مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کسانوں کے انمٹ دکھوں کا سلسلہ ہائے دراز۔۔۔رؤف لُنڈ

جہاں اس سارے لہو کا بدلہ لینے کا پہلا قدم تاج و تخت کو ٹھوکروں کی زد پہ رکھنا اور جس کی حتمی منزل تسخیرِ کائنات کر کے انسانیت کو سرخرو کرنا ہو

رؤف لُنڈ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دھان کی فصل ۔۔۔۔۔ ؟ کسانوں کے انمٹ دکھوں کا سلسلہ ہائے دراز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اب کے جینے کے انداز بدلنے ہوں گے ۔۔۔۔۔

برباد کسانوں کی حالت کو دیکھیں تو لگتا ھے کہ اردو کے بہت بڑے شاعر منیر نیازی نے راہ چلتے چلتے کسانوں، ہاریوں اور کاشتکاروں کی زندگی کی کٹھنائیوں اور کرب سے مغموم اور متاثر ہو کے یہ شعر کہا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

مَیں ایک دریا کے پار اترا تو مَیں نے دیکھا

یُوں تو طبقاتی نظام میں محنت کش طبقے کی کوئی بھی پرت سکھ کا سانس لینے کا سوچ ھی نہیں سکتی کہ دکھوں کے سب سوتے طبقاتی نظامِ زر سے ھی پھوٹتے ہیں۔ کرب و الم کے اس بیہودہ سماج میں کسانوں کے حالات کا ذکر کرنا کلیجہ منہ کو لانے کے مترادف ھے ۔۔۔ قدرتی آفات کا قہر بھی سماج کی اس کمزور پرت پر سب سے زیادہ نازل ہوتا ھے اور یہ کئی کئی سالوں بعد ایک بار نہیں ہوتا بلکہ ہر سال اور ہر چھ ماہ بعد ہر بار ہوتا ھے۔۔۔۔۔

مکان (جنہیں مکان کہتے ہوئے شرم آتی ھے ) گرتے ہیں تو ان کے۔ مویشی مرتے ہیں تو ان کے۔۔۔۔ ان کا کوئی سامانِ زیست ہو یا مستقبل میں ان کی زندگی کا سہارا بننے والے بچے سب وباؤں اور بیماریوں کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ یہ سب کچھ سہہ جانے والے سخت جان کسان اس قدر ضدی ہیں کہ زندہ رہنے کی ضد سے باز نہیں آتے ۔ ان کی یہی عادت سرمایہ داروں، جاگیرداروں، تاجروں کے منہ میں کتوں جیسی رال ٹپکنے کا سبب بنتی ھے تو وہ ان بے بسوں اور بے کسوں کو بے دردی سے لوٹنے کے مختلف طریقے اور حربے استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں ۔۔۔۔۔

سرمائے کے ان دلالوں کا سب سے مؤثر حربہ تباہ حال کسانوں کو پہلے سے برباد ہوتی فصلوں کے بعد نئی فصل کی کاشت کی اس طرح ترغیب دینا کہ جیسے کسانوں کا ہمدرد جہان میں کوئی اور نہ ہوگا ۔۔۔۔ نفع اور نفع در نفع کے اس نظام میں یہ ترغیب دراصل ایک نیا دھوکہ ہوتا ھے۔۔۔۔

شرح منافع کے پجاریوں اور سرمائے کے ان یاروں نے کسانوں کو اس طرح کا ایک دھوکہ دھان کے ہائی بریڈ سیڈ (ترقی یافتہ ) بیج کے نام پر دیا ھے۔ سیڈ مافیا نے مختلف ناموں سے کئی قسم کے خوشنما تھیلوں میں ہائی بریڈ بیج فروخت کرتے ہوئے ایسے ایسے نا قابل یقین دعوے کئے کہ کسانوں کو پل جھپکنے میں اپنی خوشحالی نظر آنے لگی۔ سیڈ مافیا نے ہائی بریڈ دھان کے فی ایکڑ ایک سو من سے لیکر ایک سو چالیس من پیداوار کے خواب دکھائے۔ اور اس خباثت میں کھاد سپرے کے ھم مشرب لٹیروں کے مفاد کو بھی شامل کیا کہ فلاں فلاں کھاد اور سپرے کریں اور تماشا دیکھیں۔۔۔۔۔۔

کسانوں نے ان خبیثوں کے سب مشوروں پر عمل کیا تو تماشا کیا ہوا؟ کسانوں کو دن میں تارے نظر آنے لگے ہیں۔ کیونکہ دھان کے تیلوں پر جو خوشا ( سِٹہ ) نمو دار ہوا وہ یا بالکل خالی یا تین چوتھائی خالی ۔ کسانوں کی رات دن کی محنت، ادھار کے پیسوں سے کاشت، چھوٹے چھوٹے بچوں سمیت بیوی، بہنوں اور ماؤں کو محنت کے اس جھنجھٹ میں جھونک دینے کے بعد پیداوار اور اس پیداوار کا نتیجہ؟ خسارہ ھی خسارہ ۔ آہیں ہی آہیں اور آنسو ھی آنسو ۔۔۔۔۔۔

اب کون پونچھے ان کے آنسو ؟ اور کس کو دیں یہ دہائی؟ جب لوٹ مار کے پیسوں سے سیٹیں جیتی جاتی ہوں اور جیتنے والے ان لٹیروں کے کندھوں پر اقتدار کا سنگھاسن رکھا ہو ۔۔۔۔۔ جہاں چور نمائندے ہوں ،چور ھی مشیر ہوں اور چور ھی وزیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب لے دے کے پھر بات جینے کی ضد پہ آکے رکتی ھے۔ البتہ اب ضرورت ھے تو جینے کی اس ضد کو درست سمت دینے کی ھے۔ وہ سمت یہ ھے کہ لُٹنے کا ماتم نہیں کرنا۔ بربادی کا رونا نہیں رونا۔ بلکہ اپنی آہوں اور آنسوؤں کو اپنی کمزوری کی بجائے اپنی طاقت بنانا ھے۔ انکار کر دینا ھے لٹیروں، تاجروں اور منافع کے مافیا کی تمام ادائیگیوں سے۔۔ اس پر دھمکیاں ملینگی، تھانے کی بھی، سردار کی بھی۔ علاقے کے بیہودہ معزز کی بھی اور تھانیدار کی بھی ۔۔ لیکن جب کسانوں نے یہ سوچ لیا کہ اس طرح قسطوں میں مرنے جیسے جینے سے لڑ کر مرنا بہتر۔۔۔۔۔ تو لٹیروں کے چہروں پہ مردنی دیکھنے کے قابل ہوگی اور تب آخری ہنسی ؟ اے کسانو ! صرف تمہاری ۔۔۔۔۔۔

سو اے مظلوم کسانوں تمہاری معمولی سی یہ ہنسی بنیاد بنے گی آپ کے بھائی بند مزدوروں کی ، محنت کشوں کی حتمی فتح کی۔ ایسی فتح جس میں طبقاتی سماج کی تباھی پہلا قدم ہوگا۔ اور دوسرا قدم سوشلسٹ سماج کے سرخ سویرے کا طلوع ہونا ہوگا۔ ایسا سماج جہاں انسان دکھ درد اور محتاجی سے چھٹکارا پا کر ایک انسان کے طور پر جینے پہ فخر کر سکے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

%d bloggers like this: