مئی 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یار! ایک سو یا پچاس روپے دینا۔۔۔ مبشرعلی زیدی

تھوڑی بعد اٹھ کر چلا گیا۔ میں نے بار کے دفتر سے معلوم کیا تو اس کے اہلکار نے بتایا، اس نام کا کوئی وکیل بار کا رکن نہیں ہے۔

رشید مصباح کے ساتھ کوئی طویل عرصے تک ملنا جلنا نہیں رہا۔ لیکن جب بھی کہیں کسی محفل میں سامنا ہوا، اس نے ہمیشہ خود آگے بڑھ کر اپنی مخصوص بے دلی کے ساتھ گلے لگایا۔

ہم سب میں کمینگیاں موجود ہیں۔ رشید مصباح میں بھی تھیں۔ لیکن بہت معصومانہ اور بے ضرر۔ آپ اسے دو سال بعد ملتے، وہ آپ کا بازو پکڑ کے کونے میں لے جاتا اور بتاتا کہ کیسے ایک ٹیوشن سینٹر یا کاروبار میں اسے پچاس لاکھ یا پانچ کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔

گفتگو کے آخر میں کہتا، یار! ایک سو یا پچاس روپے دینا۔

ہم سب اپنے نظریات کھوچکے ہیں۔ لیکن رشید مصباح نظریے ہی کی وجہ سے لوگوں کو جانچتا اور سخت رائے دیتا تھا۔ منہ پھٹ تھا اور موقع محل دیکھ کر مغرور ہوجاتا تھا، جیسا کہ ہم سب ہوجاتے ہیں۔

الفاظ چبا چبا کر بولتا تھا تاکہ ان کی تلخی بڑھ جائے۔ اکثر بدرنگ پینٹ کوٹ اور عجیب و غریب رنگوں کی شرٹیں پہنتا۔

ایک بار لبرٹی مارکیٹ کے ایک ہوٹل میں کسی غیر سرکاری تنظیم نے بین المذاہب ہم آہنگی پر ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ وہاں پادری، مولوی، کچھ مذہبی سیاسی رہنما اور سول سوسائٹی ایکٹوسٹس موجود تھے۔ اور بہت سے لوگوں کے ساتھ رشید مصباح بھی موجود تھا۔

جب پادری اور مولوی وغیرہ بات کرچکے تو رشید مصباح نے مذہبی ہم آہنگی پر بولنے کے بجائے سرے سے مذہب ہی کے خلاف خطاب کر ڈالا۔ حاضرین حیران پریشان کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ میں تو خیر ڈر کے مارے ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکال سکا۔

جب چائے کا وقفہ ہوا تو رشید مصباح نے مجھے موقع پرستی کے طعنے دیئے اور ساتھ نہ دینے پر مطعون کیا۔ میں نے اپنی روایتی بزدلی کے بارے میں بتایا لیکن وہ نہ مانا۔ وہ ہر وقت توجہ حاصل کرنے کا خواہش مند رہتا تھا اور جب خواہش کے مطابق توجہ نہیں ملتی تھی تو رولا ڈال دیتا تھا۔

میں نیا نیا وکیل بنا اور روز رات کو فیملی ہسپتال کے بالمقابل دفتر بند کرکے پیدل پرانی انار کلی پہنچتا۔ چائے خانے میں دوست منتظر ہوتے۔ میں انہیں ریڈیو پر سنی ہوئی عالمی نشریاتی اداروں کی خبریں سناتا۔

ایک بار رشید مصباح نے ایک کونے میں لے جاکر سو روپے طلب کیے۔ میرے انکار پر خفا ہوگیا۔ واپس گھر پہنچا تو ایک گھنٹے بعد دوستوں کے فون آنے شروع ہوگئے کہ رشید مصباح بتارہا تھا کہ یہ تو جعلی وکیل ہے۔ اس کے پاس تو ایک سو روپے تک نہیں ہوتے۔

اس وقت میری رہائش ساندہ میں تھی۔ میں بھاگم بھاگ انارکلی پہنچا، اسے تلاش کیا اور سو روپیہ نذر کیا۔

ہمارے دوست طارق جاوید ڈسٹرکٹ بار کی صدارت کا الیکشن لڑرہے تھے اور میں ان کے سپورٹرز میں شامل تھا۔ ایک دن رشید مصباح ضلع کچہری میرے دفتر آیا۔ ہاتھ میں وکیلوں والا لفافہ پکڑا ہوا تھا۔

کہنے لگا، یار میں نے وکالت شروع کردی ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تو بہت اچھا کیا۔ اس نے کہا کہ طارق الیکشن میں حصہ لے رہا ہے۔ اس سلسلے میں کوئی کام ہو تو بتاؤ۔ میں نے کہا کہ شام کو میٹنگ کرکے کام تقسیم کریں گے۔

تھوڑی بعد اٹھ کر چلا گیا۔ میں نے بار کے دفتر سے معلوم کیا تو اس کے اہلکار نے بتایا، اس نام کا کوئی وکیل بار کا رکن نہیں ہے۔

لیکن پھر وہ دیوانی مقدمے بک کرنے لگا۔ معمولی اجرت پر مجھ سے دعوے جات کی ڈرافٹنگ کروالیتا تھا اور ہر بار انارکلی بازار کی رونق و عظمت کی قسم کھاکر وعدہ کرتا کہ وہ ایک لا کالج قائم کرنے والا ہے جہاں مجھے انٹرنیشنل لا پڑھانا پڑے گا۔ شرط یہ ہے کہ میں اس سے رابطے میں رہوں اور اس کے مقدمے بھگتا دیا کروں۔

میں انھیں دنوں وکلا برادری کے تعاون سے اور والدین کی مرضی کے خلاف پسند کی شادی کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ ساندہ خورد میں کرائے کا گھر لے لیا۔ ہفتے دس دن بعد انارکلی کا چکر لگالیتا۔

ایک رات اس نے دکھ بھرے لہجے میں بتایا کہ وہ دنیا میں تنہا رہ گیا ہے۔ اچانک اس کی بیوی اسے ہمیشہ کے لیے چھوڑکر چلی گئی ہے۔ بچے نفرت کرنے لگے ہیں۔

مزید یہ کہ اس کے حقیقی برادر خورد نے لین دین کے جھگڑے میں اس پر ڈنڈے سے حملہ کردیا۔ وہ سخت مضروب ہوکر گنگا رام اسپتال داخل رہ کر آیا ہے۔ ان دنوں رسالہ بازار کی ایک کھولی میں مقیم ہے۔ سردی برداشت نہیں ہوتی۔ ایک لحاف درکار ہے۔

میں ہامی بھرنے ہی والا تھا کہ اس نے پورے تیقن سے انکشاف کیا کہ اس کے فیملی کرائسس کی ذمے دار امریکی سی آئی اے اور اپنی آئی ایس آئی ہے۔ دونوں ادارے برسوں سے اسے نشانہ بنانے کا سوچ رہے تھے اور اب وار کر گزرے ہیں۔

ایک شام میں چوک جین مندر کی اکیڈمی میں چار گھنٹے ٹیوشن پڑھاکر پرانی انارکلی پہنچا۔ بازار چاند چہروں سے سجا ہوا تھا۔ مقامی اور غیر ملکی سیاح، جن میں لمبی داڑھیوں والے سکھ بھی تھے، مزے سے گھوم رہے تھے۔

چائے خانے پر دوستوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ دس بارہ کامریڈ رشید مصباح کے گرد سر جھکائے ہمہ تن گوش تھے۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی موصوف نے سلسلہ کلام روک دیا اور گویا مائیک مجھے دیتے ہوئے کہا کہ پہلے اس سے ریڈیو کی تازہ خبریں سن لیتے ہیں۔

میں نے چھوٹتے ہی خبر دی کہ ریڈیو پاکستان نے موسم کا حال بتایا ہے کہ اس وقت شہر لاہور میں درجہ حرارت صفر ہوچکا ہے۔ اتنا سننا تھا کہ سب ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ بہتوں نے سروں پہ کنٹوپ چڑھالیے۔ دو لاہوریوں نے قریبی پھل فروش کے خوانچے سے لکڑی کی پیٹی توڑ کر الاؤ سلگا لیا۔

بعض زندہ دلان نے خبر کے حق میں توثیقی بیانات داغے۔ ایک بزرگ کو اپنے دادا کی یاد ستائی کہ وہ بھی ریڈیو سن کر بہو بیٹوں کو موسم کا حال بتا دیا کرتے تھے۔ ایک ریٹائرڈ بینک افسر بٹ صاحب نے مجھے رحمت ملک شاہ چل کر دودھ جلیبی کھانے کی دلکش پیشکش کردی۔ میں ان کے ہم رکاب چل پڑا۔

چند لمحوں میں رشید مصباح کے سامعین غائب غلہ ہوگئے۔ بھریا میلہ اجڑ گیا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ترچھی نظر سے مجھے دیکھ کر خود کو موٹی سی گالی دی اور کہا،

"تیرا قصور کوئی نہیں سی۔ میں ایک گھنٹے توں منڈیاں نوں روح عصر تے لیکچر دے ریا ساں۔ میں آپ ای اڑدا تیر لے بیٹھا ہاں۔”

خاکسار کر بھی کیا سکتا تھا سوائے ڈکار مار لینے کے۔

عابد ساقی نے ایک سال نسبت روڈ پر دیال سنگھ لائبریری کے قریب بسنت کا میلہ سجایا۔ ایک حویلی تھی جس کی عمارت نہایت شوق آفریں تھی۔ مقامی اور غیر ملکی مہمانان گرامی رونق دکھا رہے تھے۔ پرتکلف عشائیے کا اہتمام تھا۔

تیسری منزل پر نہایت شریفانہ پتنگ بازی جاری تھی جبکہ اردگرد زندہ دلان لاہور نے ادھم مچا رکھا تھا۔ پیغام ملا کہ دوست ایک ایک کرکے ہال کمرے میں ہوتے جائیں کہ جہاں "حوضے قوسر” اور جنت کا ایک فرشتہ رندوں کا منتظر ہے۔

خاکسار نے شرماتے ہوئے ہال کمرے کا رخ کیا۔ پہلی جھانک میں ایک عینک اور چمکتی گنج نے اونچی آواز میں میرا نام پکارا، او چھیتی اندر آ۔ مال بڑا ودھیا ای۔ بلا شک و شبہ وہ رشید مصباح ہی تھا۔

جو لوگ اسے پسند ہوتے، ان کی حمایت کرنے کے لیے وہ ہر حد تک چلا جاتا۔ ایک بار مجھے راولپنڈی کے حلقہ ارباب ذوق میں مضمون پڑھنا تھا۔ دشمنوں نے خاص طور پر ایک رجعت پسند کی صدارت رکھوائی اور مخالفت میں بولنے کے لیے ایک دو صاحبان کو خصوصی ٹیکسی کروا کے لائے۔

لیکن رشید مصباح وہاں میرے ساتھ موجود تھا۔ صلاح الدین درویش اور روش ندیم بھی۔ بہت گرما گرمی ہوئی۔

اس کے مرنے کی خبر سن کر بار بار دل چاہا کہ اسے فون کروں۔ اس کے بارے میں احساسات بھی اس کی شخصیت جیسے عجیب ہیں۔

اس کی موت سے ادب کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ ہمارا ادب رہا ہی کیا ہے جسے نقصان ہو؟ زندگی کی چلتی ندی میں نقصان اگر کوئی ہے تو صرف یہ کہ رشید مصباح جیسی لہریں آنے کا اب امکان نہیں رہا۔

بہت دلچسپ انسان تھا رشید مصباح۔

۔

(یہ تحریر جناب یاسر جواد کی وال پر ان کے، لیاقت علی اور شہزاد بھٹی کے کمنٹس سے کشید کی گئی ہے۔ تین مختلف شخصیات کی یادداشتوں کو ایک خاکے میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے)

%d bloggers like this: