مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میں پولیس سے ناامید نہیں ہوں۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

ڑے بڑے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا رہا ہے ان کا ایکسپوژر زیادہ ہے لیکن میں اس معاملے میں ان سے اختلاف کی جسارت کروں گا۔

1992 میں پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) پر نشر ہونے والے ڈرامہ سیریل ’دھواں‘ سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے اداکار، ہدایتکار اور مصنف عاشر عظیم نے کچھ عرصہ قبل پاکستان چھوڑ دیا تھا۔ عاشر عظیم پاکستان کسٹمز میں ایک اہم عہدے پر تعینات تھے، لیکن کچھ ناگزیر وجوہات کی بناء پر انہوں نے اپنی ملازمت سے استعفیٰ دیا اور پھر پاکستان بھی چھوڑ دیا اور اب وہ کینیڈا میں ٹرک چلاکر گزر بسر کر رہے ہیں۔

حال ہی میں ان کا اک ویڈیو کلپ وائرل ہوا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ پولیس محکمہ کبھی بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا کیونکہ جان بوجھ کر اس میں اصلاحات نہیں لائی جاتیں تا کہ دوسرے محکمہ جات کی سپیس قائم رہے۔

عاشر عظیم سی ایس پی آفیسر رہے ہیں پھر انہوں نے فوج کے بہت سے پراجیکٹس پہ کام کیا ہے۔بڑے بڑے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا رہا ہے ان کا ایکسپوژر زیادہ ہے لیکن میں اس معاملے میں ان سے اختلاف کی جسارت کروں گا۔

اس لاک ڈاؤن کے دوران کچھ فرصت میسر آئی تو دوستوں یاروں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا خاندان اور دوست یاروں کے مسائیل علم میں آئے اور مقدور بھر ان کا ساتھ دینے کی بھی کوشش کی چند اک معاملات میں مجھے عام تفتیشی سے لے کر پولیس کے افسران بالا تک ملنے کے مواقع ملے اور پولیس سسٹم کو سمجھنے کا موقع ملا۔

اس سے پہلے کہ آپ میرے چند دن کے تجربے اور عاشر عظیم کے سالوں پہ محیط تجربے کا موازنہ کر کے ٹھٹھا اڑائیں میں آپ کو اک مثال سناتا ہوں

ایماوزون کے اپاچی قبیلے کا بزرگ سردار مر گیا جس کے بعد اک نوجوان کو سردار بنایا گیا اگلے دن سارا قبیلہ اکٹھا ہو کر نوجوان کے پاس پہنچا کہ سرداربتائیں اس دفعہ کیسی سردیاں پڑیں گی تاکہ اس کے مطابق ہم لکڑیاں اکٹھی کر سکیں۔نوجوان کو کچھ پتا نہیں تھا۔ اس نے اندازے سے کہا نارمل سردیاں ہوں گی مناسب تعداد میں لکڑیاں اکٹھی کر لو۔اگلے دن اس نے کنفرم کرنے کے لیے موسمیات کے محکمے کو فون کیا تو انہوں نے کہا اس بار زور کی سردیاں پڑیں گی۔سردار نے قبیلے کو مزید لکڑیاں اکٹھا کرنے پہ لگا دیا پھر محکمہ موسمیات سے پوچھا انہوں نے کہا شنید ہے کہ اس بار غضب کی سردیاں پڑیں گی اگلے دن سردار نے سارے قبیلے کو تمام کام روک کر لکڑیاں اکٹھا کرنے پہ لگا دیا۔سردار نے جائزے کے لیے محکمہ موسمیات کع فون کیا تو انہوں نے کہا کہ لگتا ہے اس بار ریکارڈ توڑ سردی پڑے گی نوجوان نے پوچھا آخر آپ کیسے پتا کر رہے ہیں تو آگے سے انہوں نے جواب دیا کہ اور تو ہمیں نہیں پتا ہم اپاچی قبیلے کی لکڑیوں کی تعداد سے اندازہ لگاتے ہیں اور اس بار سارا قبیلہ پاگلوں کی طرح لکڑیاں اکٹھی کر رہا ہے جس سے لگتا ہے زوردار سردی پڑے گی۔

تو دوستوں بعض اوقات عام افراد محکمہ جات سے بھی زیادہ علم رکھتے ہیں۔عاشر عظیم کا ایکسپوژر بطور اک افسر اک اداکار ہدایتکار اک سیلبرٹی کے ہے جبکہ راقم نے عام عوام کی مانند تجربہ حاصل کیا۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پولیس میں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے پولیس کے وسائیل کم اور مسائیل زیادہ ہیں مگر جب سے نوجوان افسران کی نئی کھیپ آئی ہے پولیس کے کلچر میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔

نوجوان ایس ایچ او ادریس خان کوٹ ادو میں تعینات رہے ان جیسے بہادر اور پروفیشنل افسر محکمہ کی شان ہیں۔پروفیشنل اور نجی کاموں کے لیے ان سے رابطہ رہا انہوں نے مقدور بھر کوشش کی کہ میرٹ پہ کام کریں جتنا ان سے ہو سکا انہوں نے کیا جب مجبور ہوئے تو لگی لپٹی کے بغیر بتا دیا کہ فلاں مجبوری ہے اس سے آگے وہ نہ کر پائیں گے۔ان کی صاف گوئی پسند آئی۔پھر ایسے نوجوان ٹیکنالوجی کے استعمال کو بہتر جانتے ہیں انہوں نے کوٹ ادو تعیناتی کے دوران ایسے کیسز ٹیکنالوجی کی مدد سے چند دنوں میں حل کیے جو سال سال بھر سے پینڈگ پڑے تھے۔حال ہی میں تعینات ہونے والے ایس ایچ او کوٹ ادو عبدالکریم کھوسہ کی اچھی شہرت پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔نڈر اور دباؤ میں آئے بغیر میرٹ کرنے کی شہرت کے حامل عبدالکریم کھوسہ کو بھی ویسا ہی پایا کھوسہ صاحب میرے دوست کامران قمر کے بیچ فیلو ہیں۔کامران قمر کی انسانیت پسندی سے پورا وسیب واقف ہے۔آئے دن کوئی نہ کوئی ان کی ایمانداری اور اچھے اخلاق کی گواہی دیتا نظر آتا ہے۔پھر ان نوجوانوں کے باس ڈی پی او مظفرگڑھ سید ندیم عباس وہ بھی اخلاق اور پروفیشنلزم میں اپنی مثال آپ ہیں۔چوک قریشی میں معذور افراد پہ تشدد ہوا ویڈیو موجود تھی پولیس نے سستی دکھائی ڈی پی او صاحب نے ایکشن لیا کوٹ ادو میں قبضہ ہو رہا تھا عدالتی سٹے کے باوجود اے ایس آئی بدمعاشی دکھا رہا تھا ڈی پی او صاحب کو فریاد کی گئی فوری ایکشن ہوا انہوں نے تھانوں میں سرپرائز وزٹ شروع کیے پولیس کے شہدا کے گھر گھر جا کر ان کو احساس دلایا کہ پولیس اپنے شہدا کو نہیں بھولی ابھی کل کا واقعہ سنیں تھانہ میر بیٹ ہزار خان میں اک بزرگ پہ منشیات کا ناجائز مقدمہ درج ہوا۔سید ندیم عباس نے نہ صرف جھوٹا پرچہ خارج کرایا بلکہ ملوث پولیس والوں کو مقدمہ درج کر کے اسی حوالات میں بند کر دیا۔

کاظم منیر عیسن والا کا چوکی انچارج ہے ناجائز مقدمات بدمعاشی سے فیول ڈلوانا اور مال مسروقہ مال غنیمت سمجھ کر بانٹنا جیسے واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات پہ ڈی پی او صاحب نے انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔امید واثق ہے جلد وہ بھی قانون کے کٹہرے میں ہو گا۔میں یہ نہیں کہتا کہ سارے پولیس والے ہی بہترین ہیں کالی بھیڑیں یقیناً موجود ہیں۔جیسے ڈی جی خان کے تھانہ کوٹ مبارک کے ایس ایچ او جعفر حبیب جس نے چوری کی بائیک دے کر اپنے مخبر کو بھیجا اور سعودی پلٹ عارف کو خریداری کے جرم میں گرفتار کر لیا اور اسے حوالات میں بند کرنے کی بجائے نجی عقوبت خانے میں رکھا۔جب راقم میڈیا کے دیگر نمائندگان کے ساتھ وہاں پہنچا تو ملزم وہاں موجود ہی نہیں تھا بعد میں خبر ملی کے ستر ہزار روپے رشوت لے کر اس کو چھوڑا گیا۔کل ملا کر بات یہ ہے کہ پولیس میں مسائیل ہیں کالی بھیڑیں ہیں رشوت ستانی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ پروفیشنلز کی بھی کمی نہیں جو پولیس کا مثبت امیج اجاگر کرنے میں کوشاں ہیں اور میں ان سے نا امید نہیں۔

%d bloggers like this: