی ادارت کے کے کئی سالوں تک ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والے لوگوں کی مذہبی شناخت کو چھپاتا رہا- اس حوالے سے ڈان سمیت پاکستان کے انگریزی لبرل پریس کا شیعہ اور صوفی سنّی ٹارگٹ کلنگ پر بد دیانتی پر مشتمل ڈسکورس کا جائزہ عباس زیدی نے اپنے دو تحقیقی مقالوں میں لیا ہے جو انٹرنیشنل جرائد میں چھپے اور بعد ازاں میں نے ان کا اردو ترجمہ کیا، جو کتابی شکل میں،”شیعہ نسل کشی:افسانہ یا حقیق” میں شامل ہے جو 2018ء میں شایع ہوئی تھی-

میری حال ہی میں ڈان میڈیا گروپ کے تحت شایع ہوکر "قتل” کردیے جانے والے ماہنامہ انگریزی میگزین ہیرالڈ کے سابقہ ایڈیٹر بدرعالم سے لاہور میں ملاقات ہوئی- اس ملاقات میں انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ اخبار ڈان ناصر عباس کے دور سے مالکان کی مداخلت کو قبول کرنے لگا اور ظفر عباس کے دور میں بالکل سرنڈر کرگیا-

انھوں نے انکشاف کیا کہ جب وہ ہیرالڈ کے ایڈیٹر تھے تو حمید ہارون کا ان پر شدید دباؤ تھا کہ ہیرالڈ ان کی پروجیکشن کا کام کرے- اور ایسے ہی جب نام نہاد آزاد عدلیہ کی تحریک چلی تو یہ حمید ہارون تھے جو ہیرالڈ کے ایڈیٹر پر افتخار چوہدری کو مسیحا بناکر پیش کرنے پر اصرار کرتے نظرآئے- اور جب پی پی پی کی حکومت آئی تو افتخار چوہدری کے متنازعہ اور آئین و قانون سے ہٹ کر اٹھائے جانے والے اقدامات اور جوڈیشری کی مقننہ اور انتظامیہ کے اختیارات میں مداخلت پر ہیرالڈ کے اداریوں اور کئی ایک تحقیقی اسٹوریز کو رکوانےکی کوشش حمید ہارون کی طرف سے کی جاتی رہی-

جب یوسف رضا گیلانی کو معزول کیا گیا تو ہم نے ہیرالڈ کے سرورق پر جوپوسٹر ڈیزائن کیا وہ عدلیہ کے ہتھوڑے کے نیچے پارلیمنٹ کو دبے دکھائے جانے والا تھا- حمید ہارون نے اس پوسٹر کی اشاعت میں بھی روکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی اور کئی گھنٹے تک ہیرالڈ کی کاپی پریس میں نہ جاسکی- حمید ہارون کا کہنا تھا کہ اس پوسٹر کے شایع ہونے سے ججز سے تعلقات خراب ہوں گے- نواز شریف بر منائیں گے اور "دانشور فوجی سربراہ” کو بھی یہ بات پسند نہیں آئے گی-

میں نے جب شرمین چنائے کے بارے میں ایک حقائق پر مبنی خصوصی اسٹوری ہیرالڈ میں چھاپنے کی اجازت دی تو ڈان میں سے ہی کسی نے اس کی مخبری شرمین چنائے کے سسر کو کردی اور وہ حمید ہارون کے گہرے دوست تھے- وہ رات دو بجے حمید ہارون کے پاس پہنچ گئے اور ان سے اس اسٹوری کو رکوانے کو کہا- ساری رات حمید ہارون میرےسنمبر پہ ٹرائی کرتے رہے اور گھر ہی نہ گئے- ہیرالڈ کی کاپی پریس میں چھپنے سے روک دی گئی- صبح میں نے فون اٹھایا اور ان کی بات سننے کے بعد میں نے اسٹوری ہیرالڈ سے نکالنے سے انکار کردیا اور کہا اگر وہ اسے روکیں گے تو میں پہلے مستعفی ہوں گا اور پھر آپ کا جس طرح جی چاہے کیجئے گا- تب کہیں جاکر حمید ہارون باز آئے-

ہیرالڈ میگزین مالکان پر بوجھ نہیں تھا- یہ تھوڑے سے بجٹ میں چل سکتا تھا لیکن اس کی آزادانہ روش اور نواز شریف-کیانی- افتخار ٹرائیکا کے حضور سربسجود نہ ہونے کے سبب اور بعد ازاں نواز شریف کو اینٹی اسٹبلشمنٹ آئکون بناکر نہ دکھانے اور سب سے بڑھ کر پیپلزپارٹی کی قیادت کی کردار کشی کو کور اسٹوری بناکر نہ چھاپنے پر اصرار نے اسے بند کرادیا-

بدر عالم کہتے ہیں کہ جب ہیرالڈ میگزین اپنی آزاد ادارتی پالیسی کو برقرار رکھنے کی انتہائی کوشش میں مصروف تھا تو ڈان اخبار کے مدیر سمیت اکثر لوگ مالکان کے آگے سرنڈر ہوگئے تھے-

"ہیرالڈ کے ایڈیٹر کے طور پر مجھے صدر پاکستان آصف علی زرداری کا انٹرویو کرنے کی دعوت ملی- یہ دعوت میں نے قبول کرلی اور ان کا انٹرویو کیا- وہ وقت تھا جب پاکستان میں بدترین سیلاب آیا ہوا تھا- اس انٹرویو کے شایع کرنے پر بھی مالکان کو اعتراض تھا لیکن ہم نے وہ انٹرویو شایع کیا- اگرچہ زرداری صاحب کے ایک قریبی شخص نے زرداری صاحب کی طرف سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ہم اس انٹرویو پر مبنی کور پوسٹر ڈیزائن کرائیں، جو میں نے اس لیے انکار کردیا کہ جس وقت پاکستان کے لاکھوں عوام سیلاب سے متاثر ہوں تو کور پوسٹر بھی سیلاب سے متعلق ہونا چاہيے- لکن ایک بات ہے کہ آصف زرداری نے سخت ترین سوالات کے جواب تحمل اور برداشت کے ساتھ دیے- اور ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا،”فوج سویلین حکومت کا ماتحت ادارہ ہے،ہم جہاں چاہيں گے، اسے اپنے ساتھ تعاون کے لیے بلائیں گے۔”

” ہیرالڈ مالی مشکلات کی وجہ سے بند نہیں کیا گیا بلکہ اس کی بڑی وجہ ہیرالڈ کا وہ خدمات سرانجام دینے سے قاصر رہنا تھا، جو مالکان کو مطلوب تھیں- بدر عالم سابق ایڈیٹر ہیرالڈ”

محمد علی صدیقی صاحب، میرے لیے انتہائی قابل احترام سینئر صحافی ہیں- لیکن میں بصد احترام ان کے اس دعوے کی نفی کرتا ہوں کہ ڈان میڈیا گروپ کے مالکان اخبار کی ادارتی پالیسی میں قطعی مداخلت نہیں کرتے- اور ان کے مفادات اور ان کا سیاسی رجحان ڈان اخبار کی ادارتی پالیسی پر اثر نہیں ڈالتا- میں نے ایک گواہی تو ہیرالڈ کے سابق ایڈیٹر بدر عالم کی ڈالی ہے-

اب دوسری گواہی ہے ڈان سے وابستہ رہے کارٹونسٹ فیقا کی- فیقا کا ریکارڈ انٹرویو میرے پاس موجود ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ سلیم عاصمی صاحب جب ڈان کے ایڈیٹر تھے تو حمید ہارون سی ای او ڈان میڈیا گروپ نے ان کے کارٹون پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی اور خاص طور پر عدلیہ اور نواز لیگ کے بارے میں ان کے بنائے گئے کارٹون سنسر کرنے کی کوشش ہوئی اور ان کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش ہوئی جسے سلیم عاصمی صاحب کے سخت موقف نے ناکام بنایا- لیکن عباس ناصر کے دور میں ان کو تھوڑی تھوڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ظفر عباس کے دور میں تو یہ سلسلہ انتہائی شدید ہوگیا- ان کا کارٹون پہلےمرکزی ادارتی صفحے سے دوسرے ادارتی پیج پر لایا گیا اور پھر اس کا سائز بھی کم کیا گیا- اور ان کی سوچ اور تخیل پر بھی پابندی لگانے کی کوشش کی گئی- اس کے بعد ظفر عباس نے حمید ہارون کے اشارے پر مجھ پر #می_ٹو کا ہتھیار استعمال کیا گیا- مجھ صفائی کا موقعہ دیے بغیر اور مجھ پر الزام لگانے والی شخصیت کو سامنے لائے بغیر میرے کارٹون کی ڈان میں اشاعت روک دی گئی اور جو ایک رکنی انکوائری کمیٹی محمد علی صدیقی کی سربراہی میں بنی آج تک وہ اپنی رپورٹ سامنے نہ لاسکی-

لیکن جب جامی مور کا الزام سامنے آیا- تو پہلے تو ان کے ٹوئٹ کو ڈان نے اپنی ویب سائٹ پر خبر کے ساتھ لگایا،لیکن جیسے ہی یہ بات سامنے آئی کہ اس پہ تو شک حمید ہارون کی طرف جارہا ہے تو لنک ڈاؤن کردیا گیا لیکن جب لوگوں نے شور مچایا تو دوبارہ لنک آن کیا گیا- لیکن ڈان نے جامی مور کے انٹرویوز اور ٹوئٹ و فیس بک وال پوسٹ پر حمید ہارون پر جنسی زیادتی کے الزام کے حوالے سے پیش کیے گئے موقف کا بلیک آؤٹ جاری رکھا- جامی مور آج بھی ڈان کے کسی نمآئندےکا منتظر ہے کہ وہ براہ راست اس کا موقف لے اور ویسے ہی اتنی جگہ پر شایع کرے جتنی جگہ پر حمید ہارون کا موقف شایع کیا گیا- آج تک ڈان نے حمید ہارون بارے جو انکوائری کرنے کا اعلان کیا تھا، اس کے نتائج سے اپنے پڑھنے والوں کو آگاہ نہیں کیا-

فیقا یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ ڈان اخبار نے جو پالیسی ان پر الزام لگنے کے بعد اختیار کی تھی اس کا اطلاق حمید ہارون پر کیوں نہ ہوا؟ کیا اس سے یہ الزام درست معلوم نہیں ہوتا کہ ڈان میں ایڈیٹر کی مالکان کی مداخلت سے آزاد کام کرنے کا دعوا جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے؟

ایک تیسری گواہی بھی لے لیجئے- ڈان اخبار میں نیوز سب ایڈیٹر کے طور پر کام کررہے انتہائی سینئر صحافی نے مجھے بتایا کہ ایڈیٹر کی جانب سے ان کو مسلم لیگ نواز کی قیادت کی کوریج زیادہ کرنے پر زور دیا جاتا ہے- یہاں تک کہ جماعت اسلامی کی چھوٹی چھوٹی سی پریس ریلیز کو بھی بہتر کوریج دینے کا حکم ہے لیکن پی پی پی کے مرکزی چئیرمین اور دیگر مرکزی قیادت کی پریس ریلیز اور بیانات کو تیسرے درجے کی کوریج دی جاتی ہے- اور تو اور انھوں نے یہ بھی بتایا کہ پی پی پی کے بارے میں جب کوئی اسکینڈل آتا تو نام تک بگاڑ کر لکھنے کو کہا جاتا – جیسے راجا پرویز اشرف کے خلاف جب نیب عدالت نے رینٹل پاور ریفرنس میں فرد جرم عائد کی توانھیں ایڈیٹر کی طرف سے کہا گیا کہ وہ راجا پرویز اشرف کی بجائے سرخی میں راجا رینٹل لکھیں- اور اس حوالے سے ایڈیٹر نے یہ بھی کہا کہ یہ "تیسرے فلور”(جہاں پر حمید ہارون کا دفتر ہے) سے ہدائیت ہے-

ڈان کی 2008ء سے لیکر 2013ء اور پھر 2013ء سے 2018ء تک کی اگر آپ وفاق ، پنجاب اور سندھ کے حوالے سے رپورٹنگ ملاحظہ کریں تو آپ پر یہ انکشاف ہوگا کہ ڈان اخبار نے نوزائیدہ بچوں کے ہسپتالوں میں فوت ہونے کے ایشو کو لیکر جتنی رپورٹنگ سندھ کے بارے میں 2008ء سے 2018ء تک کی اس کے ایک فیصد رپورٹنگ بھی پنجاب بارے میں نہیں تھی- جبکہ 2008ء سے 2013ء تک ڈان کی منفی رپورٹنگ وفاقی حکومت اور وفاقی محکموں بارے جسقدر زیادہ تھی اس کے عشر عشیر بھی نواز دور میں نہیں تھی اور پی ٹی آئی کے دو سالوں میں بھی ڈان نے پنجاب اور وفاق پر جس شدت سے ناقدانہ رپورٹنگ کی وہ شدت ہمیں نواز دور میں مفقود نظر آئی- اور پھر ہمیں عالمی ادارہ صحت نے یہ رپورٹ دی کہ نوزائیدہ بچوں کی خوراک کی کمی یا وینٹی لیٹر میسر نہ ہونے کے سبب ہونے والی اموات کی سب سے زیادہ شرح پنجاب میں تھی اور یہ شرح مجموعی طور پر پورے پاکستان میں زیادہ تھی،یہاں تک کہ لاہور سب شہروں سے آگے تھا- ڈان اخبار میں ہم نے تھر میں بچوں کی اموات پر اداریے دیکھے- سندھ میں صحت کی سہولتوں کی کمی پر اداریے دیکھے- پی پی پی آصف زرداری پر بدعنوانی کے الزامات کو "ثابت شدہ وائٹ کالر جرائم” لکھا پایا- لیکن یہ مجاہدانہ انداز صحافت ہمیں نواز لیگ اور نواز شریف کے باب میں نظر نہیں آیا-

یہ بھی پڑھیے: سلیم عاصمی: ایسا کہاں سے لاؤں؟ ۔۔۔عامر حسینی

 تو اس معروضی جائزے سے ہم اندازہ کرسکے ہیں کہ ڈان کی ادارتی پالیسی آزاد ہونے کے بارے میں محمد علی صدیقی کا جو دعوی ہے وہ کس قدر سچ ہے؟

%d bloggers like this: