اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سلیم عاصمی: ایسا کہاں سے لاؤں؟ ۔۔۔عامر حسینی

میں نے مذھبی اور نسلی جبر پر اُن جیسے بے باک، کھرے اور صاف گو انسان پاکستان کی لبرل اور لیفٹ اشراف صحافتی برادری میں بہت کم پائے"

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کا دن بہت ہی سوگوار دن ہے- انگریزی روزنامہ ڈان کے سابق مدیر سلیم عاصمی کا انتقال ہوگیا- سلیم عاصمی کے بعد ڈان کو کوئی ایسا مدیر نہ ملا جو مالکان کو اخبار کی ادارتی پالیسی پر اثر انداز ہونے سے روکنے کی ہمت رکھتا ہو-
سلیم عصیمی نے کراچی یونیورسٹی شعبہ اطلاقی کیمیا کے ڈاکٹر ریاض احمد کی کراچی رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا:
“یہاں ملّا اور تیسرے درجے کے سیاست دان کو اپنے کسی ساتھی کی گرفتاری پہ پریس کانفرنس کرنے کی اجازت ہے لیکن کسی فنکار یا دانشور /استاد کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔”
میں نے مذھبی اور نسلی جبر پر اُن جیسے بے باک، کھرے اور صاف گو انسان پاکستان کی لبرل اور لیفٹ اشراف صحافتی برادری میں بہت کم پائے”
ان کی ادارت کے زمانے میں اسلام آباد سے بھی روزنامہ ڈان چھپنا شروع ہوا-
انھوں نے روزنامہ ڈان کے ساتھ دو نئے میگزین شایع کرنے شروع کیے، ایک” دا گیلری” اور دوسرا
” ُبکس اینڈ آتھرز” تھا-
مجھے فیکا کارٹونسٹ نے آج فون کیا اور ہم نے فون پر سلیم عصیمی صاحب کے رخصت ہوجانے کا غم منایا اور ایک دوسرے سے تعزیت تو فیکا نے دوران گفتگو ہی مجھے بتایا کہ "تمہیں پتا ہے کہ میرے کارٹونز میں ایک خاتون کے ساتھ جو آدمی کھڑا کیری کیچر دیکھ رہا ہوتا ہے وہ کون ہے؟ میں نے کہا،” بالکل نہیں پتا-” فیقا کہنے لگے،” وہ سلیم عصیمی صاحب-"
کیا اتفاق ہے کہ میں چند روز پہلے ھیرالڈ کے سابق ایڈیٹر بدر عالم سے ملا تھا- اس دوران عصیمی صاحب کا زکر چھڑا تو کہنے لگے کہ "وہ اگر ایڈیٹر ہوتے تو مالکان کی کیا جرآت تھی کہ وہ ڈان اخبار کو حکمران طبقات کے درمیان لڑائی میں کسی ایک حصے کا بھونپو بناکر رکھ دیتے-"
عصیمی صاحب کی مہربانی تھی کہ وہ لبرل بورژوازی پریس کے موقعہ پرستانہ ڈسکورس پر ریاض ملک، عبدل نیشاپوری، عباس زیدی جیسے لوگوں کی تنقید کو سراہا کرتے تھے-
سلیم عصیمی بلاشبہ پاکستان میں ترقی پسند، روشن خیال، بائیں بازو کی اصول پسند صحافت کا روشن ستارہ تھے اور وہ ڈان کے ایسے ایڈیٹر تھے جو نیوز ڈیسک سے اس عہدے تک پہنچے تھے- اُن کے زمانے تک ڈان اخبار کا معیار بہت بلند تھا اور اس پہ یہ چھاپ نہیں تھی کہ یہ کسی ایک سیاسی جماعت اور ایک بڑے سرمایہ دار خاندان کی پروجیکشن پر کام کرنے والا اخبار بن گیا ہے-
ناصر عباس اور پھر ظفر عباس کی ادارت کے زمانے روزنامہ ڈان کی تاریخ کے شاید سب سے تاریک دور گردانے جائیں، کیونکہ ان ادوار میں مالکان بہت زیادہ ڈان کی ادارتی پالیسی پر حاوی ہوگئے تھے(اور ہورہے ہیں) اور ہم جیسے ڈان کے باقاعدہ قارئین کو رہ رہ احمد علی، سلیم عصیمی کے دور کا اخبار یاد آیا کرتا تھا-
سلیم عصیمی اَمر ہوگئے- خدا اُن کی مغفرت کرے-

%d bloggers like this: