مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’صحافت بھی تو ستھری نہیں رہی‘ ۔۔۔عفت حسن رضوی

صحافت میں لفافہ بھی ایک چیز ہوتا ہے، یہ لفافے سفید بھی ہوتے ہیں اور خاکی بھی۔ چند ایک لفافے نہیں بلکہ ماہانہ لیتے ہیں۔ کچھ ایک ہی بار میں وصولی کر لیتے ہیں تو کچھ لین دین کا پکا اکاؤنٹ عمر بھر چلانے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔

‘ارے لوگو ! دیکھو تو سہی یہ قاتل پروڈیوسر لڑکیوں کو بلیک میل کرتا تھا، پیسے بٹورتا تھا‘، ایک صحافی مزید کہنے ہی والا تھا کہ دوسرا  بولا ’کیوں جی  بھول گئے کیا تم  معروف اینکرز اور نیوز چینل مالکان کو لڑکیاں فراہم  نہیں کرتے رہے؟‘ تیسرے نے بیچ میں ٹہوکا دیا ‘مگر تم دونوں جس چشمے سے سیراب ہوئے  وہ تو ایک ہی ہے‘۔

یہ گفتگو بلکہ کیچڑ اچھالنے والی باتیں کتنی دلچسپ معلوم ہوتی ہیں، سنی سنائی باتیں چلتے چلتے ایسی مستند ہو جاتی ہیں کہ بڑے سے بڑا سچ ان کے سامنے ٹک نہیں پاتا۔ اوچھے کرتوتوں  سے پردہ اٹھاتی خبریں چلتی بھی خوب ہیں۔  لوگ چسکے لیتے ہیں۔ مزہ اس وقت دوبالا ہوجاتا ہے، جب اسی شام کے اخباروں والی خبریں خود صحافیوں کے بارے میں ملتی ہیں۔

جب معاشرے کا ایک بڑا حصہ بدعنوان ہو جائے تو جج، جرنیل، جرنلسٹ یا سیاسی جماعتیں کوئی بھی اس ’گند‘ سے مکمل صاف نہیں رہ سکتا۔ عوام کا شکوہ ہے کہ جج کو پوچھو تو عدلیہ کی آزادی، صحافی کو  چھیڑو تو آزادی اظہار رائے اور سیاستدان کو  پکڑو تو جمہوریت  کی آزادی خطرے میں پڑ جاتی ہے جبکہ جرنیلوں سے باز پرس  ہو، یہ وہ ہونے نہیں دیتے۔ تو پھر گندے انڈے کیسے پھوٹیں؟ کالی بھیڑیں کیوں کر شناخت کی جائیں؟

صحافیوں کو ہی لے لیجیے ، مجھ سمیت ہر صحافی اپنے ساتھی صحافیوں کو اچھے سے جانتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ زیادہ تر سچے، کھرے اور دیانت دار صحافی اپنے  گھر کا  کرایہ تک بمشکل دے پاتے ہیں مگر اسی صحافت میں ایسے  نام نہاد صحافی  بھی ہیں، جن کے اللے تللے ان کی تنخواہ میں ممکن ہی نہیں۔

اس سے انکار نہیں کہ صحافت میں لفافہ بھی کوئی چیز ہوتا ہے، یہ  لفافے سفید بھی ہوتے ہیں اور خاکی بھی۔  چند ایک ہیں جو  لفافے  نہیں  ماہانہ لیتے ہیں۔ کچھ ایک ہی بار میں وصولی کرلیتے ہیں تو کچھ   لین دین کا پکا اکاؤنٹ عمر بھر کھلا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

صحافت کی کالی بھیڑوں کے قصے  نیوز روم ، سیاسی پریس کانفرنسز، پریس کلب ہر جگہ موضوع بحث ہوتے ہیں مگر کبھی عوام کے سامنے نہیں لائے جاتے۔ عوام کو کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں ہوتا کہ ایک صحافی کے پاس  اسلام آباد کے کئی ڈھابوں کے ٹھیکے ہیں، ایک صحافی  اپنے شیشہ کیفے چلاتا ہے، ایک صحافی  پر کئی برس تک یوٹیلیٹی اسٹور سے مفت راشن لینے کا الزام ہے، ایک صحافی پر سستے دام پٹرول پمپ خریدنے کا الزام ہے،  صحافیوں کو سستے میڈیا ٹاون کے نام پر صحافی ہی جھانسا دیتے ہیں۔ کتنے ہی صحافی سرکاری املاک  پر برسوں قبضہ کیے رہتے ہیں۔

صحافی اپنے ان ساتھیوں کو بھی جانتے ہیں، جو بدعنوان پولیس والوں کے سانجھے دار ہوتے ہیں۔ صحافی ان دوستوں کو بھی پہچانتے ہیں جو صحافت میں ہوتے ہوئے  مختلف سیاسی جماعتوں  کے تنخواہ دار ہیں۔ وہ بھی صحافی کہلاتے ہیں جو ریاستی اداروں کے پے رول پر ہیں اور کمیونٹی ان صحافیوں کو بھی جانتی ہے جو ڈپلومیٹک انکلیو  صرف خبریں لینے ہی نہیں جاتے۔

صحافیوں میں ایک اور بھی قسم ہے، یہ ہیں چھاپہ مار صحافی، بلیک میلر صحافی۔ یہ گندے ریستوران، غلیظ بیکریوں، دو نمبر فیکٹریوں، ملاوٹ کرنے والے گوالوں پر چھاپے مارتے ہیں۔ یہ رہائشی علاقوں میں چلنے والے جدید قحبہ خانوں کے پتے جانتے ہیں۔ ایسے ہی ایک چھاپہ مار کرائم شو کی ایک خاتون اینکر نے تو مجھے بذات خود بتایا کہ کیسے  چینل کی گاڑی میں چھاپے سے برآمد مال رکھوایا گیا اور کیسے موقع واردات سے پکڑی گئی کال گرلز غائب کردی گئیں۔

الیکٹرانک میڈیا کے سے بہت پہلے ہی پرنٹ میڈیا کے بعض معروف اور غیر معروف اخبارات  پاکستان میں بڑی تسلی سے صحافت کا خانہ خراب کرچکے ہیں۔ مفت غیر ملکی دورے اور  سرکاری اشتہار حاصل کرنے کے لیے بنائے گئے ڈمی اخبارات کی لمبی فہرست ہے۔ انہیں تو رکھیں ایک طرف، اخبارات جنہیں حکومت پاکستان  بیورو آف سرکولیشن کی تصدیق حاصل ہے ان  میں سے کئی بلیک میلنگ کو اپنا ذریعہ آمدن بنائے ہوئے ہیں۔

ہمارے ایک سینیئر صحافی بتاتے تھے کہ کیسے ان کا اخبار خشک دودھ کی معروف کمپنی کے خلاف مہم چلاتا رہا پھر ساز باز ہو گئی تو مہم بھی ختم کردی گئی۔ ایسے ہی خود میں نے ایک نیوز  چینل میں کام کیا، جس کی انتظامیہ  کو بحریہ ٹاون کے خلاف خبروں میں خاص دلچسپی تھی۔  میں سپریم کورٹ سے معمول کی خبروں کے ساتھ اس رہائشی پراجیکٹ کے خلاف مقدمات کی خبریں بھی فائل کرتی تھیں۔ پھر ایک دن علم ہوا کہ یہ اشتہار حاصل کرنے کا ایک طریقہ تھا۔

نیوز میڈیا انڈسٹری میں خواتین  کو ہراساں کیے جانے کے واقعات  پر پوری ایک الگ کتاب   لکھی جاسکتی ہے۔ کیا  اینکر، کیا رپورٹرز، کیا پروگرام ریسرچرز۔ شکایت سب کو کسی نہ کسی مرحلے پر ہوتی ہے، کوئی  خاتون چیخ اٹھتی ہے کوئی بولتی نہیں، کڑوا گھونٹ پی جاتی ہے  اور کوئی  مرد افسران کی اس کمزوری  کو اپنی کامیابی کی سیڑھی بنا لیتی ہے۔

 صحافت کے نام پر  کرپٹ افراد اپنے الو سیدھے کرنے میں لگے ہیں۔ قصے ہزار ہیں کیا کیا سنایا جائےِ؟ لیکن جب کبھی صحافیوں کو لفافے کی گالی دینے کا جی چاہے تو اکثریت میں موجود ان صحافیوں کو نہ بھولیے گا، جو بچوں کے اسکول کی فیسیں قرض لے کر بھرتے ہیں۔ وہ سچے صحافی جو  کئی کئی  ماہ بغیر تنخواہ ادھار پر گھر چلا رہے ہیں، وہ دیانت دار صحافی جو بکنے کو تیار نہیں مگر اپنی تنگ دستی میں بھی عزت بنائے بیٹھے ہیں۔

%d bloggers like this: