مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رولوں میں رُلتاشیخ زید اسپتال یا سیاسی اکھاڑا ؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

محترم قارئین کرام اس لیٹر کی کاپیاں ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان، ڈائریکٹر کالجز بہاول پور ڈویژن، متعلقہ پرنسپلز اور عوام الناس کو بھجوائی جا چکی ہیں

جام ایم ڈی گانگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محترم قارئین کرام،، شیخ زاید ہسپتال رحیم یار خان کو کسی کی نظر لگ گئی ہے یا کسی کی بددعا کی لپیٹ میں آ گئی ہے.ایسے سیاسی مافیاز نے جکڑ لیا ہے یا کرپٹ گدھوں کا شکار ہو چکی ہے. آخر کیا وجہ ہے کہ ہسپتال کے رولے ختم ہی نہیں ہوتے. ہسپتال کے معاملات بہتری کی بجائے وقت کے ساتھ ساتھ ابتر ہوتے جا رہے ہیں. ہسپتال میں علاج معالجہ اور خدمت کی جگہ سیاست بڑھتی جا رہی ہے. یہ کوئی انتظامی بد نظمی ہے یا پرائیویٹ ہسپتال مافیاز کی کوئی گہری اندرونی سازش ہے. جس نے ہسپتال کو لوت نامی جڑی بوٹی کی طرح بُری طرح اپنا لپیٹ میں لے لیا ہے. اس کا تقریبا نزلہ تو بے چارے غریب مریضوں پر ہی گرتا چلا آ رہا ہے. میں ہسپتال کے معاملے میں مزید کچھ کہنے سے پہلے آ پ کے ساتھ گذشتہ دنوں میں ہونے والی پریس کانفرنس کی مکمل تفصیل اور مختلف تنظیموں کے لیڈروں کے خیالات آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں. یہ ہسپتال کے صرف ایک فریق کا ورشن ہے. دوسرے فریق اور متاثرین کا نقطہ نظر بھی ہم سب کو سننا چاہئیے. غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنا ہوگا. سچ کا ساتھ دینا ہوگا تب جاکر حالات بہتر ہوں گے بصورت دیگر یہ دنگل جاری رہے گا. یوں متاثرین اور عوام کی پریشانیاں بڑھتی چلی جائیں گی.سنجیدہ سول سوسائٹی اور ضلع رحیم یار خان کی عوامی پارلیمنٹ کو بھی اپنا کردار سوچ سمجھ کر ادا کرنا ہوگا.اب لیجئے پریس کانفریس میں ہونے والی گفتگو ملاحظہ فرمائیں.
ہسپتال کی مختلف تنظیموں کے عہدیداروں جن میں چیئرمین گرینڈ ہیلتھ الائنس ڈاکٹر امجد علی،سینئر نائب صدر میڈیکل ٹیچنگ ایسوسی ایشن پروفیسر ڈاکٹر صلاح الدین عربی،جنرل سیکرٹری پروفیسر ڈاکٹر جمال انور ،چیئرمین ینگ کنسلٹنٹ ایسوسی ایشن ڈاکٹر معین اختر ملک،ینگ سرپرست ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن ڈاکٹر شبیر وڑائچ،صدر ڈاکٹر زنیر اعظم،ایپکا کے ضلعی صدر چوہدری محمد بوٹا عابد وغیرہ شامل تھے ان کا کہنا تھا کہ
ُ ُ ُ بورڈ آف منیجمنٹ شیخ زید میڈیکل کالج وہسپتال کے زیادہ تر ممبران نان ٹیکنیکل ہیں جو گورنمنٹ کے اداروں کے قانونی و انتظامی معاملات کی الف ب بھی نہیں جانتےاپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے گورنمنٹ کےاتنے بڑے اور اہم ادارے کی بورڈ آف منیجمینٹ کی پوسٹ پر براجمان ہیں۔
سابق ڈائریکٹر سیکیورٹی جو کہ اعزازی طور پر ڈائیریکٹر سیکیورٹی کی پوسٹ پرعارضی طور پر تعینات تھے انہوں نے کرپشن اور اقربا پروری کا بازار گرم کر رکھا تھا ماہانہ 2000 روپے فی سیکیورٹی گار ڈ جو کہ تقریباً 4 لاکھ بنتے ہیں غنڈہ ٹیکس اور منتھلی کی مد میں وصول کرتے تھے۔
جس کے خلاف سیکورٹی گارڈز نے انٹی کرپشن میں حلفیہ بیان بھی دیا ہے کہ ان کو ماہانہ تنخواہ 16500روپے دی جاتی تھی اور دستخط18500روپے پر کروائے جاتے یہ تمام رقم ڈائریکٹر سیکورٹی صاحب منتھلی کی مد میں وصول کرتے رہے ہیں یوں موصوف کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں تھا ۔ ڈائریکٹر سیکیورٹی کے خلاف باقاعدہ انکوائری ہونے کے بعد موصوف کو ذمہ دار ٹھہرایا گیااور ان سے سیکیورٹی ڈائریکٹر کی اعزازی پوسٹ واپس لی گئی
ایمرجنسی ڈائریکٹر ڈاکٹر علی رضا زیدی صاحب نے اپنی ذاتی مصروفیات کی وجہ سے ایمرجنسی ڈائریکٹر کی سیٹ سے استعفیٰ دے دیا اور ایمرجنسی ڈائریکٹر کی سیٹ بھی خالی ہو گئی
ڈائریکٹر سیکیورٹی اور ڈائریکٹرایمرجنسی کی ذمہ داریاں کس کو دی جائیں اس کے لیے ہسپتال و میڈیکل کالج کی اکیڈمک کونسل کا اہم اجلاس ہوا جس میں تمام تر ضروری پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد پروفیسر ڈاکٹر ظفر مجید کو ڈائریکٹرسیکیورٹی اور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹرسید آصف شاہ کو ڈائریکٹرایمرجنسی کی ذمہ داریاں دی گئیں ۔مندرجہ بالا صاحبان کی سیلیکشن اکیڈمک کونسل نے کی نہ کہ پرنسپل یا کسی اور فرد واحد نے۔مگر بورڈ آف منیجمنٹ کے ممبران اکیڈمک کونسل کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھنے پر تلے ہیں تعیش میں آگئے اور ان صاحبان سے ان کی ذمہ داریاں واپس لینے کی بچگانہ ضد پر اڑ گئے تا کہ ان محنتی اور قابل ترین افسران کو ہٹا کر جی حضوری کرنے والے نااہل افراد کو تعینات کروا کر ہسپتال اور میڈیکل کالج پر اپنی "حکومت” قائم کی جا سکے۔
چیئرمین گرینڈ ہیلتھ الائنس نے زور دے کر اور واضح کر کے کہا کہ ہسپتال اور میڈیکل کالج کے تمام تر انتظامی معاملات ایم ایس اور پرنسپل صاحب چلاتے ہیں جبکہ ادارے کا Over all headپرنسپل ہوتا ہے۔بورڈ کا کام صرف ادارے کے لیے فنڈ کا انتطام کرنا ہے۔بورڈ کے حضرات 2 یا 3 ماہ بعد صرف کچھ دیر کیلئے میٹنگ کی غرض سے تشریف لاتے ہیں جبکہ پرنسپل اور ایم ایس روزانہ 8 گھنٹے ڈیوتی دینے کے علاوہ ہر وقت ادارے کے انتظامی معاملات کی غرض سے موجود رہتے ہیں ۔
شیخ زید میڈیکل کالج جو کہ میڈیکل یونیورسٹی میں اپ گریڈ ہونے والا تھا بورڈ نے اپنی نااہلی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اسے ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے ایک سیاسی اکھاڑے میں تبدیل کر دیا ہے۔
بورڈ ملازمین کو کام نہیں کرنے دے رہا ان کو آئے روز نت نئے معاملات میں الجھا کے رکھتا ہے تا کہ ملازمین اور عوام تنگ رہیں اور یہ اسی اثنا میں اپنے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔
گذشتہ احتجاج جس میں 846 ملازمین کو جبری طور پر برطرف کرنے کی سازش کی گئی ۔یہ احتجاج 70 دن جاری رہا اور ملازمین کے ساتھ ساتھ غریب اور مجبور عوام نے بھی "انوکھے لاڈلے ” کی ضد کی سزا بھگتی ہے۔
ایڈھاک ملازمین جو کہ 385ہیں جو کہ عرصہ 15 سال سے SDAپر کام کرنے والے تمام ملازمین کو اچانک سے غیر قانونی طور پر SDAسے PLAپر شفٹ کر کے ملازمین کے خلاف کھلا اعلان جنگ کر دیا ہے۔جبکہ سابقہ احتجاج کے تناظر میں ملازمین کو صرف ایک ماہ کی تنخواہ دی گئی ہے جبکہ 3 ماہ کی تنخوا ہ ابھی بھی پینڈنگ ہے۔
آپ کو بتاتا چلوں کہ ادارے کے بورڈ کا بنیادی کام ادارے کے لیے فنڈ کا انتظام کرنا ہے ناکہ اس ادارے کے انتظامی معاملات میں دخل اندازی کرنا اور انتشار پھیلانا ہے۔میڈیکل کالج کی اکیڈمک کونسل جو کہ اس ادارے کی سپریم کونسل کا درجہ رکھتی ہے اور پروفیسرز ڈاکٹرز پر مشتمل ہو تی ہے جناب چئیرمین اس کونسل کے معاملات اور فیصلوں کو بھی اپنے حکم کے تابع کرنا اور جوتے کی نوک پر رکھنا چاھتے ہیں جو کہ کسی صورت بھی ممکن نہیں ۔ اگر بورڈ آف منیجمنٹ کا یہی رویہ رہا اور اوچھے ہتھکنڈوں سے بعض نہ آیا تو ہمیں ڈر ہے کہ ہمیں بہترین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار میڈیکل ٹیچنگ فیکلٹی ،ڈاکٹرز اور دیگر میڈیکل سٹاف سے ہاتھ نہ دھونا پڑ جائیں۔
ایک محترمہ جو بورڈ ممبر ہے ایک پرائیویٹ سکول چلاتی ہیں ان کو اتنے بڑے ادارے کے بورڈ کا ممبر بنا دیا گیا ہے اور وہ صرف اورصرف اپنے دیور کو اس ادارے کا ڈائریکٹر سیکیورٹی دیکھنا چاھتی ہے اور اس کی کرپشن پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ بھی یس باس کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔ پریس کانفرنس کے اختتام پر تمام عہدیداران نے مطالبہ کیا کہ ہسپتال اور میڈیکل کالج کے انتظامی معاملات میں بورڈ کی مداخلت فی الفور بند کرائی جائے۔اکیڈمک کونسل کے فیصلوں کو بحال رکھا جائے۔اکیڈمک کونسل کے فیصلوں پر سیاست نہ کی جائے۔846 ملازمین جن کو دو ماہ سے زائد احتجاج کرنے کے بعد صرف ایک ماہ کی تنخوہ دی گئی ہے بقایا جات فوری طور پر ادا کیے جائیں۔جو ملازمین عرصہ 15 سال
SDA سے کام کر رہے ہیں .جنکو پرغیر قانونی طور پر PLAسے شفٹ کیا گیا ہے فی الفور واپس SDA پر منتقل کیا جائے جبکہ گذشتہ ماہ فنانس کیبنٹ کمیٹی 492پنجاب نے بھی ان ایڈہاک ملازمین کو گورنمنٹ کےاءس ڈی اے فنڈ سے تنخواہیں دینے سے نہیں روکا۔
تمام ڈیلی ویجز ملازمین کی ایکسٹینشن کرکے بقایا جات فوری طور پر ادا کیے جائیں۔سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں تمام ڈیلی ویجز ملازمین کو مستقل کیا جائے۔
موجودہ بورڈ جو کہ نان ٹیکنیکل اور مفاد پرستی پر مشتمل ہے اس کو تحلیل کر کے نیا بورڈ تشکیل دیا جائے تا کہ ادارہ بہتر طور پر چلایا جا سکے ٗ ٗ ٗ
محترم قارئین کرام،، جب کسی معاشرے اور ملک میں قانون کی بالادستی، اداروں کے اصول و ضوابط کی پاسداری کا خیال اور لحاظ رکھنا ترک کر دیا جائے تو پھر حالات اس طرح کی شکل و صورت اختیار کرنے اور مزید بگڑنے لگتے ہیں.پریس کانفرنس کرنے والے لیڈرز سے میری گزارش ہے کہ وہ ناپاک عزائم والی بات کو کھول کر بیان کریں تاکہ عوام کو بھی پاک اور ناپاک عزائم کا فرق اور شکل سے آگاہی ہو سکے.جہاں تک ملازمین کو کم تنخواہیں دینے اور زیادہ وصولی پر دستخط کروانے کا معاملہ ہے. میں سرکاری ملازمین کے بارے میں کچھ نہیں کہ سکتا البتہ پرائیویٹ فرموں اور اداروں کے علاوہ ٹھیکیداری نظام میں یہ مرض عام اور خاصا پھیلا ہوا ہے. ملازمین کے اس استحصال کو کب کون اور کیسے روکے گا. اس کا انحصار خود ان ملازمین کی جرات اور سامنے آنے پر ہے.

ہسپتال کے ملازمین اور اہم پوسٹیں پر تعیناتیاں میرٹ پر پُر کرکے ہی فری سٹائل دنگل بند کروایا جا سکتا ہے.انصاف کرنے کے لیے اس بات کو دیکھنا بھی ازحد ضروری ہےکہ سیلیکشن اکیڈمک کونسل اور بورڈ آف منیجمنٹ میں سے کون ضابطوں اور قانون کی وائلیشن کر رہا ہے. ان میں سے کون دوسرے کے کام میں بے جامداخلت کر رہا ہے اور کیوں. مختلف تنظیموں کے مثبت اور منفی کردار کا جائزہ لینا بھی ضروری ہو گیا ہے.سیاستدانوں میں سے کون کون ہسپتال کے اندرونی معاملات میں ٹانگیں اڑا رہے ہیں.ان کے پس پردہ معاملات، عزائم و مقاصد کیا ہیں. یاد رکھیں زبانوں کو تالے لگانے کا دور گزر چکا ہے.میرے ضلع کا شیخ زاید ہسپتال و کالج جو تین صوبوں کے عوام کو طبی سہولیات فراہم کر رہا ہے. نوجوان ڈاکٹرز کی اس تربیت گاہ کا کالج سے ہیلتھ یونیورسٹی میں اپ گریٹ ہونا اس کا حق بنتا ہے. یہ علاقے، عوام اور وقت کی اشد ضرورت ہے.ہمیں مختلف رولوں میں رُلتی شیخ زاید ہسپتال کی فکر ہے جو آئے دنوں کسی نہ کسی گروہ کے احتجاج کی وجہ سے عوام کو طبی سہولیات کلی یا جزوی طور پر فراہم کرنے سے قاصر رہتی ہے. ہسپتال کو سیاسی اکھاڑہ بنانے والی سوچ کو بلاتفریق کچلا جائے. ایسے سازشی ہاتھوں کو سختی کے ساتھ روکا جائے.اس سے پہلے کہ لوگ یہ سوال پوچھنے لگیں کہ شیخ زاید ہستپال خدمت کا ادارہ ہے یا اکھاڑا ہے?

………………………….

مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

%d bloggers like this: