مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے غلط بیانی سے کام لیا؟ ۔۔۔ ظہوردھریجہ

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میری مخدوم شاہ محمود قریشی سے کوئی ذاتی مخالفت نہیں ، اختلاف صوبے اور سول سیکرٹریٹ کے مسئلے پر ہے
صوبائی وزیر ڈاکٹر اختر ملک نے اراکین اسمبلی کے ہمراہ ملتان پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وسیب کے 54 اراکین اسمبلی میں سے 40 نے ملتان سول سیکرٹریٹ کے بارے میں فیصلہ دیا ہے ۔ مخدوم شاہ محمود قریشی ملتان سول سیکرٹریٹ کے حق میں ہیں ،انہوں نے کہا کہ سول سیکرٹریٹ بہاولپور بنانے کے بارے میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے غلط بیانی سے کام لیا ۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے 11 مارچ 2020 ء اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے خود اعلان کیا تھا کہ جنوبی پنجاب سول سیکرٹریٹ بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری بہاولپور بیٹھے گا اور ایڈیشنل آئی جی ملتان میں ۔
سول سیکرٹریٹ بہاولپور میں بنانے کا فیصلہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری کا نہیں اور نہ ہی انہوں نے کسی غلط بیانی سے کام لیا بلکہ یہ فیصلہ حکومت کا ہے جس پر ایڈیشنل چیف سیکرٹری عمل درآمد کر رہے ہیں ۔ ڈاکٹر اختر ملک کا یہ کہنا بھی درست نہیں کہ مخدوم شاہ محمود قریشی ملتان میں سول سیکرٹریٹ بنانے کے حق میں ہیں ، اگر ایسی بات تھی تو انہوں نے خودبہاولپور میں سیکرٹریٹ اعلان کیوں کیا؟
اب جبکہ سوشل میڈیا پر دباؤ بڑھا ہے تو لوگوں کو اعتماد میں لینے کیلئے ایسی باتیں کی جا رہی ہیں، الٹا یہ ہو رہا ہے کہ وزراء کی نادانی کے باعث ملتان ، بہاولپور کے درمیان تنازعہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور وسیب میں ہر آئے روز احتجاجی جلوس نکل رہے ہیں۔
حالانکہ تحریک انصاف کا وعدہ سول سیکرٹریٹ نہیں صوبے کا تھا ، جسے پسِ پشت ڈالنے اور ملتان بہاولپور کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ صوبائی وزیر ڈاکٹر اخترملک کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان کو بھی وسیب کے اراکین اسمبلی نے اپنے موقف سے آگاہ کر دیا ہے ، لیکن ایک سوال یہ ہے کہ وزیراعظم اس مسئلے پر کیوں خاموش ہیں؟ وزیراعلیٰ سردار محمد عثمان بزدار گزشتہ روز ملتان آئے ، ضروری تھا کہ وہ اس مسئلے پر میٹنگ کرتے ،مقامی اراکین اسمبلی کو بلا کر مشاورت کرتے ، اس بارے میں لائحہ عمل تیار کرتے ، لوگوں کو اعتماد میں لیتے کہ ان کی حکومت کہاں سول سیکرٹریٹ بنانا چاہتی ہے ، سول سیکرٹریٹ کی حدود کیا ہونگی اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے پاس کیا اختیارات ہونگے ؟
یہ بھی بتاتے کہ حکومت اپنے اصل وعدے صوبے کے قیام کیلئے کیا اقدامات کر رہی ہے ؟ وزیراعلیٰ نے ملتان میں اس طرح کا کوئی اجلاس نہیں بلایا ، محض ہسپتال کا دورہ کیا اور طبی سہولتوں کے ساتھ ساتھ نشتر ٹو میں کام کی رفتار تیز کرنے کی ہدایت جاری کی ۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ملک احمد حسین ڈیہر نے کہا کہ ملتان کو سول سیکرٹریٹ سے محروم کرنے کے ذمہ دار وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی ہیں ۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میری مخدوم شاہ محمود قریشی سے کوئی ذاتی مخالفت نہیں ، اختلاف صوبے اور سول سیکرٹریٹ کے مسئلے پر ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کوئی مائنس ون نہیں ہو رہا ، مخدوم شاہ محمود قریشی کے اردگرد کے لوگ ہی مائنس ون کی باتیں کر رہے ہیں ۔
جاری بحث کے تناظر میں ایک بات یہ ہے کہ سول سیکرٹریٹ بہاولپور گیا ہے تو ملتان کے اراکین اسمبلی و تنظیموں کی آنکھ کھلی ہے ، صوبائی وزیر اختر ملک کی قیادت میں تمام اراکین اسمبلی مل کر پریس کانفرنسیں کر رہے ہیں ۔ قریباً نصف صدی سے صوبے کی تحریک جاری ہے ، ماسوا الیکشن ، کبھی ایک لمحے کیلئے بھی انہوں نے صوبے کی تحریک کا ساتھ نہیں دیا ۔
سوال یہ ہے کہ یہ اراکین اسمبلی پہلے کہاں تھے ؟ اگر شروع سے یہ ساتھ دیتے تو آج یہ صورتحال کیوں پیداہوتی؟ اب بھی وہ بھول رہے ہیں ، سول سیکرٹریٹ نہیں صوبائی سیکرٹریٹ کی بات کرنی چاہئے کہ سب سول سیکرٹریٹ صوبے کا متبادل نہیں۔ سول سیکرٹریٹ کا نہیں صوبے کا وعدہ ہوا تھا ۔ تحریک انصاف کی طرف سے الیکشن کمپین سول سیکرٹریٹ نہیں بلکہ صوبے کے نام پر چلائی گئی اور صوبہ محاذ کا عمران خان سے تحریری معاہدہ صوبے کا تھا نہ کہ سول سیکرٹریٹ کا ۔
صوبے کے لئے جدوجہد کرنے والی سرائیکی جماعتوں کے رہنماؤں نے گزشتہ روز ملتان پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وسیب کے لوگوں کو صوبہ اور شناخت چاہئے ، سی ایس ایس کا کوٹہ چاہئے ، صوبائی پبلک سروس کمیشن چاہئے ، ریونیو بورڈ چاہئے اور الگ ہائیکورٹ کے ساتھ ساتھ فوج میں وسیب رجمنٹ چاہئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ وسیب کے لوگ صرف صوبہ مانگ رہے ہیں ، اس سے وفاق پاکستان متوازن، مضبوط اور مستحکم ہو گا۔ مقتدر قوتوں کو اس پر غور کرنا چاہئے ۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وسیب کے لوگ سمجھتے ہیں کہ بہاولپور کا ایشو سازش کے تحت شروع کرایا گیا ۔ جس کا مقصد میانوالی، سرگودھا ،جھنگ، بھکر ، ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کو سرائیکی صوبے کے خلاف کرنا ہے ۔
سرائیکی وسیب کے لوگ عرصہ 50 سال سے جدوجہد کرتے آ رہے ہیں ، اگر سرائیکی وسیب کے لوگوں کو پاکستانی سمجھا جاتا ہے تو وہ اپنے وسیب کی مکمل حدود اور اپنی شناخت کے مطابق صوبہ چاہتے ہیں ۔ تحریک انصاف کے رہنما اور ممبر قومی اسمبلی ملک عامر ڈوگر کے چچا ملک لیاقت علی ڈوگر گزشتہ روز وفات پا گئے ، قل خوانی کے موقع پر بھی موضوع سول سیکرٹریٹ تھا ۔
ایک واقعہ یہ بھی ہوا ہے کہ سینئر سیاستدان اور ن لیگ کے رہنما مخدوم جاوید ہاشمی پر اداروں کے خلاف بات کرنے پر ایف آئی آر درج ہوئی ہے ، میں نے مخدوم صاحب سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں قربانی کیلئے تیار ہوں ، فوج میری اپنی ہے ، میں نے فوج نہیں بلکہ آئین توڑنے والوں کے خلاف بات کی۔ اس پر میں نے کہا کہ آپ نے ہمیشہ کرسی و اقتدار کی سیاست کرنے والے میاں نواز شریف کے لئے قربانی دی ، کبھی اپنے وسیب کے حقوق کیلئے بھی قربانی دیں ، اس پر وہ صرف مسکرا دیئے ۔
یہ صرف ایک مخدوم کی بات نہیں وسیب کے مخدوم ، وڈیرے ، سردار ، تمندار اور جاگیردار سب ہی ایسے ہیں ۔ یہی لوگ ہمیشہ بر سر اقتدار رہے ، آج بھی سب سے بڑا اقتدار وسیب کے پاس ہے مگر وسیب ہی حقوق سے محروم ہے۔

%d bloggers like this: