جام ایم ڈی گانگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضلع رحیم یار خان میں انٹرنیشنل و قومی کرونا وائرس مہم، پولیو مہم، ڈینگی مہم، سموگ مہم، ناجائز ذخیرہ اندوزی مہم، ناجائزتجازات و قبضہ گیری ختم کرو مہم سمیت ناجانے کتنی مرئی اور غیرمرئی مہمات جاری و ساری ہے. ان کی کامیابی و ناکامی، کامیابی کا تناسب وغیرہ کو زیر بحث لانا میرے آج کے موضوع میں شامل نہیں ہے. ضلع رحیم یار خان کے نوجوان اور حساس دل رکھنے والے ڈپٹی کمشنر علی شہزاد آجکل ضلع بھر میں آوارہ سگاں تلفی مہم کی بڑی جانفشانی اور سختی کے ساتھ چلائے ہوئے ہیں.اس مہم کو عام فہم اور آسان الفاظ میں آوارہ کتے مار مہم کہا جاتا ہے. ناجانے کتے کی بجائے سگاں کا مشکل لفظ استعمال کرنے کی منطق اور سوچ کے پیچھے کیا حکمت کار فرما ہے. رحیم یار خان کے نواح میں سکول سے گھر واپس جانے والے دو کمسن بچوں کو آوارہ کتوں نے جس طرح زخمی کی اور پھر جس برے طریقے سے چیرپھاڑ کے انہیں نوچتے اور کھاتے رہے. اسی طرح تحصیل لیاقت پور میں ایک بزرگ شہری کو بھی آوراہ کتوں اپنی خوراک کا حصہ بنایا. ہر دو واقعات کی سوشل میڈیا اور میڈیا کے ذریعے خبر نے پورے ضلع، سرائیکی وسیب اور ملک میں دکھ و درد، غم و سوگ کی فضا قائم کر دی. خاص طور پر بچوں کے ساتھ پیش آنے والےواقعہ نے.ملک کے لاکھوں کروڑوں دوسرے لوگوں کی طرح ڈپٹی کمشنر علی شہزاد نے اس واقعہ کے بعد ذہنی اور روحانی طور پر اپنے اندر ایک حقیقی دکھ درد کرب محسوس کیا. یہ اسی کا ردعمل اور ایکشن ہے کہ انہوں نے ضلع بھر میں آوارہ کتے مار مہم کو فی الفور شروع کروایا اور بڑی سختی کے ساتھ خود اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر جہانزیب لابر اس کی نگرانی کر رہے ہیں. یہ لابر صاحب بھی بڑے خاندانی شریف و نفیس، رحم دل اور بااخلاق انسان اور اچھے منتظم آفیسر ہیں. ہمارے مذکورہ بالا آفیسران کے علم میں یہ بات اور حقیقت ہے یا نہیں ہے کہ ماضی میں ضلع رحیم یار خان میں بندے مار مہم بھی چلتی رہی ہے. اس کی مخصوص اصلاحات بھی اب زبان زد عام ہیں. یہ ایک بڑا حساس اور تلخ موضوع ہے. ویسے کوئی مانے یا نہ مانے وائٹ اینڈ لائٹ بندے مار مہم ڈے اینڈ نائٹ آج بھی کسی نہ کسی شکل و رنگ میں جاری و ساری ہے. یہ سلو فوڈ پوائزننگ کی مانند ہے. اس کا دیر بعد مشکل سے پتہ چلتا ہے. جس معاشرے میں مافیاز کا راج ہو. وہاں ایسی ویسی چیزیں ہوتی رہتی ہیں.
محترم قارئین کرام،، کتوں کی کئی قسمیں ہیں.پالتو کتے، شکاری کتوں، راکھی کتے،وفادار کتے، لالچی کتے، چھیتے یعنی باؤلے کتے ، آوارہ کتے وغیرہ وغیرہ . یہ آوارہ کتے جس نسل سے بھی تعلق رکھتے ہوں لیکن ہوتے بد نسلے ہی ہیں. اسی لیے تو آوارگی ہی ان کی زندگی اور پہچان ہوتی ہے. باؤلے کتوں کو تو لوگ اپنی مدد آپ کے تحت فورا مارنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ یہ جہاں بھی ہوں وہاں اور گرد و نواح میں ایک ہنگامی کیفیت اور خوف کی فضا طاری ہو جاتی ہے. ہر کوئی احتیاط کرنے لگتا ہے خاص طور پر بچوں کو باہر نکلنے سے روک دیا جاتا ہے. لیکن آوارہ کتوں سے نہ کوئی ڈرتا ہے اور نہ کوئی انہیں مارتا ہے. کیونکہ ان کی اکثریت لیدھڑ اور لُوسی ہوتی ہے. نہ جانے لوگ کیوں یہ بھول جاتے ہیں. آخر کتا تو کتا ہی ہوتا ہے. صرف بھونکنا نہیں، حملہ کرنا اور کاٹنا بھی اس کی فطرت میں شامل ہے. پھر بھوکے کتے کا کیا بھروسہ اور اعتبار وہ اپنی بھوک مٹانے کے لیےکچھ بھی کر سکتا ہے.
آوارہ کتوں کی تلفی مہم کو کامیاب بنانے اور آئندہ ان پر کنٹرول کرنے کے لیے آوارہ کتوں کی افزائش اور بہتات کی وجوہات کو جاننا بہت ضروری ہے. آوارہ کتوں کے خاص خاص مراکز اور ٹھکانوں کی معلومات کا ہونا اور پھر وہاں انفرادی اور اجتماعی طور پر، سرکاری اور پرائیویٹ طور پر ان کے سدباب کے انتظامات کرکے ہی ان کی افزائش، بڑھوتری، بہتات کو کنٹرول کرکے نقصانات سے بچا جا سکتا ہے. یہ نقطہ بھی بڑی اہمیت کا حامل کہ کتوں کے زیادہ حملے اور کاٹنے کے کیسز کتی کے مہینےمیں رونما ہوتے ہیں. دیہاتوں میں آج بھی پرانے لوگ اکتوبر نومبر کے کت ایام یعنی کتوں کے جنسی ملاپ کے خاص دنوں میں بچوں بڑوں کو کتوں سے محتاط رکھنے کی تاکید کرتے نظر آتے ہیں اس کی وجہ یہ کے کہ ان ایام کے دوران کتوں میں کراسنگ عروج پر ہوتی ہے. آوارہ کتوں کےغول کے غول کتیا کے پیچھے پڑے ہوتے ہیں. وہ جنسی جنون کی وجہ سے بڑے خطرناک قسم کے ردعمل کی سوچ کا شکار ہوتے ہیں. اس لیے چھیڑ خانی کرنے والوں پر حملہ کرنا عام سے بات ہے. اس دوران باری کے چکر میں کتوں میں آپس میں گھمسان کی لڑائیاں بھی ہوتی ہیں. اس باری کا قومی سیاست میں، عوام اور باری کی سیاست کرنے والے سیاستدانوں سے براہ راست تو کوئی تعلق نہیں. البتہ دونوں باریوں میں کئی مشترک قدریں ضرور موجود ہیں. باری کی خاطر لڑنے والوں کی سوچ و عمل میں کافی جگہوں پر مشابہت بھی پائی جاتی ہے خیر چھوڑیں یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے.
آوارہ کتوں کے ٹھکانوں میں قصائیوں کے پھٹے اور دکانیں، شادی ہالز کے ارد گرد موجود خالی جگہیں، مرغی خانے، خاص طور پر کنٹرول شیڈز، سڑکوں کنارے موجود چھپر ہوٹل،شہروں میں فٹ پاتھوں پر قائم فوڈ مراکز، اور آبادیوں میں موجود کچرے کے ڈھیر وغیرہ شامل ہیں. رحیم یار خان شہر میں نوٹ کیا ہے کہ شام کے وقت عباسیہ ٹاون، گلشن عثمان، گلشن اقبال، سمیت دوسری آبادیاں میں سڑکوں کنارے، فٹ پاتھوں یا دو سڑکوں کے درمیان خالی جگہوں پر پھٹے سجا دیئے جاتے ہیں اور وہاں گاہکوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے. لوگوں کی اکثریت ہڈیاں پھٹے کے نیچے پھینکتی جاتی ہے. جو ہوٹل کے بند ہونے کے بعد آوارہ کتوں کی خوراک بنتی ہے. تجاوزات کے خلاف آپریشن آپریشن کی گردان کرنے والی ضلعی انتظامیہ کبھی شام کے وقت شہر کے عین وسط میں موجود نوشہرہ مائنر، پائلٹ سکول خواجہ فرید کالج روڈ کا وزٹ کرکے دیکھ لے. شہروں میں صفائی کے بعد ہر شئے کچرے کے ڈھیروں پر ہی پھنکی جاتی ہے حتیکہ ناجائز طور پر پیدا ہونے والے زندہ اور مردہ نومولود بچوں کو کپڑے میں لپیٹ کر یا شاپر میں ڈال کر کچرے کے ڈھیر پر پھینکنے کے واقعات آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں. ان بچوں کی اکثریت ان آوارہ کتوں کی غذا بن جاتی ہے.
محترم قارئین کرام،، ضلعی انتظامیہ کی آورہ کتے مار مہم کی کارکردگی رپورٹ آپ کے ساتھ شیئر کرنے سے قبل ایک عام مشاہدہ کی بات یہاں کوڈ کرنا چاہتا ہوں تاکہ انتظامیہ اس نقطے اور پہلو پر بھی مناسب دھیان دے کر کوئی پالیسی وضع کرسکے. لوگوں کو ذمہ داری کا کچھ احساس دلایا جا سکے.معاشرے کے بہت سارے ایسے مسائل ہوتے ہیں جنھیں تنہا انتظامیہ حل نہیں کر سکتی ان میں عوام کی شمولیت کامیابی کے لیے از حد ضروری ہوتی ہے. دیہاتوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ لوگ اپنے پالتو یا راکھی کتوں کے اضافی بچے خاص طور پر مادہ کو قریبی آبادی یا،اڈوں پر چھوڑ آتے ہیں.کیونکہ انسانوں کو مارنے والے ہمارے انسانی معاشرے میں ان کتوں کو مارنا گناہ سمجھا جاتا ہے. چھوڑے گئے یہ کتے چھپر ہوٹلوں اور قصائیوں کی دکانوں پر پلتے بڑھتے ہیں. اب رپورٹ اور مہم کے نتائج ملاحظہ فرمائیں.13اکتوبر سے لیکر30اکتوبر2020ء تک
بلدیاتی اداروں، محکمہ صحت اور پی ایچ ایف ایم سی کی مشترکہ 22ٹیموں نے ضلع بھر میں 3176آوارہ کتوں کو تلف کیاہے. ڈپٹی کمشنر کی ہدایت پر اسسٹنٹ کمشنرز، ایڈ منسٹریٹرز بلدیاتی اداروں کے افسران براہ راست اس مہم کی نگرانی کر رہے ہیں جبکہ آوارہ کتوں کی تلفی کے خلاف جاری مہم کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے تمام ٹیمیں تلف کئے جانے والے کتوں کی دم(ٹیل) متعلقہ ایڈمنسٹریٹرز کو جمع کرانے کے پابند ہیں.
محترم قارئین،، یقینا آپ میں سے بہت سارے لوگوں کے ذہن میں تلف کیے جانے والے کتوں کی دُم متعلقہ ایڈمنسٹریٹرز کو جمع کروانے بارے سوال اٹھ رہے ہوں گے. دراصل یہ پابندی کم چور، نکمے،لاپرواہی و غیر ذمہ دار، گھر بیٹھے محض فرضی فگرز اور فرضی رپورٹیں بنا کر جمع کروانے والوں کی ماضی کی مسلسل حرکتوں کی وجہ سے لگائی گئی ہے. جو کام کرنے کی بجائے صرف رپورٹیں بنا انہیں آفیسران کے پاس جمع کرکے کام چلاتے رہے ہیں. ان رویوں اور ایسی فرضی کارکردگی کی وجہ مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھ جاتے ہیں جو خرابی میں اضافے کے ساتھ ساتھ آفیسران کی بدنامی کا باعث بھی بنتے ہیں. انہیں مسئلے کے حل کے لیے پہلے سے بھی زیادہ فنڈز خرچ کرنے پڑتے ہیں حکمرانوں کی جھڑکیں اور عوام کے کرپٹ اور کرپشن کے طعنے سننے پڑتے ہیں.آخر میں ایک مشورہ اور تجویز بھی دینا چاہتا ہوں کہ جن ممالک میں حرام جانوروں کا گوشت عام کھایا جاتا ہے. جہاں مذہبی اور قانونی طور پر کوئی پابندی نہیں ہے. اگر یہ آوارہ کتے پکڑ کر ان ممالک کو برآمد کرنا ممکن اور فائدے مند ہو تواس پر ضرور غور کرنا چاہئیے. اس سے نہ صرف ہمارا مسئلہ حل ہوگا بلکہ بہت سارے لوگوں کے لیے ایک نیا روزگار بھی کھل جائے گا. لاہور کے عوام بکروں کی جگہ کتے اور کٹوں کی جگہ گدھے کھانے سے بھی بچ جائیں گے. لاہور کا ذکر میں نےصرف اس لیے کیا ہے کہ یہاں اس طرح کے درجنوں واقعات سامنے آئے ہیں.
………………………….
مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ