مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کراچی پیکج اور یا شیخ۔۔۔حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت اچھا ہوا کہ وزیراعظم عمران خان کراچی پہنچے، 1100 ارب روپے کے کراچی پیکج کا اعلان کیا۔
مزید اچھی بات یہ تھی کہ وزیراعظم جب کراچی پیکج کا اعلان کر رہے تھے تو سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ ان کیساتھ بیٹھے ہوئے تھے،
دونوں اچھائیوں کا حسن اور بڑھ جاتا اگر وزیراعظم یہ بھی بتا دیتے کہ کراچی پیکج کے گیارہ سو ارب روپے میں تین سو ارب روپے وفاق کے ہیں، آٹھ سو ارب روپے سندھ حکومت کے،
وفاقی وزیر اسد عمر کے بقول چار سو ارب وفاق اور چار سو ارب بھی سندھ فراہم کرے گا، تین سو ارب کہاں سے آئیں گے، یہ زیرغور ہے۔
اسد عمر کی بات درست نہیں کیونکہ سندھ حکومت اپنے حصے کی رقم بارے تفصیلات فراہم کر چکی ہے،
کراچی اڑھائی سے تین کروڑ کی آبادی کا شہر ہے۔
آخری مردم شماری (جو پچھلے دور میں ہوئی) میں اس پر یہ ظلم ہوا کہ 70 سے 80 لاکھ کی آبادی کم ظاہر کی گئی، اس وقت ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے علاوہ بھی چند جماعتوں نے اس پر احتجاج کیا تھا، پھر کیا ہوا اور کیوں دونوں نے حالات کے جبر سے سمجھوتہ کر لیا یہ ایک سوال ہے، آج نہیں تو کل دونوں جماعتوں کو اس سوال کا جواب دینا ہوگا۔
کراچی کے مسائل سنگین ہیں اور ان سنگین مسائل پر دو آراء ہیں، اولاً نسل پرستی سے عبارت جیسا کہ گزشتہ روز ایم کیو ایم کے سید حیدر عباس رضوی نے بیان دیا (رضوی آج کل کونسی ایم کیوایم میں ہیں یہ شاید وہ خود بھی نہیں جانتے) ان کے مؤقف کے قریب قریب باتیں سوشل میڈیا کے ان جعلی اکاؤنٹس سے کی جاتی ہیں جو گڑیا، اچھو، حق کا ساتھ دو، کراچی کا بیٹا، آگے سمندر ہے کے ناموں سے فعال ہیں،
دوسری سنجیدہ رائے ہے اور وہ یہ کہ ایم کیو ایم وپیپلزپارٹی کے علاوہ سندھ میں پچھلے 35 سالوں کے دوران اقتدار میں رہنے والی دوسری جماعتیں بھی جواب دیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر شہر کی تعمیر وترقی کیلئے منصوبہ بندی کیوں نہ ہوسکی۔
نالوں کے کناروں کی زمین اور پارکوں کی کٹنگ کس نے کی، بعض نالوں کے اوپر جو مختلف اداروں کی ڈیوڑھیاں اور پارکنگز بنیں یہ کیسے بن گئیں۔
بہرطور اس شہر ناپرساں کے مسائل ہیں اور سنگین ہیں، ان مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔
ذاتی طور پر مجھے اس منطق سے اختلاف ہے کہ کراچی کی سمت آبادی کے بہاؤ کو روکا جائے۔
یہ سوچ اور مطالبہ غیرحقیقت پسندانہ ہے
البتہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر پچھلے بہتر تہتر سالوں یا پھر 49 سالوں کے دوران ملک کی مرکزی شاہراہ کے کنارے ہر سو میل پر ایک نیا شہر بسانے کی حکمت عملی اپنائی گئی ہوتی تو اولاً ترقی کے ثمرات مضافات تک پہنچ پاتے اور ثانیاً کراچی پر آبادی کا غیرضروری دباؤ بھی نہ بڑھتا۔

ثالثاً خود کراچی کے ان مضافات میں جو اب کراچی کا حصہ بن گئے چھوٹے چھوٹے نئے شہر بسانے کی حکمت عملی اپنائی جاتی تو کچی آبادیوں، چائنا کٹنگ اور دوسری شکایات میں کمی آسکتی تھی۔
جو وقت گزر گیا اب اس پر رونے دھونے کی بجائے کامل سنجیدگی کیساتھ اس شہر کے مسائل حل ہونے چاہئیں، مقامی آبادی کو سرکاری ملازمتوں میں ترجیح ملنی چاہئے، بلدیاتی اداروں سمیت دیگر اداروں کے گھوسٹ ملازمین کا صفایا بہت ضروری ہے۔
مردم شماری کے حوالے سے موجود شکایات پر وفاق اور سندھ حکومت کے دوران جو امور طے پائے تھے ان پر بھی عمل کی ضرورت ہے۔
کراچی کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس شہر نے 1988ء سے 2013ء تک
(2018 اس لئے نہیں لکھا کہ اس کے نتائج جھرلو کا نتیجہ ہیں)
جس جماعت کو اپنا 90 فیصد مینڈیٹ عطا کیا اس سے سوال کرنے کا کسی میں حوصلہ نہیں کیوں؟
اس کی وجہ سب جانتے ہیں حالانکہ بہت سارے لوگ جو دوسروں پر اُنگلیاں اُٹھاتے اور تلخ نوائی فرماتے ہیں اگر کبھی کبھی اپنے گریبان میں جھانک لیا کریں تو تلخی کم ہوسکتی ہے۔
خدا کرے کہ یہ گیارہ سو ارب کا ترقیاتی پیکج کراچی کے حالات بدلنے میں معاون بنے بلکہ اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اس پر عمل ہو، وفاق کے پچھلے 162 ارب روپے والے اعلان جیسا حشر نشر نہ ہو اس کا۔
یا شیخ (شیخ رشید احمد) وفاقی وزیر ریلوے نئی ٹرینیں چلانے کے شوقین ہیں، جب بھی ریلوے کے وزیر بنے نئی ٹرینیں چلائیں، باقی اللہ جانے اور ریلوے۔
شیخ صاحب نے اپنی پچاس سالہ جدوجہد (اگر کوئی ہے تو) پر ایک کتاب لکھ ماری ہے، کتاب خریدیں گے، پڑھیں گے پھر اس پر بات کریں گے
کہ وہ اپنے دو پرانے دعوؤں اولاً وہی ایوبی دور میں راولپنڈی کے طلباء کی قیادت کرنے والے اصلی شیخ رشید ہیں اور ثانیاً وہ متحدہ پاکستان کی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر رہے ہیں سے دستبردار ہوئے ہیں یا پوری شان وشوکت کیساتھ ان دعوؤں پر ڈٹے ہوئے ہیں؟
شیخ جی جب سے ہم انہیں جانتے ہیں اور یہ 1975 کی بات ہے ہمیشہ سے خوش خوراک، خوش کلام، خوش لباس اور خودپرست ہیں۔
ان چاروں چیزوں پر وہ سمجھوتہ نہیں کرتے،
”فقیر راحموں اپنے پرانے دوست یاشیخ بارے کہہ رہے ہیں کہ خوش کلام سے زیادہ کلام بسیار ہیں”
اپنی پسلی نہیں ان پرانے دوستوں کے پھڈے میں ٹانگ اڑانے کی اس لئے ہم اپنی بات آگے بڑھاتے ہیں،
شیخ جی کو تقریریں کرنے کا اتنا شوق ہے کہ پریس کانفرنس کو بھی جلسہ عام بنا دیتے ہیں۔
ابھی بروز ہفتہ انہوں نے جو بسیار کلامی کی وہ ماضی سے مختلف نہیں، کاش اتنی توجہ وہ وزارت ریلوے پر بھی دیتے۔
(ماضی میں اور اب بھی)
تو اس اجڑے دیار میں رونق لگ سکتی تھی۔
ان کی پسندیدہ وزارت، وزارت اطلاعات ہے، پتہ نہیں عمران خان نے انہیں اس سے دور کیوں رکھا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یاشیخ اپنی وزارت پر توجہ دینے کیلئے بھی وقت نکال لیں اور کسی دن ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور فرمائیں کہ وہ جب جب وزیر ریلوے بنے اس کا بیڑا غرق کیوں ہوا۔
مجھے یقین ہے کہ وہ جب بھی غور فرمائیں گے پھر ایک تقریر پھڑکا دیں گے کہ یہی تو ایک شوق ہے انہیں۔

%d bloggers like this: