مارچ 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

خواجہ فرید کی سائنس اور کمیونٹی!۔۔۔ نعیم مسعود

گویا اولیاء کرام اور ان کا لٹریچر ایکوسسٹم کو توحید کی نظر سے دیکھتا ہے اور اسی تناظر میں معاشرے کو ایک کمیونٹی سنٹر کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے

نعیم مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمنا ہے کہ کوئی عام آدمی کی سائنس بھی سمجھے، اسے محض ووٹ پر ٹھپہ اور اشرافیہ کیلئے آداب بجا لانے والا ہی نہ سمجھا جائے۔ اس کا کام سرداریوں کے سامنے محض سر تسلیم خم رہنے والا ہی رہا تو ملت عالمی سرداروں کے سامنے بھی جھکی ہی رہے گی نہیں یقین آتا تو آپ انٹرنیشنل افیئرز کی سائنس اٹھا کر دیکھ لیں۔ یہ صداقت عامہ ہے کہ انسانی حقوق کی قدر انسانیت و انسانیات کی قدر بڑھاتی ہے، اسکلز کو تقویت ملے گی اور مین پاور کا مناسب استعمال عمل میں آئے تو تب جاکر معاشرے متوازن ایکوسسٹم میسر آتا ہے اور تبھی سماجیات و سیاسیات و معاشیات میں ترقی کے دریچے کھلتے ہیں۔ اس غریبی کی سائنس پر تحقیق پاکستان کی اہم ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں نا کوئی ملک غریب نہیں ہوتا سسٹم غریب ہوتا ہے۔ گویا سسٹم بھی ایک سائنس ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے سائنس کو چاہا ہی نہیں چاہنے والوں کی طرح! ہمارے عالم، فاضل اور ہماری سیاسی و بیوروکریٹک قیادت تاحال میٹرک کے اس مقام پر جامد ہیں کہ’’بچے نے سائنس لینی ہے کہ آرٹس؟‘‘ ارے بھئی یہ فزکس ،کیمسٹری یا بائیالوجی و ریاضی ہی سائنس نہیں یہ نفسیات و عمرانیات اور اسلامیات و معاشیات اور سیاسیات بھی سائنسز ہیں۔ ہم تو درست ترتیب کو بھی سائنس ہی گردانتے ہیں۔ اگر سوشل سائنٹسٹ اور سوشل انجینئر کمیونٹی کی درست بساط نہیں بچھائے گا اور متوازن معاشرے کی خشت اول نہیں رکھے گا تو نیچرل اور فزیکل سائنسز کی ابتدا و انتہا سوسائٹی کیلئے بناؤ بن ہی نہیں سکتی! سادہ سی بات یہ کہ دلیل کا پس منظر رکھنے اور کسوٹی قبول کرنے والا ہر مضمون سائنس ہے۔

پچھلے دنوں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں خواجہ غلام فرید سیمینار میں جب ماہر فریدیات کلچر، نفسیات، روحانیت، وحدت اور انسانیت پر گفتگو فرما رہے تھے تو میں بحیثیت طالب علم یہ سوچتا رہا کہ، خواجہ غلام فرید کا موضوع پورا ایکوسسٹم تھا جس کا محور و مرکز انسان اور رب تعالیٰ کا تعلق تھا۔ ایکوسسٹم سے مراد نباتات و حیوانات، موسم و زمین و آسمان ہیں۔ اس بزم میں دماغ یہ سوچنے لگا کہ جب انسانیات پر قحط الرجال کا غلبہ ہوجائے تو ندی نالوں کی طغیانیوں سے لے کر ریگستانوں کے ٹیلے تک تغیر برداشت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ پھر جب خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ، پروفیسر یوسف خشک، ڈاکٹر شہزاد قیصر اور ڈاکٹر جاوید حسان چانڈیو کی باتوں پر غور کیا تو ذہن و قلب غنیۃ الطالبین (حضرت عبدالقادر جیلانی) اور کشف المحجوب (حضرت علی ہجویری) کی جانب چلا گیا کہ کلیات فرید ہو یا متذکرہ تصانیف، قدم قدم پر بات توحید ہی کی ہے

گویا اولیاء کرام اور ان کا لٹریچر ایکوسسٹم کو توحید کی نظر سے دیکھتا ہے اور اسی تناظر میں معاشرے کو ایک کمیونٹی سنٹر کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ اصلاح، فلاح اور رفاہ ہی کیلئے تشبیہات و استعارات کی فراوانی کا استعمال کیا جو موسیقیت اور نغمگی کے سنگ سنگ رنگ و بو کو بھی جنم دیتے ہیں۔ ان کے شوق سے جو ذوق کی پیدائش ہوئی اور اس ذوق سے پھر جس عشق نے جنم لیا اس میں اللہ ہی اللہ ہے۔ جو کمیونٹی حقوق اللہ سمجھ گئی وہ حقوق العباد کیسے فراموش کرسکتی ہے۔ میری طالب علمی کو وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کی بزم سے جو سمجھ آئی اس کے حوالے سے اقبال نے کہا تھا کہ

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

قارئین کرام! یونیورسٹیوں کا بھی جو ماڈرن ماڈل ہے اس میں یونیورسٹی بھی تو ایک کمیونٹی سنٹر ہے جو انڈسٹریل لنک، انٹرپرنیورشپ، اپلائیڈ ریسرچ اور اسٹیک ہولڈرز کی نگہبانی کا فریضہ سرانجام دے۔ یہی مارکنگ گلوبل ٹرینڈز ہیں۔ جب کوئی یونیورسٹی کلچر، فنون لطیفہ، تہذیب، لینگویجز، تحقیق اور سوسائٹی کو ساتھ لیکر چلتی ہے اس کا مطلب ہے وہ نوجوانوں کو معاشرہ اور اس کے چیلنجز کو سمجھانے اور لنک کرنے کی لیبارٹری ہے جو جینؤئن قائدین و عمائدین کے امن، ترقی، توحید و رسالت اور اجتہاد و تحقیق کے پیغام دے ہم رنگ کرنے میں کوشاں ہے۔ جس نوجوان نسل کے ہاتھ میں تہذیب و تمدن کا علم اور تحقیق کا عزم ہو وہی قوم کا مستقبل ہے۔ عہد حاضر میں الائیڈ ہیلتھ سائنسز ہوں یا انجینئرنگ وغیرہ ہر ایک میں اخلاقیات اور رویہ کا مضمون پڑھایا جاتا ہے مگر انسان یہ مضمون سیکھتا اپنے کلچر اور عمائدین ہی سے ہے۔ اولیاء اور مفکرین کا امن، انسانی حقوق کا درس اور توحید کے اسباق اقوام اور انسانیت کی فلاح کے گرد گھومتے ہیں۔ خواجہ فرید سیمینار بلاشبہ نوجوانانِ جامعہ اور اساتذہ کی امن پسندی و تحقیق اور توحید پرستی و انسان دوستی کی بیٹری چارج و ری چارج کرنے کا ایک سائنٹفک طریقہ تھا۔

راقم نے اس بزم میں گزارش کی کہ خواجہ فرید نے سرائیکی شاعری کو معراج تک پہنچایا اور کافی کی صنف میں ان کا کوئی ثانی نہیں، علاوہ بریں تاریخ فرید ، کافی اور نظریات کو محدود نہیں کیا جاسکتا، یہ وہ خوشبو اور آواز ہے جسے سرحدوں میں مقید رکھنا ممکن نہیں اور گلوبل ویلج کا تقاضا ہے۔ جامعہ اسلامیہ تابش الوری اور راول کوریجہ جیسے محققین سے ان کی کافیوں کا انگریزی، فارسی، اردو، پشتو ، بلوچی، سندھی اور ہندی میں نثر یا منظوم ترجمہ کا اہتمام کرے۔ یہ جو 22 سال بعد خواجہ فرید چیئر کو فعال کیا جارہا ہے اس سے کافی اور دیگر کلام کو عالمگیریت کے فریم میں لاکر ہی خواجہ فرید چئر کا فرض ادا ہوگا۔ دیگر جامعات اس سے استفادہ کریں تاہم وزارت ہائر ایجوکیشن اور وزارت ثقافت و کلچر کو بھی ہر صوبے میں مختلف ماہرین و عمائدین کی تعلیمات کو تقویت بخشیں اس سے ریسرچ ، سوشل سائنسز، امن ،حقوق انسانی، مکالمہ اور جہموریت کو لیبارٹریز میسر آئیں گی سو یہ مہاریں موڑنا درکار ہے ۔ اس سائنس میں ایک جہاں آباد ہے ،کوئی اجارہ داری نہیں !

دلڑی لٹی تئیں یار سجن

کدیں موڑ مہاراں تے آ وطن

%d bloggers like this: