دسمبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گزیٹئیرڈیرہ اسماعیل خان 1882-1884 میں شائع ہوا تھا ۔ یہ دستاویز انگریز سرکار نے اپنی نگرانی میں تیار کروائی تھی جس میں ڈیرہ اسماعیل خان کے مختلف زاویوں سے اعدادوشمار اکٹھے کئے گئے۔ عباس سیال نے اسکا ترجمہ کیا ہے ،قسط وار ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے دریا پارعلاقے کی حد بندی

ضلع ڈیرہ کے دریا پار کاخطہ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ 110میل کی چوڑائی پر محیط ہے۔یہ شمال کی طرف سے کافی چوڑا ہے جہاں سے اس کی اوسطاً چوڑائی 50 میل ہے مگر جنوب کی سمت کوہ سلیمان کے ساتھ ساتھ یہ میدانی علاقے کی شکل میں سکڑتا چلا جاتا ہے۔ڈیرہ فتح خان کے قریب ا س کی چوڑائی انتہائی کم رہ کر صرف 20 میل تک رہ جاتی ہے،مگر جنوب کی سمت آگے چل کر یہ پھر سے پھیلنے لگتا ہے اور ڈیرہ غازی خان کے قریب اس کی چوڑائی کافی زیادہ ہو جاتی ہے۔یہاں پر دونوں اضلا ع کی خود مختار حد بندیاں (ضلع بندیاں) قائم کی گئی ہیں۔ان ضلع بندیوں میں برطانوی حکومت نے دو دفعہ تبدیلیاں کیں۔پہلی بار 1866 میں جب وہووا سمیت کیتھرانی قبائل کے بیشتر علاقے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں شامل کیے گئے اور پھر 1871 میں جب علاقہ ٹبی سمیت کچھ قیصرانی علاقے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے ضلع ڈیرہ غازی خان کو منتقل ہوئے۔

ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی مشرقی جانب بہتے سندھ دریا کے دوسرے کنارے پراُروار کا علاقہ ہے، جو کوئی 100 میل طویل اور 70میل چوڑا بنتا ہے۔ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کا کافی رقبہ ” اُوار/دریا وار/تھل“ پر مشتمل ہے۔

ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی ظاہری شکل و صورت

اس ضلع کو اگر نقشے کی مدد سے بغور د یکھا جائے تو یہ قریب قریب کتاب کے صفحے کی طرح لمبا اور کسی قدر چوڑا دکھائی دیتا ہے۔مستطیل کی شکل کے اس ضلعے کو دریائے سندھ نے دو حصوں (دریا وار اور دریا پار) میں تقسیم کر رکھاہے۔

یہ ضلع شمال مغربی اور مغربی جانب اونچے پہاڑوں سے گھرا ہو اہے اور نسبتاً کم چوڑا ہے۔جنوب کی طرف یہ کافی کھلا اور مشرقی جانب یہ صوبہ پنجاب کے میدانی علاقوں سے ملا ہو ا ہے۔اس کی مشرقی جانب کا حصہ کافی ہموار ہے۔اس کی ضلعی حدود متعین کردہ ہیں۔ اس کی سرحدوں کا انحصار نہ ہی قدرتی رکاوٹوں اور نہ ہی نسلی امتیاز پر مبنی ہے۔کوہ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ جو ایک لکیر کی طرح پھیلا ہو اہے، برطانوی حکومت اور افغانستان کیلئے سرحد کا کام دیتا ہے۔کوہ سلیمان کے آگے بھی کچھ ٹیڑھی میڑی پہاڑیاں شمالا جنوباً پھیلی ہوئی ہیں۔یہاں پر تخت سلیمان کے نام سے انتہائی اونچا پہاڑی مقام بھی واقع ہے۔تخت سلیمان کے شمالی اور جنوبی حصے کی بلندی 11,295اور 11,070فٹ ہے اور اس کی بیشتر پہاڑی سنگلاخ و چٹیل ہے، جس پر کچھ نہیں اگتا،مگر اس کے باوجو دیہ ایک صحت افزاء مقام ہے۔تخت سلیمان کے بارے میں کرنل میک گویجور لکھتے ہیں کہ جب کسی روشن دن میں سورج اپنی شعاعیں ان سنگلاخ چٹانوں پرتاک تاک کرپھینکتا ہے تو یہ منظر واقعی دلکش ہوتاہے۔حقیقت میں یہ چٹانیں کسی تیز چھری کی نوک کی طرح تیکھی اورنوک دار ہیں۔درختوں کی کمیابی کے ساتھ ساتھ پانی کی نایابی بھی یہاں کا خاصا ہے۔تخت سلیمان کی چوٹی کے ایک طرف چھوٹی سی ہموار سطح زمین بھی واقع ہے جہاں پر دریائی پانی سے کھیتی باڑی کی جاتی ہے۔

کوہ سلیمان کی وادی چاروں جانب پہاڑوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔مشرق سے مغرب کی جانب چند مقامات کو چھوڑ کر باقی کا راستہ انتہائی دشوار گزار ہے،مگر شمالاً جنوباً اونچائی کم ہونے کے ساتھ ساتھ گزرگاہ اور آمدورفت ممکن ہے،خصوصاً اس پہاڑ کی پہلی اور دوسری قطاروں کے درمیان آمدورفت کے قدرتی راستے بھی بنے ہوئے ہیں۔یہ راستے اتنے وسیع ہیں کہ ان کے درمیان سے فوج کی پوری کیولری باآسانی گزر سکتی ہے۔یہ کھلا راستہ دراصل تحصیل ٹانک سے درہ بین کی طرف کاہے،جو جنوب تک چلا گیاہے۔پہاڑوں کے درمیان بنے ایسے قدرتی راستوں کو درہ کہتے ہیں۔ڈیرہ میں دروں کے اردگرد بسے قبائل اسے اپنے ناموں سے پکارتے ہیں جیسا کہ بلوچ اسے توکھ،گنڈ ہ پور اسے پاستہ،استرانہ قبائل اسے رگلیا،بابڑ اور بھٹنی اسے بند کہتے ہیں۔جبکہ ایک اور نام ”شیمائی“ بھی کافی استعمال کیاجاتا ہے۔

(جاری ہے)

یہ بھی پڑھیے: پیش لفظ گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔عباس سیال

سلسلہ وار گزیٹیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔ عباس سیال

جاری ہے۔۔۔۔۔

About The Author