اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ایک درسگاہ یا ایذا رسا؟طلبہ کی دہائی

زکریا یونیورسٹی دن بدن تنزلی کا شکار ہوتی جا رہی ہے تعلیم کا معیار گرتا جا رہا ہے اور بچوں کی اذیت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے،

سرائیکی خطے کی سب سے اہم درسگاہ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کو سمجھا جاتا تھا، مگر پچھلے تین چار سال سے یہ یونیورسٹی مُسلسل ہر قسم کی تنزلی کا شکار ہے۔
سرائیکی خطے کے لوگ جو پہلے ہی بنیادی ترین سہولیات کے فقدان کا رونا روتے تھک چُکے ہیں ، اُن کی بات سُننے کی بجائے جو تھوڑی بہت سہولیات اس خطے کے بد قسمت عوام کو دستیاب ہیں اُن کو بھی ایک خاص قسم کا مُسلط شُدہ مائنڈ سیٹ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تہہ و بالا کر رہا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت جو نو جوانوں کی جماعت سمجھی جاتی ہے وہ بڑے بڑے وعدے کر کے اقتدار میں تو س گئی مگر اس نے اپنے ہر وعدے سے اُلٹا ہی کام کیا۔
مثلا اقتدار حاصل کرنے سے پہلے اس حکومت نے تعلیمی اصلاحات پر بہت زیادہ زور دیا تھا اور نو جوانوں کو سبز باغ دکھائے تھے مگر اس سال کے بجٹ میں سب سے زیادہ کٹوتیاں تعلیم کے بجٹ میں کی گئیں جس کی وجہ سے تعلیم بھی عام آدمی کے بس سے باہر ہو گئی ہے۔ یونیورسٹیوں نے اپنی فیسوں میں سو گُنا اضافہ کر دیا ہے ۔ مڈل کلاس ، لور مڈل کلاس اور مزدور طبقہ اب اپنے جسم کے اعضا بھی بیچے تب بھی وہ اپنے بچوں کو یونیورسٹیوں میں تعلیم نہیں دلوا سکتا۔
اس ساری صورتحال میں سٹوڈینٹس کی تنظیمیں بھی خاموش ہیں اور ملک کی اپوزیشن پارٹیوں نے بھی چُپ سادھ رکھی ہے جو ایک مُجرمانہ فعل ہے کیونکہ ہم اپنی نو جوان نسل اور ملک کے مستقبل کو تعلیم سے محروم رکھ کر اپنے ہاتھوں سے تباہ و برباد کر رہے ہیں. اس پر طرہ یہ کہ جو بچے زیر تعلیم ہیں اُن کے مسائل بھی شدید نوعیت کے ہیں۔

 یونیورسٹی کے طلبہ کی طرف  سے بھیجے گئے مراسلے میں جو چیدہ چیدہ مسائل سامنے آئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:

1. اگر کوئی بچہ وقت پر فیس جمع نہیں کرو پاتا تو اس کو ذہنی طور پر زد و کوب کیا جاتا ہے اور اسے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔

2.نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبا کو دوران لیکچر بھی اُن کی اوقات یاد دلائی جاتی ہے اور انہیں طبقاتی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

3.بچوں کے مسائل سُننے یا اُن کو حل کرنے کی بجائے اُنہیں جان بوجھ کر ذلیل کیا جاتا ہے تاکہ وہ سہمے ہوئے ماحول میں زندہ رہیں اور اپنے حق کیلئے آواز نہ اُٹھائیں۔

4.یونیورسٹی میں سہولیات کی بھی شدید کمی ہے مثلا نیوٹریشن ڈیپارٹمنٹ کی الگ سے نہ کوئی لیب ہے اور نہ ہی بلڈنگ ہے بلکہ جہاں طلبہ رہتے ہیں وہاں واش رومز تک ورکنگ نہیں ہیں۔ اور ایک ایک کمرے میں چار چار سٹوڈنٹس کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونسا ہوا ہے۔

5۔کرونا وبا کے بعد سٹوڈینٹس کے میس بھی بند کر دئے گئے ہیں جس کی وجہ سے طلبا کو کھانا باہر سے منگوانا پڑتا ہے ، ایک تو وہ بہت مہنگا پڑتا ہے دوسرا وہ یونیورسٹی سے کافی دور ملتا ہے جس کی وجہ سے طالبات کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

6.اکثر ٹیچر وقت پر نہیں آتے اور نہ ہی پراپر طریقے سے لیکچر دیتے ہیں اور اگر اُن سے بچے سوال پوچھ لیں تو وہ برا مان جاتے ہیں۔

7.سکالر شپ یا گورنمنٹ کی طلبا کیلئے شروع کی گئیں تھوڑی بہت سہولیات کی گائیڈ لائین کیلئے یونیورسٹی میں کوئی مناسب انفارمیشن ڈیسک نہیں ہے۔

8.منیجمنٹ کا حال بھی بہت پتلا ہے وہ صرف وقت پاس کرنے کیلئے یونیورسٹی میں آتی جاتی ہے پریکٹیکلی ایک کام بھی نہیں کرتی۔

9.ٹیچر حضرات شکل و صورت کی بنیاد پر لڑکیوں کو مارکس دیتے ہیں اور بڑے پیمانے پر اُنہیں ہراس کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی لڑکی آواز اُٹھاتی ہے تو اسے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ایسی کوئی بھی کمیٹی نہیں ہے جو ہراسمنٹ کو روکے یا بچیوں کی شکایات کو سُنے۔

10.لڑکیوں کے میس ہال میں لڑکے گُھس آتے ہیں اور وہاں پر لڑکیوں کو مزید ہراس کیا جاتا ہے۔

11.زکریا یونیورسٹی کے روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ان کی مرمت کافی عرصے سے نہیں ہوئی۔

12.شٹلز بند ہیں جس کی وجہ سے سٹوڈنٹس کو پرائیویٹ رکشوں پر سفر کرنا پڑتا ہے جو کافی مہنگا پڑتا ہے۔

13.یونیورسٹی میں ڈر اور خوف کی فضا ہے جس کی وجہ سے لڑکیاں اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کرتیں جس کی وجہ سے یونیورسٹی بُرقعہ کلچر دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔

13.یونیورسٹی میں نشہ بیچنے کا دھندہ بھی کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے آئے روز لڑائی جھگڑے بھی ہوتے رہتے ہیں۔

المختصر زکریا یونیورسٹی دن بدن تنزلی کا شکار ہوتی جا رہی ہے تعلیم کا معیار گرتا جا رہا ہے اور بچوں کی اذیت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے، صنفی امتیاز سے لیکر ہراسمنٹ کے بڑے بڑے مسائل بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ سے بچوں اور والدین میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ اگر یہ سلسلہ نہیں روکا گیا تو آئیندہ دو تین سال میں زکریا یونیورسٹی کو ایسی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا تصور بھی محال ہے۔ یہ یونیورسٹی اس خطے کے نو جوانوں کی آخری امید ہے اس کو خدارا بچا لیجئے اس کی خبر لیجئے یہ ہم سب کا فرض ہے۔سول سوسائٹی، سیاست دان اور سیاسی پارٹیاں اس کو اپنے ایجنڈے پر رکھیں تاکہ یہاں کے لوگ اس سہولت سے فیضیاب ہو سکیں اور اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوا سکیں۔!!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بی زیڈ یو کے طلبہ کے ڈیلی سویل ڈاٹ کام کو مراسلے

%d bloggers like this: