اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا ہم مابعد سیاسی دور میں سانس لے رہے ہیں؟ ۔۔۔محمد عامر حسینی

گزرے دس ستمبر کو سید محمد قسور رضا گردیزی کی برسی منائی گئی- یہ معجزہ بھی سخن ور فورم ملتان ہی دکھا سکتا تھا جو اس نے دکھایا-

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزرے دس ستمبر کو سید محمد قسور رضا گردیزی کی برسی منائی گئی- یہ معجزہ بھی سخن ور فورم ملتان ہی دکھا سکتا تھا جو اس نے دکھایا-

 

 

کافی عرصے بعد میں سخن ور فورم ملتان کے اجلاس میں شریک ہوا- اور دعوت سخن بھی مجھے ملی – اگرچہ بعد میں پتا چلا کہ مجھ جیسے متشاعر آدمی کو دعوت سخن دینے پر ایک “بڑے شاعر” ناراض ہوکر تقریب سے اٹھ کر چلے گئے، جس کا مجھے افسوس ہے- کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ باقاعدگی سے اجلاس کا حقہ بھرنے والے کو ایک ایسے “اناڑی” کے لیے ناراض نہیں کرنا چاہئیے تھا، جو کئی سالوں سے سخن ور فورم کی مجلس سے غیر حاضر تھا- خیر میں اپنے اس کالم کے زریعے سے اس “بڑے شاعر” سے معذرت چاہتا ہوں- اور ان سے یہ بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ

 

“ڈپٹی کمشنر کے ساتھ ڈنر – لوگوں کی کرپشن پہ لعن طعن “

 

جیسی نظمیں مت لکھیں کیونکہ یار ہمدم دیرینہ جو ہوں، ان کے لیے سینے سمندر کی طرح کشادہ رکھے جاتے ہیں-

 

 

دس ستمبر پاکستان میں بائیں بازو کے قدآور سیاست دان سید قسور گردیزی کی وفات کا دن ہوتا ہے- اور اس دن کی مناسبت سے شاید سخن ور فورم میں ہی ان کو یاد کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا- دو درجن کے قریب شرکا اس تقریب میں ملتان آرٹس کونسل ہال کے بغل میں میٹنگ روم میں شریک تھے- سٹیج پر مہمان ایک تو ڈاکٹر خالد سعید تھے، دوسرے پروفیسر صلح الدین حیدر تھے اور تیسرے ان دونوں سینئر ساتھیوں کے رفیق عارف قریشی کے بیٹے بابر سوئیکارنو تھے- اور میں نے جب ہال میں ایک نظر دوڑائی تو مجھے دو درجن کے قریب شرکاء میں ایک بھی شخص ایسا نہ تھا جو تیس یا بیس کے پیٹے میں ہوں،سب سے کم عمر والوں میں بھی لوگ چالیس کا ہندسہ کراس کررہے تھے- کامریڈ ہمارے چاچا عطا اللہ ملک کا بیٹا جمال بھی گھنی سفید داڑھی کے ساتھ صاف لگ رہا تھا کہ کم از کم پچاس کا ہندسہ کراس کرگیا ہے اور خود سید قسور گردیزی کے بیٹے زاہد حسین گردیزی اب 60 کے ہندسے کو کراس کرگئے ہوں گے- یہاں ایسے بہت سارے لوگ موجود تھے جنھوں نے اپنا شعور علمی و سیاسی نوجوانی کی جس سیڑھی پر سنبھالا، وہ دور سید محمد قسور گردیزی کی سیاست اور زندگی کا آخری دور تھا اور بہت کم ایسے مواقع میسر آئے ہوں گے جب ان کو سید محمد قسور گردیزی سے براہ راست کلام کا موقعہ ملا ہو- اگرچہ اس تقریب میں کم از کم پانچ چھے ایسے افراد تھے جن کو سید محمد قسور گردیزی سے براہ راست انٹریکشن کے بہت سے مواقع میسر آئے-

 

سید محمد قسور گردیزی ملتان کی جاگیردار اشراف طبقے کے ایسے آدمی تھے جو اپنی طالب علمی کے دور میں نیشنلسٹ خیالات سے متاثر ہوئے اور اسی دوران ان کی ملاقات ایسے ترقی پسند ستاروں سے ہوئی جنھوں نے ان کو اپنے طبقے کے مفاد سے غداری کرنے پر مجبور کردیا- ان ترقی پسند ستاروں میں بلوچستان سے میر غوث بخش بزنجو کا بہت بڑا ہاتھ تھا جن سے سید قسور گردیزی کی دوستی اور تعلق زمانہ طالب علمی میں بنا تھا اور ان کی کایا کلپ میں کافی سارا ہاتھ سی آر اسلم، میاں محمود، محمود الحق عثمانی اور کئی ایک بنگالی کامریڈز کا بھی تھا- سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی سے بھی ان کا بہت گہرا تعلق تھا- جب پاکستان نیشنل عوامی پارٹی کا قیام عمل میں آیا جس میں بائیں بازو اور قوم پرست سیاسی جماعتیں اور گروپ شامل تھے تو بھی سید محمد قسور رضا گردیزی اس کی سنٹرل کمیٹی کے رکن تھے اور نمایاں ترین رہنماؤں میں سے تھے- انھوں نے نیپ پر پابندی کے زمانے میں ٹھیک اسی وقت جیل کاٹی جب نیپ کی قیادت پر حیدرآباد ٹربیونل میں معروف مقدمہ بغاوت چل رہا تھا- اس سے پہلے وہ 51ء میں راولپنڈی سازش کیس میں بھی گرفتار ہوئے تھے- اسی طرح جب ایوب خان کے خلاف احتجاجی تحریک چلی تھی تو بھی انہوں نے جیل کاٹی- ایسے ہی جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ایم آر ڈی کی تحریک میں بھی انھوں نے پی این پی کے مرکزی جنرل سیکرٹری کے طور پر جیل کاٹی- دیکھا جائے تو وہ ان عوامی سیاسی لیڈروں میں شامل تھے جو کیا آمر اور کیا عوامی حکومتوں ہر دور میں حق اور سچ بات کرنے پر جیل میں ڈال دیے گئے- اس تقریب میں شریک ایک بزرگ دوست بتارہے تھے جب ذوالفقار علی بھٹو 70ء کی الیکشن مہم کے دوران ملتان تشریف لائے تو انھوں نے سید قسور گردیزی سے خصوصی ملاقات کی اور ان کو پی پی پی میں شمولیت کی دعوت دی جو انھوں نے بوجہ رد کردی-

 

پروفیسر ڈاکٹر خالد سعید جو کہ ملتان میں مقیم ان چند زندہ لوگوں میں سے ایک ہیں جو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے پہلے تین عشروں کے عینی شاہد ہیں اور سرگرم طور پر وہ اس تاریخ کو بنانے میں شامل رہے ہیں- انھوں نے ازراہ مذاق کہا کہ چینوٹی شیخ اور  ملتانی گردیزیوں میں ایک صفت مشترک ہے اور وہ ہے “کنجوسی” لیکن سید محمد قسور گردیزی اس سے مبرا تھے- وہ علم اور شعور بانٹنے میں ہی میں سخی نہ تھے بلکہ وہ مال خرچ کرنے میں بھی سخی تھے- انھوں نے عوام دوست کو منظم کرنے میں اپنا مال خرچ کیا، زمین بیچی اور جو تجارت سے مال کماتے تھے، اسے بھی دل کھول کر خرچ کرتے تھے- ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں آج جتنے بونے اور پست قامت لوگوں کو دیکھنے کی مصیبت ان کو اٹھانا پڑرہی ہے ، اس کا درد اور تکلیف وہی جانتے ہیں، جن لوگوں نے میر غوث بخش بزنجو، مفتی محمود، مولانا نورانی، عطاء اللہ مینگل، نواب خیر بخش مری، بیگم نسیم ولی، شیر باز مزاری، سہروردی، بھاشانی، بھٹو و بے نظیر بھٹو جیسے لیڈر دیکھے ہوں، ان کے سامنے لیٹ جانے والے سیاست دان ہی رہ جائيں تو بس ماتم کرنے کو دل کرتا ہے- یار لوگ تو نواز شریف میں چی گیورا ڈھونڈیں تو بس انا للہ پڑھنے کو دل کرتا ہے- انھوں نے کہا کہ ریں ریں کرنے والے سیاست دانوں کی بات تو چھوڑ ہی دیں، ہر زمانے میں شیدے ٹلی ہوتے ہی ہیں لیکن جو جمہوریت کا علم اٹھانے کا دعوی کرتے ہیں جب وہ بنا بحث کیے بڑے صاحب کی توسیع ملازمت کا بل متفقہ پاس کرواتے ہیں تو بہت مایوسی ہوتی ہے-لیکن ایک بات ماننا پڑے گی کہ ہمارے پاس موچی سیاست دانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پی پی پی، اے این پی، نیشنل پارٹی، بی این پی ایم، پشتون خوا عوامی پارٹی جیسی جماعتیں اور ان کے بظاہر نیم ایستادہ سیاست دانوں کی لاٹ ہی رہ گئے ہیں اور اب جتنی بھی تھوڑی بہت جمہوری سیاست ہے وہ ان کے سہارے ہورہی ہے- ہمیں ان کے دوستانہ نقاد بنکر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور قسور گردیزی جیسے سیاست دانوں کا انتظار کرنا ہوگا-

 

پروفیسر صلاح الدین حیدر جنھوں نے خود بھی جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں شاہی قلعے کے عقوبت خانے میں انسانیت سوز تشدد برداشت کیا اور اس تشدد کے آثار ان کے جسم پر آج تک نظر آتے ہیں- اور انھوں نے 50ء کی دہائی سے لیکر ابتک عوام دوست دانشوری کی راہ نہیں چھوڑی- موقعہ پرستی ان کو چھو کر بھی نہیں گزری ہے- انھوں نے سید قسور گردیزی کے ساتھ اپنے بیتے روز و شب میں سے کچھ روز اور شب کا احوال سنایا- سلیمی صاحب جو روزنامہ امروز میں کام کرتے رہے اور ان کو گردیزی صاحب کے ساتھ بہت وقت گزارنے کا موقعہ ملا نے بتایا کہ وہ سید قسور گردیزی پر اپنی یاد کے سہارے ایک دستاویز تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں- انھوں نے بتایا کہ کیسے انھوں نے سید قسور کے پوتے سے بار بار فون پر رابطہ کیا لیکن ان کی طرف سے کوئی مدد نہ ملی- یہ قسور رضا کی اولاد کی اولاد کا ہی حال نہیں ہے بلکہ کئی ایک  اشراف گھرانوں سے آئے نظریاتی کارکنوں کے گھرانوں میں ان کے پسماندگان میں شامل نوجوان خون ان نظریاتی کارکنوں کی سیاسی و علمی خدمات کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اگر یہ نظریاتی لاٹ اپنا وقت جائیدادیں بنانے، بینک بیلنس بنانے اور بڑے بڑے شاپنگ سنٹرز کھڑے کرنے میں صرف کرتی تو بہت ہی کمال ہوتا- ان نوجوانوں کی نظر میں کامیاب شریف خاندان، ترین خاندان ، ذوالفقار زلفی و علیم خان وغیرہ ہیں- یہ فاطمہ فرٹیلائزرز والوں کو آئیڈیلائز کرتے ہیں- سراج تیلی، سلیم مانڈوی والا، ایسے افتخاز نذیر جیسے نودولتیے ان کے آئیڈیل ہیں- کیا کریں انہوں نے دیکھا یہی ہے- سیاسی کارکنوں کے نام پر ان کا واسطہ دیہاڑی بازوں سے پڑا ہے- شاکر حسین شاکر کہہ رہے تھے کہ قسور گردیزی،چاچا ملک عطا اللہ، کامریڈ جمال ، اشفاق خان ،ناصر زیدی ایڈوکیٹ  ان جیسے لوگوں نے ملتان اور اس کے گردونواح جن نوجوانوں کی سیاسی تربیت کی تھی اس نسل کے اکثر لوگ بھی مرگئے ہیں اور جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا سایہ اتنا منحوس تھا کہ اس نے کیا دایاں اور کیا بایاں دونوں اطراف کے  کھیت بنجر کردیے، فیکڑیاں دیوالیہ کردیں اور اب تو بس موقعہ پرستی کے کارخانے کھلے اور بھڑوے گیری کی کاشت ہوتی ہے-

 

میں ان سب بزرگ اور ہم عمر احباب کی باتیں بغور سن رہا تھا- مجھے ایک بات کا شدت سے احساس ہورہا تھا کہ جس شہر میں آرٹس کونسل میں قسور گردیزی جیسے سیاست دان کی برسی کا اجتماع ہورہا تھا، اس شہر میں اور اس کے گرد و نواح سے سوشل میڈیا پر میں نوجوان و جوان مرد و خواتین کو بہت محترک پاتا ہوں جو پاکستان میں جمہوریت دشمن، طالع آزما، آزادی اظہار کے دشمنوں اور اسٹبلشمنٹ کے خلاف بہت کھل کر سوشل میڈیا پر اظہار کرتے ہیں- کئی بار وہ وائرل ہوجانے والے انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات پر مظاہروں میں شریک ہوتے ہیں، لیکن وہ ایسی تقاریب سے غیر حاضر کیوں ہوتے ہیں؟ جو شعور سوشل میڈیا پر ہمیں ملتان اور گردو نواح سے ملتا ہے وہ سخن ور کی اس محفل میں موجود کیوں نہیں تھا؟ حالانکہ شاکر سمیت سخن ور فورم سے وابستہ دوستوں نے  اس  تقریب کی اطلاع فیس بک و وٹس ایپ گروپوں میں بھی دی تھی-

 

سوشل میڈیا ابلاغ کا طاقتور میڈیم ضرور ہے لیکن یہ براہ راست مادی سماجی رابطوں اور ان رابطوں سے پیدا ہونے والی تحریک کا نعم البدل نہیں ہے- سوشل میڈیا پر متحرک نوجوان اس تقریب میں ہوتے تو شاید یاس بھری اور ماضی کا ماتم سے بھری تقریروں کے ساتھ نئی صبح کے طلوع ہونے کی نوید بھی مل جاتی- خیر اگلی بار سہی

%d bloggers like this: