نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان (قسط5 )۔۔۔عباس سیال

گزیٹئیرڈیرہ اسماعیل خان 1882-1884 میں شائع ہوا تھا ۔ یہ دستاویز انگریز سرکار نے اپنی نگرانی میں تیار کروائی تھی جس میں ڈیرہ اسماعیل خان کے مختلف زاویوں سے اعدادوشمار اکٹھے کئے گئے۔ عباس سیال نے اسکا ترجمہ کیا ہے ،قسط وار ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

دامان کے ندی نالے

ٹانک سے وہووا تک کا علاقہ دامانی ہے۔علاقہ دامان میں کافی مشہور ندیاں بہتی ہیں،جن میں سے چند یہ ہیں۔ ۱۔ ٹکواڑا ندی:یہ ندی ٹانک زام اور باقی درّوں سے طغیانی کا پانی جمع ہونے کے بعد شمالی علاقے کی زمینوں کو سیراب کرتی ہے۔ ۲۔ لُونی ندی: یہ اس ضلع کی سب سے بڑی ندی ہے جو درہ گُمل سے نکلتی ہے اور ڈیرہ شہرسے کوئی پندرہ میل دور جنوب کی جانب دریائے سندھ میں جا گرتی ہے۔ ۳۔ وَہُووا ندی:یہ ندی ڈیرہ فتح خان اور وہووا کے شہروں کے گرد ہوتی ہوئی دامان کے جنوبی حصوں کو سیراب کرتی ہے۔ ان ندی نالوں میں سے کچھ نالوں کے اپنے اپنے مخصوص راستے ہیں،جو ایک دوسرے سے مخصوص فاصلے پر ہیں۔ان سب ندی نالوں کے اپنے اپنے مقامات پر مختلف نام ہیں۔ بمشکل ایک ندی ہی ایسی ہے کہ جس کا نام پہاڑ سے شروع ہو کر دریائے سندھ میں گرنے تک ایک ہی ہو۔دامان کے علاقوں کو قابل کاشت بنانے کیلئے ایک ندی کا پانی دوسری ندی میں ڈال کر اسے ایک دریاکی شکل میں ڈھال کر دامان کے کثیر رقبے کو قابل کاشت بنایا جاسکتاہے۔ دریائے سندھ کے مغربی کنارے دریا پار کی طرف بھی کچے کا ایک بہت ہی چھوٹا سا علاقہ ہے جو دریا کے ساتھ منسلک ہے۔دریائے سندھ جو آج اپنے پرانے مقام سے ہٹ کر تھوڑا سا مشرق کی طرف بہنے لگا ہے،پرانے وقتوں میں یہ اپنے موجودہ مقام سے چار پانچ میل مغرب کی طرف بہا کرتا تھا۔دریا کی موجودگی اور اس کے کناروں کے نشانات آج بھی مختلف فاصلوں پر مشرق میں پہاڑپور، شمال میں نیچے کی طرف علاقہ ببی،کاٹگڑھ اورڈیرہ غازی خان کی سرحد پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔دریاکے ان کناروں کو مقامی زبان میں کُر کہا جاتا ہے جو پانچ چھ میل تک دریائے سندھ کی کچی کے علاقے تک چلے جاتے ہیں۔دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ دامان کے وہ علاقے جہاں پر پہاڑی نالوں کی کثرت ہے،وہاں پر پانی کے مسلسل بہاؤ نے دریا کی پرانی موجودگی کے نشانات تقریباً مٹا دئیے ہیں۔مگر لُونی اور وہووا کے درمیانی علاقوں میں جہاں ندی نالے بہت کم بہتے ہیں،وہاں پر ابھی بھی دریا کے پرانے اور تاریخی کناروں کے نشانات ملتے ہیں۔

دریائے سندھ کے وہ سارے علاقے جو دریا سے تھوڑا نیچے اس کے کناروں سے منسلک کچی کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، انہیں سندھ جبکہ بالائی علاقوں کو بنی کہا جاتا ہے۔ سندھ میں پانی وافر مقدار میں موجود رہتا ہے جبکہ بنی خشک و بیابان اور نا قابل کاشت ہونے کے باعث دامان کا منظر پیش کرتا ہے۔بنی کا علاقہ بارانی ہے،جہاں پر کاشتکاری کا انحصار پار ش کے پانی پر ہے۔وہ سارے علا قے جہاں آج بھی سندھ اور بنی واضح صورت میں دکھائی دیتے ہیں،اُن میں رگ پہاڑپور،خیسور اور ٹکوارہ کے درمیان کا قابل کاشت علاقہ،اڈہ کھیارہ اور چھونی کے درمیان (لُونی کا جنوبی حصہ) وغیرہ کہ جسے وہوو ا ندی سے سیراب کیاجاتا ہے اور وہووا کے جنوب سے ضلع ڈیرہ کے آخر تک کا علاقہ۔دامان کے درمیانی حصے میں ڈیرہ اسماعیل خان کی مخالف سمت سے آنے والے لُونی اور ٹکواڑا نالوں نے دریا کے پرانے راستوں کے نشانات مٹا دئیے ہیں۔ کہیری کے علاقے میں میرن کے نز دیک سندھ کی چھوٹی سی پٹی کچی کو جدا کرتی ہے۔ٹکواڑہ کے شمال میں سندھ کا علاقہ نالوں کے اوپر تک چلا گیاہے۔صرف لرگئی نالہ اور خیسور سلسلے کا کچھ حصہ اس سے ملا ہو اہے،جو آگے چل کر پھیلتا ہوا دریا کے کنارے تک چلا جاتا ہے۔اس پٹی کا علاقہ جو لرگئی نالے کے آس پاس ہے،باقی سندھ کا سارا علاقہ کم و بیش دریائے سندھ کے مرہون منت ہے اوردامان سے مکمل طور پر مختلف ہے۔یہ علاقہ جو رگ پہاڑپور کے دائرے میں آتا ہے، جو بیس میل خیسور سلسلے سے آگے حسین سنگھڑ تک پھیلا ہوا ہے۔ شمال میں یہ کوہ خیسور کے ساتھ ساتھ دس میل تک چلا گیا ہے اور مغربی جانب یہ پنیالہ سے ملا ہو اہے۔رگ پہا ڑپور کا وسطی حصہ دراصل دریائے سندھ کا قدیمی کنارہ ہے جو نیچے بلوٹ سے ہوتا ہوا راکھ بند پر ختم ہوتا ہے۔راکھ بندکے زیریں حصے کوٹکواڑہ کا پانی آ ملتا ہے اور یہ پانی جنوبی رخ اختیار کرنے کی بجائے وہیں پر ٹھہرا رہتا ہے۔بعد میں سیلاب کا پانی بھی اس میں آن ملتا ہے،اسی لیے یہ سارا علاقہ ٹھہرے پانی کی وجہ سے ناقابل کاشت رہتا ہے اورٹھہرے پانی کے جوہڑ میں خودرو جھاڑیوں اور جنگلات کی بہتات ہے خصوصاً جنڈ اور کریٹہ کے درخت کثیر تعداد میں اُگے ہوئے ہیں۔چونکہ اس پانی کو نکاسی کا راستہ نہیں ملتا اور نہ ہی یہ واپس دریا میں جاسکتا ہے اسی لیے سردیوں کے موسم میں جھیل کی شکل میں ہی کھڑے کھڑے خشک ہو جاتا ہے۔ رگ پور کے جنوبی حصے کے علاوہ باقی کا سارا حصہ زرخیز ہے،یہاں پر بارہ تیرہ میل لمبی نہریں نکال کر علاقے کو خوب سیراب کیا گیا ہے۔پورے علاقے میں کنوؤں کی بھی بہتات ہے، جو نہروں کے ساتھ ساتھ کھودے گئے ہیں۔یوں سیلابی پانی کے علاوہ کنوؤں اور نہروں سے یہ سارا علاقہ قابل کاشت بنایا جاتا ہے۔ رگ پہاڑپور کے علاقے کا شمارزرخیز ترین علاقوں میں ہوتا ہے-

یہ بھی پڑھیے: پیش لفظ گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔عباس سیال

سلسلہ وار گزیٹیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔ عباس سیال

جاری ہے۔۔۔۔۔

About The Author