مئی 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نوابزادہ نصر اللہ خان کی برسی خاموشی سے گزر گئی ۔۔۔ظہور دھریجہ

قیام پاکستان کے بعد 1952 ء میں نواب زادہ نصر اللہ خان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ملکی سیاست میں نوابزادہ نصر اللہ خان بہت بڑا نام ہے۔ 27 ستمبرانکی برسی کا دن خاموشی سے گزر گیا ۔ مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے صدر منتخب ہوئے تو مجھے یاد آیا کہ حکومت مخالف تحریک کے لئے اب تک نواب زادہ نصر اللہ خان سے بہتر کوئی نام سامنے نہیں آ سکا ۔ آج ہم ان کو یاد کرتے ہیں ان کے سیاسی پس منظر کو دیکھتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے 23 مارچ 1940 ء کو قرارداد پاکستان کے جلسے میں شرکت کی اور آزادی کیلئے عملی جدوجہد کی ۔

یہ ٹھیک ہے کہ ان کے بزرگ اللہ داد خان انگریز دور میں اعلیٰ انتظامی آفیسر تھے ، ان کو انگریزوں سے مراعات بھی ملیں ، 1885 ء میں ان کے انتقال کے بعد نوابزادہ نصر اللہ کے والد نواب سیف اللہ خان اعزازی اسسٹنٹ کمشنر بنے ، ان کو مجسٹریٹ کے اختیارات بھی حاصل تھے اور 1894ء میں انگریزوں سے ان کو خان بہادر اور پھر 1910ء کو نواب کا خطاب ملا ۔ اس کے ساتھ مراعات اور جاگیریں بھی عطا ہوئیں ۔ نواب زادہ نصر اللہ خان 13 نومبر1918 ء میںپیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم آپ نے آبائی قصبہ خان گڑھ میں حاصل کی ۔ گلستان بوستان اور مثنوی شریف کے اسباق مقامی علماء سے پڑھے ۔ بعد میں ایچ ای سن کالج لاہور میں داخل ہوئے ۔ 1937 ء میں ملتان کے نواب خاں خاکوانی خاندان میں شادی ہوئی ۔ نوابزادہ نصر اللہ خان نے بچپن سے ہی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا ۔

1930 ء سے 2003ء یعنی نوعمری سے لے کر وفات تک انہوں نے طویل سیاسی سفر کیا ۔ وہ ہر فوجی آمر سے ٹکرائے ، اس لئے ان کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں ، موصوف اٹک ، کوٹ لکھپت، بہاولپور، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی ، میانوالی اور مچھ جیل میں یکے بعد دیگرے 17 سال قید رہے ۔ نواب زادہ نصر اللہ خان کے سیاسی پس منظر پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے مجلس احرار سے وابستگی اختیار کی ۔

یہی وجہ ہے کہ بطلِ حریت سید عطا اللہ شاہ بخاری ان کے قریب ہوئے اور ان کی ہی دعوت پر انہوں نے مستقل سکونت ملتان میں اختیار کی ۔مجلس احرار سے ان کی علیحدگی اس بناء پر ہوئی کہ مجلس احرار نے قیام پاکستان کی مخالفت کی جبکہ نواب زادہ نصر اللہ خان قیام پاکستان کے حامی تھے اور انہوں نے پاکستان کے قیام کیلئے سرائیکی وسیب میں تحریک چلائی اور بڑے بڑے جلسے کئے ۔

قیام پاکستان کے بعد 1952 ء میں نواب زادہ نصر اللہ خان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ، وہ دور مسلم لیگ کے داخلی انتشار کا دور تھا ، بانی پاکستان قائد اعظم وفات پا چکے تھے ، اسی بناء پر نواب زادہ نصر اللہ خان نے مسلم لیگ کو چھوڑ کر جناح عوامی مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی ۔1958 ء میں ملک میں مارشل لاء لگ گیا، اس کے ساتھ ہی نوابزادہ نصر اللہ خان نے جمہوریت کیلئے جدوجہد شروع کر دی ۔

1962 ء میں ایوبی دور کے انتخابات میں بھی وہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے ۔جب جمہوریت کی بحالی کیلئے نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ قائم ہوا تو مغربی پاکستان میں اس کے کنوینئر نوابزادہ نصر اللہ خان اور مشرقی پاکستان میں نور الامین تھے ۔ 1964 ء میں خواجہ ناظم الدین سابق گورنر جنرل کی رہائش گاہ پر ڈھاکہ میں ایک اور اتحاد تشکیل پایا جس میں وفاقی پارلیمانی نظام اور ایوب خان کی برطرفی کا مطالبہ ہوا۔ اسی موقع پر محترمہ فاطمہ جناح کو کمبائنڈ اپوزیشن کی جانب سے ایوب خان کے مقابلے میں امیدوار نامزد کیا گیا ۔ نواب زادہ نصر اللہ خان نے محترمہ فاطمہ جناح کی کامیابی کیلئے مشرقی اور مغربی پاکستان میں بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کیا ۔ 1966 ء میں نواب زادہ نصر اللہ خان کو گرفتار کر لیا گیا ۔

رہائی کے بعد 26 ستمبر 1967 ء کو نوابزادہ نصر اللہ خان نے جمہوری پارٹی کی بنیاد رکھی ۔ مگر عوامی سطح پر ان کی جماعت کو پذیرائی حاصل نہ ہو سکی ۔ یہاں تک کہ ان کی جماعت اپنے علاقے میں بھی جڑ نہ پکڑ سکی ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نواب زادہ نصر اللہ خان اپنے وسیب سے کٹے ہوئے تھے ۔ ان کا زیادہ وقت لاہور میں گزرتا ان کی جماعت کے اہم رہنما حاجی حمید الدین انصاری جو کہ ملتان کی انجمن تاجران کے بھی رہنما تھے اور بعد میں وہ ہماری تنظیم سرائیکستان قومی کونسل میں شامل ہوئے اور اس کے نائب صدر بنے ، مجھے بتاتے تھے کہ مجھے نوابزادہ نصر اللہ خان سے کبھی کوئی اختلاف نہ ہوا، اگر اختلاف تھا تو اس بات کا کہ ہم جب بھی کہتے کہ ہمارا وسیب محرومی کا شکار ہے ، ہمارے وسیب میں ترقیاتی کام نہیں ہو رہے ، نوجوانوں کو ملازمتیں نہیں مل رہیں ، ہمارا صوبہ نہیں بن رہا ، آپ آواز بلند کریں تو وہ منہ پھیر لیتے اور کہتے کہ میں اتنا بڑا لیڈر ہوں ، آپ میرے منہ سے ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں کیوں اگلوانا چاہتے ہیں ۔

میرے خیال میں یہی ایک وجہ تھی کہ وسیب میں ان کو پذیرائی حاصل نہ ہو سکی ۔ 1969 ء میں نواب زادہ نصر اللہ خان نے سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک ایکشن کمیٹی تشکیل دی اور اس دوران ذوالفقار علی بھٹو بھی ایوب خان کے خلاف تحریک چلائے ہوئے تھے جس کی بناء پر ایوب خان نے اقتدار یحییٰ خان کے حوالے کر دیا ۔ یحییٰ خان کے مارشل لاء کے خلاف جدوجہد کے نتیجے میں حکومت الیکشن کرانے پر مجبور ہوئی ، مگر مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے مشرقی پاکستان کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کیا جس کی بناء پر ملک دو لخت ہوا ، بقیہ پاکستان کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو بنے ،

بھٹو نے 1977 ء میں قبل از وقت الیکشن کرائے ، دھاندلی کا الزام لگا کر اپوزیشن نے نواب زادہ نصر اللہ خان کی قیادت میں تحریک چلائی گئی جس کے نتیجے میں 5 جولائی 1977 ء کو ضیاء الحق نے مارشل لالگا کر جمہوریت کا بورا بسترہ گول کر دیا ، اس موقع پر یہ کہاوت مشہور ہوئی کہ نواب زادہ نصر اللہ خان جمہوریت کے دوران مارشل لا ء کی راہ ہموار کرتے ہیں اور جب مارشل لاء لگتا ہے تو پھر جمہوریت کیلئے جدوجہد شروع کر دیتے ہیں ۔1988 ء کے الیکشن میں نواب زادہ نصر اللہ خان مظفر گڑھ سے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور انہوں نے غلام اسحق خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب میں بھی حصہ لیا ،آپ 27ستمبر 2003ء کو وفات پا گئے ۔ نواب زادہ نصر اللہ خان بہت بڑے سیاستدان کے ساتھ شاعر اور ادیب بھی تھے ۔ ان کے تذکرے کے بغیر تاریخ پاکستان مکمل نہیں ہو سکتی۔

%d bloggers like this: