اپریل 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قوم کے غم میں ڈنر۔۔۔عفت حسن رضوی

گھبرا تو ہم اچھی طرح چکے ہیں، اب اس عالم بے بسی میں تھوڑا ہنس لیجیے۔ خود پہ ہنستے ہنستے پچھلے وقت جیسے تیسے کٹ گئے، یہ دن بھی گزر جائیں گے۔

عفت حسن رضوی

 

آپ ہم پاکستانیوں کی حس مزاح کافی اچھی ہے۔ یہ قوم ہر وقت  روتی دھوتی نہیں رہتی، شکوے شکایتیں تو کہاں نہیں چلتیں لیکن خوشی غمی ہر حال میں کھانا اور دوسرا پریشانیوں کو ہنسی میں اڑانا ہمیں خوب آتا ہے۔

اسی کی دہائی کے اواخر اور نوے کے عشرے میں کراچی آگ و خون کا زمانہ جی رہا تھا۔ لسانی، مذہبی، سیاسی فسادات اور گینگ وارز کا دور تھا، کرفیو آئے دن لگتے رہتے لیکن عمر شریف کراچی کے تھیٹر سے شگوفے چھوڑتے رہے۔

عمر شریف، معین اختر کے سٹیج ڈراموں کی ویڈیو ریکارڈ ہوتی اور یہ ویڈیو کیسٹ دس روپے یومیہ کرائے کے حساب سے پورے  حیدرآباد اور کراچی میں دستیاب ہوتی۔

جب کئی علاقے سیاست بازی کے باعث نوگو ایریا بن رہے تھے، کئی علاقے فوجی آپریشن کے بعد آفت زدہ تھے، جب گولیوں کی تڑتڑاہٹ معمول تھی ایسے میں گھر گھر عمر شریف اور ان کے ہم عصر مزاحیہ فن کاروں کی کوششوں سے ہنسی قہقہے گونجتے۔

پہلے ہمیں پی ٹی وی پر اسماعیل تارہ، زیبا شہناز، بشری انصاری، ماجد جہانگیر اور دیگر ہنساتے تھے، پھر عمر شریف، معین اختر، شکیل صدیقی، سکندر صنم اور روف لالا آئے۔ کراچی اور حیدرآباد کے تھیٹر پر جملے بازی ہوتی تھی تو یہاں پنجاب کے سٹیج امان اللہ، سہیل احمد اور دیگر ہم عصروں کی جگتوں سے کھل کھلاتے رہتے تھے۔

پہلے کامیڈین کی مزاحیہ اداکاری دیکھنے تھیٹر جانا پڑتا تھا۔ یہ طنز و مزاح کا شاہکار بڑی محنت سے بناتے تھے۔ سکرپٹ لکھے جاتے تھے اس میں کچھ پیروڈی گانوں کا تڑکہ لگتا تھا، اچھل کود جملے بازی سب کچھ مل ملا کر ایک ڈراما بنتا تھا۔ اب جدھر دیکھو ادھر تھیٹر لگا ہے۔

وزیر اعظم خان جو ماضی کے ایک یادگار دھرنے میں دوپٹہ سر پہ لے کر اپنے مخالفین کو چڑاتے تھے، ان دنوں سب سے زیادہ رش لے رہے ہیں۔ ’بچو! تم آو تو سہی‘ جیسے بےساختہ ڈائیلاگ کی عمدہ ڈلیوری سے کامیڈی کے شائقین میں خاصے پسند کیے جا رہے ہیں۔

بتائیں آج اگر  کوئی ’بڈھا گھر پہ ہے‘ جیسا ڈراما بنانا چاہے تو اسے کتنا سخت مقابلہ کرنا ہوگا۔ یہاں کیا کچھ نہیں چل رہا۔

نواز شریف بھی فوج کا سیاست میں کردار سنا کر اچھی لطیفے بازی کر رہے ہیں۔ انہیں بھی ہنسی تو آتی ہوگی جب وہ سیاست میں جنرلوں کی راہیں مسدود کرنے کا مطالبہ کرتے ہوں گے۔ البتہ زرداری صاحب کی کمی کوئی پوری نہیں کر سکتا، کامیڈی میں ٹائمنگ ہی تو سارا کھیل ہے اور وہ اس کھیل کے بادشاہ ہیں۔

بلاول کو فی الحال اس شعبے میں کافی محنت کی ضرورت ہے۔ ان کے پاس جگتوں کی پٹاری میں سندھ کی شاندار پرفارمنس اور جمہوری انقلاب کے لیے سوکھی روکھی دھمکیوں کے سوا کچھ نہیں۔ مذاق تو مریم نواز بھی خوب کر لیتی ہیں لیکن ان کے یہاں بھی ورائٹی کی شدید قلت ہے۔

شہباز گل، عامر لیاقت اور ان جیسی لاٹ کے دیگر سیاست دان مذاق سے زیادہ پھکڑ پن پہ ہاتھ صاف کر رہے ہیں اسی لیے ان کی پذیرائی انہی جیسے کر رہے ہیں ورنہ عوام کی حس مزاح کا ذائقہ ایسا بھی بدمزہ نہیں۔

مزاحیہ کردار کے علاوہ ایک ہوتی ہے سیچویشنل کامیڈی۔ یہ لفظوں کی بیہودہ تراکیب اور چھچھورپن کی محتاج نہیں۔ یہ بس ہوتی چلی جاتی ہے اور دیکھنے والے کرسی پہ اُکڑوں بیٹھے کبھی بے وقت قہقہہ لگاتے ہیں، کبھی سٹوری میں بےہنگم موڑ آئے تو سسپنس کے مزے لیتے ہیں۔

جیسے کے کراچی میں مریم اور ان کے میاں کیپٹن صفدر کے خلاف مقدمہ، مدعی پی ٹی آئی والوں کا اپنا لونڈا، آئی جی سندھ کا انکار پھر اغوا، کیپٹن کی گرفتاری پھر رہائی، سندھ پولیس کا  چھٹیوں بھرا احتجاج اور پھر قوم کے وسیع تر مفاد میں التوا۔ فرض کریں ایسے میں اگر عمر شریف کا مشہور سٹیج ڈراما ’چارلی ان کراچی‘ لگ جاتا تو بھلا اسے دیکھنے کون جاتا۔

روز ہی ملکی سیاسی پردے پر ایسا سین پلے ہو جاتا ہے کہ سوشل میڈیا کا تھیٹر رات گئے تک رش لیتا ہے۔ جیسے پہلے شاعروں پہ شعر کی آمد ہوتی تھی، یہ آمد اب ٹرولز پہ ہونے لگی ہے۔ ہم تو وہ قوم ہیں جس نے پاکستان بھارت کشیدگی کے دنوں میں بھی بھارتی تیس مار خاں ابھی نندن کی رج کے کِھلی اُڑائی تھی۔

کامیڈی کے اس سرکس میں یوں تو صحافت کے بھی کئی بڑے نام شامل ہیں لیکن ایک سابق اینکر جو اپنے عجب غضب انداز سے مشہور تھے ان دنوں خوب اضافہ فرما رہے ہیں۔ انہوں نے عوام کو ہنسانے کے لیے ہر حد تک جانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ چونکہ لافنگ سٹاک وہ گاہے بگاہے قسطوں میں جاری کرتے رہتے ہیں اس لیے ہم ان کی ٹوئٹس اور ویڈیو پیغامات کے اس سلسلے کو عصر حاضر کا ’بکرا قسطوں پہ‘ کہہ سکتے ہیں۔

اپنی ویڈیوز کے ذریعے گھر کے سبزے سے خوشخبریاں سنانا شروع  کی تھیں، یہ لاونج، لائبریری، لابی سے ہوتے ہوئے گھر کے کمرے تک آن پہنچے ہیں۔ خوشخبریوں کا یہ سلسلہ جاری ہے، نجانے اور کس مقام کا درشن ابھی باقی ہیں۔

ایک بندے کا یہ کہنا کہ میں ہی جمہوریت ہوں، ایک ادارے کا کہنا کہ ہم سیاست نہیں حفاظت کرتے ہیں اور ایک اور ادارے کا یہ کہتے رہنا ہے کہ ہم آئین کے مطابق فیصلے کرتے ہیں، یہ سب اپنے آپ پر ہی کسا جانے والا اک نفیس طنز نہیں تو اور کیا ہے۔

طنز کی بات نکلی ہے تو اکبر الہٰ آبادی کو سنتے جائیں۔

قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ

رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ

گھبرا تو ہم اچھی طرح چکے ہیں، اب اس عالم بے بسی میں تھوڑا ہنس لیجیے۔ خود پہ ہنستے ہنستے پچھلے وقت جیسے تیسے کٹ گئے، یہ دن بھی گزر جائیں گے۔

%d bloggers like this: