مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راجن پور کی خبریں

راجن پورسے نامہ نگاروں اور نمائندگان کے مراسلوں پر مبنی خبریں،تبصرے اور تجزیے۔

جام پور

( آفتاب نواز مستوئی )

ڈپٹی کمشنر راجن پور ذوالفقار علی نے کہا ہے کہ ضلع بھر کے لوگوں کی بلا امتیاز خدمت کرنا اور ان کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنا میرا شعار ہے۔

لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جائیں اور اس ضمن میں سرکاری مشینری کو استعمال میں لایا جائے۔

یہ باتیں انہوں نے آج یہاں اپنے دفتر میں مختلف سائلین کے مسائل حل کرنے کے موقع پر کہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ

وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان خان بزدار کی ہدایات پر اوپن ڈور پالیسی کے تحت مجھ سمیت ضلع بھر کے تمام افسران کے دفاتر سائلین کے لیے ہر وقت کھلے ہیں۔

سائلین کی شکایات اور مسائل حل نہ کرنے والے افسران اپناقبلہ درست کر لیں نہیں تو ان کے خلاف تادیبی کاروائی عمل میں لائی جائے گی


حاجی پورشریف

( ملک خلیل الرحمن واسنی)

ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے تحفظ اور فتنہ قادیانیت کے خاتمے کے لیئے نوجوان فلاحی اتحاد کا قیام، باضابطہ جنرل باڈی تشکیل دے دی گئی،

اسموقع پر مہمان خصوصی سوشل سروسز گروپ کے صدر ندیم چوہدری نے ذمہ داریوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ

سرپرست اعلی مسعود خان چانگ ،چیئرمین صاحبزادہ یوسف فرید،وائس چیئرمین ملک نوید بلہوڑا،صدرچودھری محمودعالم ،

سینئر نائب صدر شاہد عدیل مٹھا،نائب صدرعصمت اللہ ہوڑا،جنرل سیکرٹری یاسین خان واسوانی،جوائنٹ سیکرٹری رانا رضوان فنانس سیکرٹری وقار عظیم سہرانی سیکرٹری اطلاعات و نشریات ملک شفیق کلہوڑا کو درج بالا ذمہ داریاں سونپی گئیں ہیں

اس موقع پر ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم اجمعین کے تحفظ اور فتنہ قادیانیت کے خاتمے کے لیئے ہر حد تک جانے کے عزم کااظہارکیا گیا

اور دعا کی گئی کہ

اللہ پاک ہمیں اس نیک کام میں استقامت عطا فرمائے اور تمام نوجوانوں کوآپس میں اتفاق و اتحاد،ملک و قوم کی خدمت اپنے علاقے اور وسیب کی

محرومیوں کے خاتمے اور اس نیک مقصد کی خاطر مصروف عمل رہنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)


تبدیلی سرکار اور غریب کسان کی حالت زار

تحریر : ملک خلیل الرحمن واسنی
حاجی پورشریف تحصیل جام پور ضلع راجن پور پنجاب پاکستان

ملک پاکستان خطہ جنت نظیرقدرتی وسائل سے مالامال ملک ہےسرسبز جنگلات، معدنی پہاڑ،کھیت کھلیان اور آبی وسائل اس کی معیشت کا اہم ترین حصہ ہیں

زراعت کو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کامقام حاصل ہےگویا زراعت مٹی میں فصلیں اگانے اور مویشی پالنے کا فن اور سائنس ہے بلکہ زراعت

اور اس سے متعلقہ پیشے محض روزگار ہی نہیں بلکہ ایک بھر پور طرززندگی ہیں اور زراعت دنیا کے قدیم ترین پیشوں میں سے ایک ہے کیونکہ انسان کی اس دنیائے فانی

میں آمد کیساتھ زراعت کا آغاز ہوا اور سیدناحضرت آدم علیہ الصلواتہ والسلام نے سب سے پہلے زراعت کا پیشہ اختیار فرمایا

اور زراعت کا پیشہ اس لحاظ سے معتبر اور مقدس ہے کہ انبیائے کرام علیہ السلام اجمعین اس پیشے سے منسلک رہے ہیں

اور اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ پوری دنیائے کائنات اس سے مستفید ہوتی ہے،ایک غریب کسان دن رات ایک کر کے محنت و مشقت اور مصیبتیں جھیل کر جو فصل اگاتا ہے

وہ خود تو کم مگر پورا معاشرہ اس سے زیادہ فاعدہ حاصل کرتا ہے اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ زراعت کا شعبہ نہ صرف بنیادی عوامی ضرورتیں پورا کرتا ہے

بلکہ تمام تر شعبہ ہائے زندگی کے مختلف شعبوں میں عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنے کیساتھ ساتھ صنعتوں اور ملکی معیشت کی ترقی و بحالی میں اہم ترین کردار ادا کرنے

کیساتھ ساتھ صنعتوں کو خام مال کی فراہمی میں اولیت رکھتا ہے،پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے اسکی 70 فیصد سے زائد آبادی زراعت سے منسلک ہے

مگر بدقسمتی سے ایک محتاط اندازے کیمطابق قابل کاشت رقبہ پاکستان کے کل رقبے کا 30 فیصد ہے ملک کی مجموعی قومی پیداوار زراعت کا حصہ 20 سے 25 فیصد ہے

جبکہ پاکستان کا موسم زراعت کے لیئے موزوں اور سازگار ہے،پاکستان کا نہری نظام دنیا کے بہترین نظاموں میں سےایک ہےپاکستان میں اگنے والی زرعی اجناس،

پھلوں اور سبزیوں کی فصلیں ملکی و بین الاقوامی منڈیوں میں خاص اہمیت کی حامل ہیں لیکن بدقسمتی کہیں یا وسائل کی غلط تقسیم ،

سرمایہ دارانہ نظام معیشت یا ناقص حکمت عملیوں اور غلط پالیسیوں کے سبب زراعت کا شعبہ ناصرف زوال پذیرہے بلکہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ

اپنی ضرورت کے لئے زرعی اجناس برآمد کرنی پڑ رہی ہیں اور آٹا جو کہ ایک اہم ترین بنیادی ضرورت ہے

لائنوں میں لگ کروہ بھی ملاوٹ شدہ ناقص اور غیر معیاری قسم کامہنگے داموں لینے پر مجبورہیں اسکی قیمت میں ہوشربا اضافہ متعلقہ اداروں کی کارکردگی پر

سوالیہ نشان ہے جوکہ برسر اقتدار،سابقہ و موجودہ حکومتی مشینری اداروں وافسران و حکام کے لئے لمحہ فکریہ ہے

اورآج تبدیلی سرکار کی حکومت ہے جو بلند بانگ دعووے وعدے کرتے تھکتے نہیں تھے مگراس کے باوجود ملکی زرعی شعبے کی ترقی کی رفتار انتہائی سست ہے

جن میں اہم ترین اور فوری توجہ طلب مسئلہ کسانوں، کاشتکاروں،غریب زمینداروں کے بنیادی مسائل ہیں،

محکمہ توسیع زراعت کے باوجود کسانوں کو مافیاز کے سبب صحیح مشورہ نہیں مل پاتا کمیشن مافیا کے چکر کے سبب دونمبر بیج،

کھاد سپرے،دور جدید کےزرعی آلات، بروقت فصلوں کی سیرابی کے لئے پانی کی فراہمی پیڑول،

ڈیزل کی قیمتیں،سولر سسٹم کےباوجود زیر زمین پانی کڑوا اور فصلوں اور زمین کے لئے نقصان دہ ہوناتو المیہ ہے

ہی رہی سہی کسر اجناس کی انتہائی کم قیمت خرید اور حکومتی اداروں کیطرف سے عدم سہولیات کا رونا اپنی جگہ غریب مجبور کسان اپنے روزمرہ کے اخراجات ہی پورے نہیں کرپاتا اوپر سے آڑھتی حضرات فصل کی بوائی سے

قبل ہی بیجوں،کھاد سپرے کی فراہمی کے عوض فصلوں کا سودا طےکر لیتے ہیں اور یوں غریب کسان،

کاشتکار کی خون پسینے کی مہینوں کی کمائی چند لمحوں میں آڑھتیوں، ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کی جیبوں میں چلی جاتی ہے

اور جب فصل بالکل پکنےاور تیاری کے آخری مراحل میں ہوتی ہے تو سرمایہ دار،ذخیرہ اندوز اور بلیک مارکیٹنگ کرنےوالا مافیاعین انہی ایام میں کھاد اور زرعی ادویات کی مصنوعی قلت پیدا کردیتا ہے

جسکے سبب دو نمبر زرعی جعلی ادویات متبادل کے طورپر مارکیٹ میں متعارف کرادی جاتی ہیں

اورمجبور و لاچار بے بس غریب کسان کاشتکار غربت کے ہاتھوں مجبورمرتاکیا نہ کرتا لینے پر مجبور ہوجاتا ہے

اور مصنوعی قلت پیدا کر کے وہی کھادسپرے پھر مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہے نہروں میں پانی بند کردیا جاتا ہے

اور یوں انسان اور جاندار پانی تک کو ترس جاتے ہیں اور یوں سرائیکی ضرب المثل کے مطابق تیڈا پئے مرے نہ مرے ساڈے پنج کھرے کسان بیچارا لٹ جاتا ہے

جسکا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا کیونکہ دونمبر بیج اور جعلی ادویات کھاد سپرے بااثر طبقہ کی پشت پناہی میں تیار ہوتی ہیں

محکمہ زراعت بھی کمیشن کےچکر میں طوطاچشمی اختیار کر لیتا ہے اور مجبور وبے بس کسان محکمہ زراعت اور اسکے افسران و اہلکاروں کے علامتی جنازے نکال کر

انکے نماز جنازہ پڑھ کر اپنا غصہ کم کر لیتا ہے اور یوں فصل تیار ہونے پررات دن ایک کر کے محنت ومشقت کرنے اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ اپنی راتوں کی نیند حرام کر کے

اپنا سکھ قربان کر کے خدا خدا کر کے برائے نام آمدنی کا حصہ اپنے نام کر کے اور بڑا حصہ سرمایہ دار،

جاگیر دار،سودخوروں بغیر محنت کے کروڑوں اربوں پتی بننے والے فیکٹری، مل مالکان کی جیب میں ڈال کر فصلات کا نقصان اور قرضکی ادائیگی کی صورت میں

اپنی بچیوں کےجہیز کے زیور یا اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر پائی پائی جوڑکر جمع پونچی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے.

اورسب سے بڑھ کرظلم دور جدید میں جہاں دنیا نت نئے تجربات ، آلات اور طریقے اختیار کر کے پیداواری صلاحیتیوں میں بے پناہ اضافہ کر رہی ہیں

وہاں ہمارے سادہ لوح کم پڑھے لکھے کسان ، کاشتکار،دونمبر بیج،کھاد،سپرےوزرعی ادویات مافیا کے سستےکے چکر میں ہتھے چڑھ کر اورپرانے دور کے روایتی طریقوں پر

انحصار کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جس سےفصلوں میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوتا دونمبر بیج ،

کھاد سپرے کیساتھ ساتھ مناسب اور بروقت زرعی مشورے اور حکومتی سرپرستی نہ ہونے ،جدید سہولیات،تحقیق ، دور جدید کی ماڈرن ٹیکنالوجی تک مکمل رسائی نہ ہونیکے

سبب فی ایکڑ پیداوار بہت کم ہے.عصر حاضر کے جدید تقاضوں کیمطابق ہر حکومت صرف زبانی جمع خرچ یا اعلانات کی حد تک حکمت عملیوں اور پالیسیوں کا اعلان توکرتی ہے مگر ایک عام چھوٹے غریب کسان کاشتکار تک اسکے ثمرات نہیں پہنچ پاتے

کیونکہ ایک عام اندازے کیمطابق 85فیصد کسان ایسے ہیں جن کے پاس ساڑھے بارہ ایکڑ یا اس سے بھی کم رقبہ ہے

جس سے اجتماعی طور پر ملکی پیداوار متاثر ہوتی ہے اور غریب کسان اگلی فصل کی بوائی کے چکر میں اپنی اور اپنے جانوروں کی حصے کی خوراک بھی اونے پونے داموں

بیچنےپر مجبور ہوجاتا ہے اوربوقت ضرورت ذخیرہ اندوز،ناجائز منافع خوراور صنعت کار سے مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہوجاتا ہے.

اسکے برعکس دنیا کے دیگر ممالک میں زراعت جیسے اہم ترین شعبے کی ترقی کیلیئے ہر ممکن طور پراقدامات اٹھائے جاتے ہیں

چھوٹے اور غریب کسانوں ، کاشتکاروں ، زمینداروں کو سہولیات فراہم کیجاتی ہے نقصان کیصورت میں اذالہ کیاجاتا ہے

مگر یہاں اسموقع پر ہر طرف سے حکومتی ادارے ہو یادیگر لوگ گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو کا عملی مظاہرہ پیش کرتے ہوئے کیئے کرائے پربھی پانی پھیر دیتے ہیں.

حالانکہ بہترین نہری نظام اور بارشوں کی کثرت کے باوجود کسانوں کو مطلوبہ پانی کی مقدار میسر نہیں ہوپاتی بروقت نہروں کی بھل صفائی اسکے کمزور پشتوں کی مضبوطی نہیں ہوپاتی

یابااثرطبقہ اپنے ناجائز اثرورسوخ کے سبب پانی روک لیتا ہے اور غریب کسان اپنے مقدرکالکھا سمجھ کر خاموشی کو عافیت سمجھتے ہیں

یا اپنا حق لینے کی خاطر بات کرتے ہیں تو معاملات کورٹ کچہری تک جاپہنچتے ہیں جہاں بااثر سیاستدان،

وڈیرے جاگیردار سرمایہ دار، تمن داراپنی فرعونیت اور دولت کے گھمنڈ میں غریب و مجبور کسانوں کو مزید ذلیل و رسوا کر نے کے درپے ہوجاتے ہیں.

حالانکہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک ہر دور اقتدار میں چاہے وہ جمہوری دور حکومت ہو یا آمریت ہو پانی کوذخیرہ کرنے اورنئے چھوٹے بڑے ڈیمزبنانےپر اتفاق رائے ہموار کیجاتی رہی ہے

اور فنڈز مختص کیئے جاتے ہیں لاکھوں کروڑوں روپے فائلوں کی تو نذر تو ہوجاتے ہیں مگر حاصل وصول کچھ نہیں ہوپاتا

جس کی واضح ترین مثال کوہ سیلمان کے دامن میں کاہ اور چھاچھڑ کے مقام پرسابق صدرمرحوم فاروق لغاری کے دور حکومت سے مڑنج ڈیم کی تعمیر سنتے آئے ہیں

جو برسوں گزرنے کے باوجود تاحال خواب ہے ……؟ اور یہی

لغاری،مزاری،کھوسہ،دریشک،گورچانی برسوں سے اقتدار بااختیار کا بلا شرکت غیرے باپ دادا سے اور آج تک انکی اولادیں حصہ بنتے آرہی ہیں

اور مستقبل قریب میں بچوں کے بچے بھی میدان سیاست میں قدم رکھیں گے مجال ہے کہ اس طرف بھی کوئی توجہ ہوں اوربے رحم آسمانی آفتوں اور بارشوں کے سبب جانی و مالی نقصان اور فصلات کی تباہی و بربادی کرنے والے ظالم و بے رحم سیلابی ریلوں سے

بچائو اور اس پانی کوذخیرہ کرنے کا کوئی انتظام …..؟ اور سونے پہ سہاگہ تونسہ بیراج سے نکلنے والی دریانما کچھی کینال جو کہ بلوچستان کو سرسبزوشاداب کرنے کے لیئے

نکالی گئی کرپشن کی اندھیر نگری کی نظر ہوکر رہ گئی اس سے بھی پنجاب کو ایک بوندپانی میسر نہ ہو سکا اورڈی جی کینال جوکہ سینکڑوں کلومیٹر پر محیط ہے

اورلاکھوں ایکٹر اراضی کی سیرابی اور لاکھوں جانداروں کو پینے کا پانی مہیاء کرتی ہے وہ بھی کئی مرتبہ وزیر آبپاشی ضلع راجن پور اور ڈی جی خان ڈویژن سےہونےکے باوجود سالانہ نہ ہوسکی اور اسکی درجنوں لنک کینالز اور سینکڑوں چھوٹی نہریں کیسے

سال بھر پانی فراہم کرسکتی ہیں کیونکہ اس میں بھی پانی کی فراہمی کےلیئے کئی قربانیاں، کمشنر آفس اور محکمہ انہار ڈی جی خان راجنپور کے دفتروں کے سامنے دھرنے دینے پڑتے ہیں

پیدل لانگ مارچ کرنے پڑتے ہیں تونسہ بیراج پر احتجاج ریکارڈ کرانے پڑتے ہیں تب جا کے ان میں پانی چلتا ہے

مگر وہ بھی اس صورت میں کہ پانی کی فراہمی کاشیڈول تخت لہور ،لاہور سے جاری کرتا ہے. اب جبکہ وزیر اعلی پنجاب، ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی، وفاقی وزیر ماحولیات،وفاقی وزیر انسانی حقوق،منسٹر ایریگیشن،

منسٹر لائیو سٹاک،چیئر مین لینڈ ریکارڈاتھارٹی،چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی برائے لوکل گورنمنٹ،چیئر مین ٹاسک فورس ڈونر انگیجمنٹ،ممبر پبلک اکائونٹس کمیٹی ،

مشیر وزیر اعلی پنجاب اورنامعلوم کتنے بڑے بڑے عہدوں پر ضلع راجن پور اور ڈی جی خان ڈویژن کے عوامی نمائندے براجمان ہیں

اگر آج بھی اپنی ماں دھرتی سے اپنے وسیب سےاپنے علاقے کے غریب عوام کے لیئے چھوٹے غریب کسان کاشتکار،

زمیندار کے لیئے کچھ نہیں کرسکتے تو قیامت تک کچھ نہیں ہوسکتا اور شاید آنیوالے نسلیں انہیں میر جعفر اور میرصادق کے القابات سے نوازیں گی

کیونکہ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر توانکی طرف سے سب کچھ ممکن ہوسکتا ہے مگر اجتماعی مفاد کے لیئے نامعلوم کیا چیزیں روکاوٹ آجاتی ہیں یا پھر میں یہ کہنے میں

حق بجانب ہوں کہ اللہ تبارک وتعالی نے بھلائی کے یہ اقدامات انکے مقدر میں نہیں

لکھے……………….. ؟

کیونکہ پنجاب بھر خاص طور پر جنوبی پنجاب وڈی جی خان ڈویژن میں دونمبر زرعی ادویات بیج وکھادوسپرے کا کاروبار کرنے والےانکے پشت پناہ،

آلہ کار،سہولت کار ، مددگار کمیشن مافیا محکمہ زراعت کی آنکھوں پر پٹی باندھنے والے اور دھول جھونکنے والے بااثر طبقہ اور سیاسی وابستگیاں رکھنے والے

اس پیسٹی سائیڈ بزنس کرنے والےکو ترقی کرتےدیکھاہے مگر رات کے اندھیرے میں فصلوں کو پانی لگاتے،سانپ لتاڑتے،

چادر و دیواری کے تقدس کی پامالی سےبے خبر اپنے بہتر مستقبل کو قربان کرتےاپنی گھبرو جوان مستقبل کے سہارے کو ضائع ہوتے دیکھنے والے کسان کو ترقی کرتے نہیں دیکھا

جسے بدقسمتی سے آج بھی دور جدید کی عالمی معیار کی روزمرہ انسانی زندگی کی بنیادی سہولیات تک میسر نہیں ہاں البتہ بطور احتجاج محکمہ زراعت اور اسکےافسران اور

اہلکاروں کے علامتی جنازے پڑھتے ضرور دیکھا ہے گلابی سنڈی ہو یاسفید مکھی،سبز تیلا ہو یا ٹڈی دل فصلوں کی تباہی ہو یا خشک سالی غریب کسان کو ہی رلتے دیکھا ہے

لیکن اگر حکومت وقت زرعی ایمرجنسی نافذ کر کے غریب کسان کی بحالی نقصان کے ازالے اور دکھ درد کا مداوا بن کر فصلوں کی آسان انشورنس،

بلا سود آسان اقساط پر شفافیت اورمیرٹ پر قرض حسنہ کا اجراء جو کہ سیاسی مفادات سے ہٹ کر جذبہ حب الوطنی نیک نیتی مخلوق خدا کی حقیقی معنوں میں خدمت کے جذبے کیساتھ اقدامات اٹھائے،

گھر کی دہلیز پر منڈیوں کا قیام،فصل پکنے پر بہترین اور معقول قیمت خرید ہو ،مویشی پال حضرات کے لئے خصوصی سہولیات و مراعات ہو

محکمہ لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ کیطرف سے ہر نیبرہڈ ، ویلیج کونسل میں ویٹرنری ڈسپنسری،

ماہر عملہ،ٹائون کمیٹی کی سطح پر ویٹرنری ہسپتال جہاں دور جدید اور عصر حاضر کے تقاضوں کیمطابق سہولیات ،سٹاف میسر ہوں،

پرائیویٹ بنکوں کیطرف سے گھر کی دہلیز پر آسان شرائط پر بلاسود قرض حسنہ کی سہولت میسر ہو،نیشنل رورل سپورٹ پروگرام،

پنجاب رورل سپورٹ پروگرام، اور دیگر این جی اوز کے شراکتی اداروں کیطرف سے کسانوں ، کاشتکاروں،

زمینداروں کو جدید کاشت کاری اور مویشی پالنے اور مختلف فصلات کو اگانے پر آگاہی مفت مشورہ جات،

ورکشاپس ، کھیت سکول ، کمیونٹی سنٹرز کا قیام ، خوراک کو ذخیرہ کرنے کے جدید طریقہ کار اور گودامز کاقیام منڈیوں تک کسانوں ، کاشتکاروں،

چھوٹے زمینداروں کی آسان و سہل رسائی ممکن ہو تو کچھ بعید نہیں کہ ارض پاک کا کوئی ٹکڑا لہلہاتی اور ہری بھری فصلوں سے آباد نہ ہو،

نہ غربت و مہنگائی کے ڈیرے ہوں نہ افلاس کے سائے ہوں ہر طرف فراوانی ہی فراوانی ہو ،ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہوسستی منڈیاں کھیتوں اور کھلیانوں سے منڈی تک آسان

سہل اور چند منٹوں کی دوری کے فاصلے ہوں امن و محبت بھائی چارےاور باہمی رواداری کے شادیانے ہوں اوراپنے پیارے اللہ رب العاللین اور

اسکے پیارے حبیب کریم روف الرحیم رحمت اللعالمین ختم الانبیاء والمرسلین سیدنا محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و اصحابہ وسلم اجمعین کی بارگاہ میں شکر و عجز وانکساری کے شکرانے ہوں اور نہ ہی

سکندرخان کورائی کودھرنےدینےپڑیں گے اورنہ ہی کسان اتحاد والے ہر حکومت وقت کو خواب غفلت سے جگاتے رہیں گے

کیونکہ ایک مشہور سرائیکی ضرب المثل ہے ” نہ سنڑڑ جونگے نہ پھرڑ جونگے ” اور بدقسمتی سے غریب کسان کی آج یہی صورتحال ہے

اسکی کہیں شنوائی نہیں ہے اسکے زخموں پر مرہم رکھنے والا کوئی نہیں ہے یوں تو درجنو ں محکمے بھی ہیں ڈویلپمنٹ اتھارٹیز بھی ہیں

حکومتی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والے نمائندے بھی ہیں

مگر غریب و مجبور بے بس و لاچار کسان کی حالت زار سب کے سامنے ہے………… ؟ لیکن وہ رب یہ سب ضرور دیکھ رہا ہے

جو سب سےبہتر دیکھنے والا ہے،وہ سب سن رہا ہے جو بہتر سننے والاہے،وہ سب بہتر کرنے والا ہے وہ ضرور ان شاء اللہ بہتری کرے گا

مگر جو حاکم وقت ہے اپنی عوام کی خاص کر معیشت کے پہیئے کو رواں رکھنے والے کسان کی حالت زار کو بہتر کرنے کی ذمہ داری اسکی ہے

اگر خدانخواستہ وہ حاکم وقت چاہے وہ چھوٹا سا اہلکار ہو یا وزیرہو یا مشیر ہو وزیر اعلی ہو یا وزیر اعظم ہو یا صدرہو یا نظام عدل کا سربراہ ہو

اپنی یہ ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہا تو وہ پھر اپنی دنیا و آخرت کا خود ذمہ دار ہوگا کیونکہ اس کن فیکون رب تعالی پاک پروردیگار کے

ہاں دیر ضرور ہے مگر اندھیر نہیں کیونکہ وہ بے نوائوں اور بے آسرائوں کا سب سے بڑا سہارا ہے……………………..

ملک خلیل الرحمن واسنی حاجی پورشریف 03316014788

%d bloggers like this: