مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کولواہ سے دہلی تک۔۔۔عزیز سنگھور

حیات بلوچ کا قتل ایک ماورائے عدالت قتل ہے۔ اورایک اہلکار کو سزا دینے سے حل نہیں ہوگا۔ ہمیں اپنی فرسودہ ٹریننگ اور سوچ کو چھوڑنا ہوگا۔

حیات کے لفظی معنے ہیں زندگی، آج کل زندہ رہنا مشکل ہوگیا۔ بلکہ ممکن نہیں رہا۔ ہر آنکھ اشکبار ہے۔ ہر انسان سوگوار ہے۔ زندگی کو بندوق کے زور پر چھینا جارہا ہے۔ سڑکوں پر لٹا کر ماں باپ کے آنکھوں کے سامنے برسٹ مارا جاتا ہے۔ والدین نے اپنی زندگی (حیات) کی جان بخشی کے لئے منتیں کیں۔ ہاتھ پاؤں پڑے مگر ان کی ایک بھی نہیں سنی گئی۔ ہولناک موت کے بعد بوڑھی ماں نے اپنے دونوں ہاتھ عرش کی طرف اٹھائے،کیونکہ ان کا ایمان ہے کہ عرش سے ہی ان کو انصاف ملے گا۔ یہاں انصاف کی ساری امیدیں ختم ہوچکی ہیں۔ عرش کی عدالت میں انصاف کا بول بالا ہے۔ جہاں نہ انصاف بکتا ہے اور نہ ہی واٹس ایپ کے ذریعے انصاف کو چلایا جاتا ہے۔ بوڑھی ماں کے دل سے جو آہ نکلی ہے۔ وہ اس بندوق سے کئی گنازیادہ طاقتور ہے۔ جس بندوق سے ان کی اولاد حیات بلوچ کی جان لی گئی۔
اس افسوسناک واقعہ کے پیچھے ایک ذہنیت اور سوچ کارفرما ہے۔ اس ذہنیت اور سوچ کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ورنہ اس طرح کے واقعات مستقبل میں بھی ہونگے۔ یہ وہی سوچ ہے۔ جو معاشرے میں بغاوت کے رجحانات میں اضافہ کرتا ہے۔ اور ہر شہری کو بغاوت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ پرامن شہری باغی بننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جب پرامن شہری اپنی جان بچانے کے لئے بندوق اٹھاتا ہے۔ تو ان پر غداری کا الزام لگایا جاتا ہے۔
دنیا میں سیکیورٹی ادارے اس لئے بنائے جاتے ہیں وہ عوام کی جان و مال کو سیکیور (محفوظ) کریں۔ اہلکاروں کے ہاتھوں میں جب بندوق تھمانے سے قبل ان کی ذہنی تربیت کی جاتی ہے۔ ان کو یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کے ہاتھ میں جو بندوق ہے وہ عوام کی حفاظت کے لئے ہے۔ اور بندوق کو کب اور کہاں استعمال کرنا ہے۔ اس تربیت کی بنیاد پر سپاہی بندوق کے طابع نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ بندوق اس کے طابع ہوتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم اس کے برعکس ہیں۔
حیات بلوچ کا قتل ایک ماورائے عدالت قتل ہے۔ اورایک اہلکار کو سزا دینے سے حل نہیں ہوگا۔ ہمیں اپنی فرسودہ ٹریننگ اور سوچ کو چھوڑنا ہوگا۔ ماڈرن دنیا میں جدید سیکیورٹی کے نظام کو رائج کرنا ہوگا۔
آبسر تربت کا ایک علاقہ ہے۔ جہاں مختلف بازار (محلے) آباد ہیں۔ جن میں کولوائی بازار، بلوچی بازار اور دیگر شامل ہیں۔ آبسر ایک بلوچی لفظ ہے جس مطلب پانی کا سر،جہاں مختلف بارانی ندیاں گزرتی ہیں اور تربت شہر کو سیراب کرتی ہیں۔ ان میں سب سے بڑی ندی دو کورم کور (ندی) اور دوسری آب در کور (ندی) ہے۔ جو پہاڑوں سے بارشوں کے موسم میں پانی لاتی ہے۔ دو کورم کور (ندی) آبسر کے بعد سنگانی سر کے علاقے سے ہوتی ہوئی کیچ کور (ندی) میں جا ملتی ہے۔ اس ندی کی وجہ سے پورا علاقہ زرخیز ہوتا ہے۔
دو کورم کورعلاقہ شہر سے اونچا ہے۔ جہاں پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہے۔ دو کورم بلوچی میں دو تالاب کو کہتے ہیں۔ اس کور (ندی) میں دو قدرتی تالاب ہلنگ کے مقام پر آج بھی ہیں۔ جہاں کئی مہینوں تک پانی جمع ہوتا ہے۔ اس بارانی ندی پر زیارت شریف کے مقام پر ایک ڈیم بھی تعمیر کیا گیا۔
جس کی وجہ سے پورے تربت شہر میں پانی کالیول کسی حد تک اوپر ہوا ہے۔ لوگوں نے اپنے اپنے باغات میں چھوٹے چھوٹے واٹر پمپ نصب کئے ہیں، اور زراعت سے اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ جبکہ آب درک ندی بھی آبسر کو سیراب کرتے ہوئے کیچ ندی میں جاگرتی ہے۔
حیات بلوچ کا خاندان بھی زراعت کے شعبے سے منسلک ہے۔ وہ بھی دیگر بچوں کی طرح فارغ اوقات میں اپنے والدین کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ اس طرح ان کی گزر بسر ہوتی تھی۔ ان کا خاندان کولوائی بازار کا رہائشی ہے۔ اس بازار (محلہ) کا نام کولوائی بازار اس لئے پڑا کیونکہ یہاں کے لوگ مکران کے علاقے کولواہ سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے ہیں۔ یہاں کے لوگ اپنے ناموں کے سامنے کولوائی بلوچ بھی لکھتے ہیں۔
کولواہ کا علاقہ مکران کے دو اضلاع میں پھیلاہوا ہے۔ جن میں ضلع آواران اور ضلع کیچ شامل ہیں۔ اس کا بیشتر علاقہ ضلع آواران میں آتا ہے۔ کولواہ ایک بڑی تاریخ رکھتا ہے۔ جو بلوچ قوم کے تمام قبائل کی جنم بھومی ہے۔ جن میں رند، جتوئی، لاشاری، کورائی اور ہوت شامل ہیں۔ موجودہ آواران کا پرانا نام بھی کولواہ تھا۔ اس پورے علاقے کو آواران کے بجائے کولواہ کہتے تھے۔
بلوچ تاریخ کے مطابق سردار میر جلال خان بلوچ تمام بلوچ قبائل کے سردار تھے جو گیارہویں عیسوی میں کرمان کے پہاڑوں اور لوط کے ریگستان میں سے ہوتا ہوا۔ کولواہ کو اپنا مسکن بنایا۔ جہاں ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی۔ چار بیٹوں میں رند، کورائی، لاشار اور ھوت جبکہ بیٹی جتوئی شامل تھی۔ آگے چل کر چودھویں صدی کے آخر میں رند کی اولاد سے میر چاکر خان رند پیدا ہوا۔سردار میر چاکر رند خود بھی بہادر تھے اور بہادر دوستوں ہی کی نہیں بلکہ دشمنوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور بقول میر چاکر "بہادروں کا انتقام بھی مجھے پیارا ہے جو میرے اونچے قلعوں پر حملہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں” میر چاکر خان کولواہ مکران کے قیام کے دوران اپنی ابھرتی جوانی میں ہی قوم میں مقبول ہو گئے تھے۔ قلات پر حملے کے دوران بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔ میر شہک کے انتقال کے بعد پورے رند علاقوں کا حکمران انکا بیٹا میر چاکر تھا۔ قلات کے بعد ان کی سلطنت پنجاب تک پھیل گئی۔
چاکر خان رند نے ظلم و زیادتی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ انصاف فراہم کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ جب شیرشاہ سوری نے مغل شہنشاہ ہمایوں کو شکست دے کر ہندوستان پر اپنی حکمرانی قائم کی۔ مغلیہ سلطنت کے بادشاہ ہمایوں تو میر چاکر خان کے دربار میں مدد لینے کے لئے حاضر ہوا۔ اور اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے ازالہ کے لئے چاکر خان کو مدد کی درخواست کی۔ اس زیادتی اور ناانصافی کے خلاف چاکر خان رند نے ان کا ساتھ دیا اور انہیں دوبارہ تخت پر بٹھادیا۔ بعدازاں مغلیہ سلطنت چارسوسال تک جاری رہی۔ چاکر خان نے اپنے آخری ایام اوکاڑہ (پنجاب) شہر میں گزارے۔ جہاں آج بھی میر چاکر خان رند کا مقبرہ بھی خستہ حالت میں موجود ہے۔
حیات کولوائی کی فیملی کا تعلق بھی میر چاکر خان رند کے علاقے کولواہ سے ہے۔ ایک زمانہ تھا جب کولوائی بلوچوں نے ظلم و جبر کے خلاف برصغیر کا تخت فتح کیا۔ حق دار کو اس کا تخت دلایا۔ آج ستم ظریفی یہ ہے کہ بےگناہ اور معصوم کولوائی نوجوان کو دن کے روشنی ان کے والدین کے سامنے قتل کردیا جاتا ہے۔ اس قومی سانحہ کے خلاف آج بلوچستان اور سندھ سمیت دیگر شہروں کے لوگ سوگوار ہیں۔ ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔ شمعیں روشن کی جارہی ہیں۔ ان ریلیوں کی کوریج کے لئے نام و نہاد قومی پریس اندھا اورگونگا ہوچکا ہے۔ ایک سنگل کالم خبر تک نہیں چھپ رہی ہے۔ اور نہ ہی الیکٹرونک میڈیا میں خبر نشر ہورہی ہے۔ صرف سوشل میڈیا پر خبروں کا بھرمار ہے۔ عوام اپنی کوریج خود کررہی ہے۔ عوام کا قومی پریس پر اعتماد ختم ہوچکا ہے۔ جس کے باعث سوشل میڈیا نے قومی پریس کی جگہ لے لی۔ عوام نے واٹس ایپ، فیس بک اور ٹوییٹر کا رخ کرلیا۔ اگر یہ کہا جائے غلط نہیں ہوگا کہ قومی پریس ریڈ لائٹ کی زینت بن چکا ہے۔
تاہم ابھی معاشرہ زندہ ہے۔ ابھی معاشرتی اقدار ختم نہیں ہوئے ہیں۔ عوام باشعور ہے۔ شاید ارباب اقتدار کو عوام کی طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔ حالانکہ 1971 میں بھی ایک عوامی سیلاب آیاتھا۔ جو ملک کے آدھے حصے کو لے ڈوبا تھا۔ ماضی کے غلطیوں سے حکمرانوں نے کچھ نہیں سیکھا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک ایک اور عوامی سیلاب کا متحمل ہوسکتا ہے؟۔

%d bloggers like this: