مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تاجروں کے مجسمے۔۔۔ رانا محبوب اختر

ماضی کی نئی تفہیم ہوگی؟ یا فوکو کی سوچ کے مطابق نئے قید خانے (panopticon)بنیں گے اور نئے مقتل سجیں گے؟ ہم دیکھیں گے!!

تاجروں کے مجسمے

(جسم استعمار کی کالونی ہے)

جسم استعمار کی پہلی کالونی ہے۔سامراجی سوچ جسم کے اندر بیکٹیریا کی طرح کالونیاں بناتی ہے، بیمار کرتی ہے۔جسم کی سلطنت کو صحت کی بادشاہی درکار ہے کہ راحتیں اور کلفتیں جسم کے جغرافیے میں پلتی ہیں۔درد اور دردِلادوا جسم کی سر دردی ہے۔کھوپڑیوں کے مینار اور قدیم ترین بازار میں جسم، خام مال ہے۔بھجن اور بھوجن کی دنیا جسم سے آباد ہے۔لحنِ داوء دی سے خوانِ نعمت تک،بدن کی اقلیم ہے۔ پاپوش اور پوشاک کے قرینے جسم سے ہیں۔سرخی کا بینر ہونٹوں پہ لہراتا ہے تو سولہ سنگھار سے جسم سنورتا ہے۔رقص کی تہذیب و ترتیب ہے۔ سیم تنوں کی فسوں کاری ہے۔شاعرِانقلاب، جوش،خالق کے معجزے پہ گنگ ہیں:

کس درجہ فسوں کار وہ اللہ غنی ہے

کیا موجۂ تابندگی و سیم تنی ہے

جسم ، روح کی وہ کھڑکی جو دنیا کی طرف کھلتی ہے اور سامراج کا کام اس کھڑکی سے ہوا اور خوشبو کو دور رکھنا ہے۔جسم ، روح کا گملا ہے۔سوچنے والی آزاد روحوں کا آزار دوہرا ہے۔ پہلا ،جسم کو موت ہے، فانی زندگی خوف کے حصار میں رہتی ہے۔ اس لئے دل سے ہوک اٹھتی ہے۔دوسرا، غلام جسموں میں قید آزاد روحیں، مساوات، آزادی اور انصاف کے خواب نہ دیکھیں تو دم گھٹتا ہے،دیکھیں تو دم گھٹتا ہے! ہیملٹ کے کردار کے بارے میں ایک نقاد نے لکھا:” وہ شاہ بلوط کا درخت تھا جو گلاس کے گملے لگایا گیا تھا "۔ بڑی روحیں مگر جسم کا گملا توڑنے کو بے چین رہتی ہیں ! اب کی بار سب الٹا ہو گیا ۔جارج فلائیڈ کے کمزور جسم نے ہمارے جسموں کے طاقوں میں رکھی روحوں کو تڑخا دیا ہے!

جسموں کی تجارت کے لئے "تمھارا جسم ، ہماری مرضی”،استعمار کا منشور ہے۔جسم پر قبضہ زمین یا ملک پر قبضے کی طرح ہے۔جسم ، جاگیر ہے اور میرا جسم ، میری مرضی ، استعماری قبضہ چھڑانے کی بات ہے۔ ناصحو، پند گرو، یہ مطالبہ استعمار کو ناگوار ہے، آپ کیوں چیں بہ جبیں ہوتے ہیں۔جسم کی آزادی اک خواب ہے کہ کمزوروں کے جسم جانوروں کی طرح بکتے ہیں۔افریقی غلاموں کی منڈیاں لگتی تھیں اور جس جگہ یہ کاروبار ہوتا تھا اس جگہ کو "فیکٹری” کہتے تھے۔ان "فیکٹریوں” میں سوداگروں کے انتظار میں آٹھ لاکھ چالیس ہزار بے گناہ لوگ مر گئے۔ پندرھویں صدی سے انیسویں صدی عیسوی تک Atlantic Slave Trade عام تھا.کولمبس نے 1492 میں امریکہ دریافت کیا ۔یہ کام اس نے سپین کے بادشاہ فرڈی نینڈ اور ملکہ آئیسابیلا کے پیسے اور جہازوں سے کیا تھا۔کولمبس نے جو سونا لوٹا، وہ بادشاہ کھا گیا اور مرنے سے پہلے کولمبس ایک خچر پر بیٹھ کر بادشاہ سے مالی مدد مانگنے گیا تھا۔کولمبس کی لاش اشبیلیہ کے القصر میں پڑی ہے۔جس صبح ہم القصر گئے، اسی شام فلیمنگو رقص دیکھا تھا۔ رقاصوں کی ایڑیاں فرش پر مارنے کی آواز اور اداس گیتوں میں مقتول امریکی زمیں زادوں، مسلمان مورز اور مقتول یہودیوں کی سسکیاں سنائی دیتی تھیں۔امریکہ میں کولمبس کا مجسمہ گرنے سے تاریخ کی بازیافت کا امکان پیدا ہوا ہے۔ماضی کو بدلنے کا سندیسہ ملا ہے۔برطانیہ میں ایڈورڈ کالسٹن اور رابرٹ ملیگان کے مجسمے گرے ہیں تو چرچل اور رہوڈز کے مجسمے اپنے انجام کا انتظار کرتے ہیں۔گاندھی کو ننگا فقیر اور انڈیا کے سیاستدانوں کو ٹھگ کہنے والا چرچل، ریاستدان نہیں، ایک سامراجی کردار تھا۔افریقہ سے 12 ملین غلام برآمد کئے گئے۔کئی گورے تاجر گنتی کے لئے غلاموں کے کان کاٹ لیتے تھے۔ جہازوں میں غلاموں کا پنجرہ چار مربع فٹ کا ہوتا تھا۔ دورانِ سفر پندرہ لاکھ جبکہ چالیس لاکھ معصوم انسان افریقہ کے ساحلوں تک لانے میں مارے گئے۔ کیریبئین اور امریکہ کے ساحلوں پر پہنچتے ہی غلاموں کو seasoning camps میں قرنطینہ کیا جاتا اور یہاں وہ بیماریوں سے مر جاتے۔اسی لاکھ غلاموں کو مقامی منڈیوں میں کھپایا گیا۔ چھ لاکھ ایشیائی باشندوں کی تجارت اس کے علاوہ تھی۔لاہور میں ایک منڈی کا نام ہیرا منڈی ہے ۔یہ رنجیت سنگھ کے دوست، ہیرا سنگھ کے نام پر ہے ۔”شاہی محلہ” جہاں درندگی گل بدنی کو تار تار کرتی تھی۔ ایمسٹرڈم کی ڈائمنڈ مارکیٹ میں بھی ہیروں کے ساتھ ساتھ عورت بکتی ہے۔منڈیوں میں بھڑوے اور دلال یہ کام کرتے ہیں۔بادشاہ، گورے تاجر اور آقا، تہذیب کے نام پر یہ کام کرتے تھے!

استعمارکمزوروں کے جسموں کو chattel یا جائیداد اور جانور کی صورت بیچتا رہا۔ انگریزی زبان کے لفظ chattelاور cattle کی جڑ ایک ہے۔chattelلاطینی لفظ capitale یعنی سرمایہ سے نکلا ہے اور قدیم شمالی فرانسیسی میں chattelاور cattle ہم معنی ہیں۔1640میں پہلی مرتبہ افریقی غلاموں کے لئے cattle کا لفظ استعمال کیا گیا۔امریکہ سمیت پوری دنیا کی پولیس کمزور کو جانور سمجھتی ہے۔چھترول،ہتک اور ” پلس مقابلے”، استعماری قانون کے غلاف میں لپٹے ہیں۔خواتین کے بارے میں مرد شاونیت بھی استعماری رویہ ہے۔سامراجی سوچ میں عورت ماں نہیں، اک کم عقل اور بے وفا داشتہ ہے جو مرد کی ملکیت ہے۔ایٹمی دھماکوں سے بچ جانے والے ایک جاپانی یاماگوچی نے کہا تھا کہ دنیا کی حکمرانی ان عورتوں کو زیبا ہے جو چھاتیوں سے اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہوں، جن کے قدموں میں جنت ہے۔جیسنڈا آرڈرن نے یہ بات سچ کر دکھائی ہے!

جارج فلائیڈ کا جسم، ڈیرک شوون کے گھٹنے کے نیچے سرد ہوا، یہ ایک معمولی سا واقعہ تھا ۔جس دنیا میں کروڑوں لوگ زور آوروں کے گھنٹوں کے نیچے بہ مشکل سانس لیتے ہیں اور تاریخ ان کا نام تک نہیں لکھتی،کہ وہ غلام ہیں، وہاں جارج کی موت چہ معنی دارد!!غزنوی اک غلام تھے۔ ملتان کی فتح کے بعد وہ مقامی خواتین اور بچوں کی اتنی بڑی تعداد غزنی کی slave market میں لے گئے کہ غلاموں کی قیمت گر گئی۔نہ جانے غلام بادشاہ بنتے ہی کیوں کر جون بدل لیتے ہیں؟ اسلام نے بندہ و آقا ، کالے اور گورے کی تمیز ختم کر دی مگر عرب تاجروں نے غلاموں کی تجارت کی۔وہ ترک غلاموں کو "مملوک” اور کالے غلاموں کو "عبد” کہتے تھے۔مملوک،ملکیت سے ہے۔”عبد” کا مطلب "غلام” ہے اور غلام لڑکے کو کہتے ہیں۔ ایبک، التتمش اور بلبن غلام تھے !مصر پر 1250 سے 1517 تک ترک مملوک حکمران رہے۔1260 میں عین الجلوت کے میدان میں رکن الدین بیبرس نے منگولوں کو عبرت ناک شکست دی تھی۔ہندوستان میں بھی خاندان_ غلامہ کے بادشاہ منگول قہر سے بچانے میں مددگار ہوئے کہ غلاموں میں بھی عرب اور ایرانی بادشاہوں سی عقل اور طاقت ہوتی ہے۔ ہندوستان میں غلامی ذات پات کے نظام کا حصہ تھی۔شودر اور داسیاں غلام تھے۔ مہاویر، گوتم اور صوفیوں نے انسان کی برابری کے تصور کو عام کیا، مگر غلامی برقرار ہے!

جارج فلائیڈ کے قتل سے کئی گنا بھیانک واقعات افغانستان کے پہاڑوں ، عراق کے صحراؤں اور ویت نام کے جنگلوں میں ہوئے ہیں مگر دنیا کا ضمیر نہیں جاگا۔تو جارج فلائیڈ کے المیے میں ایسا کیا تھا،کہ امریکہ سمیت پوری دنیا کا ضمیر جاگ گیا؟ ہمارے خیال میں تین عوامل نے انسانیت کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑا ہے۔پہلی بات یہ ہے کہ Black Lives Matter دنیا کے تمام مظلوموں کی آواز ہے۔دنیا کے سارے مظلوم جن کا دم extractive ریاستوں کے گھٹنوں کے نیچے رکتا ہے، اونچا بول رہے ہیں۔ دوسرا،کیمرے کی لکھی تاریخ سے جھوٹ اور تعصب خارج ہو گیا ہے۔تیسرا، ٹیکنالوجی اور میڈیا نے دنیا کو ایک گاوں بنا دیا جس میں ہمارا دکھ گوتم سے بڑا ہے کہ ہم نے ایلان کردی کی لاش دیکھی ہے!شکاری کی تاریخ ، جو حکمرانوں کی فتوحات اور کارناموں کا مجموعہ ہے۔تاریخ ، جس کے صفحوں سے خون رستا ہے! مگر اب کیمرے کی آنکھ تاریخ لکھتی ہے۔جھوٹ لکھنا مشکل ہے۔ عام لوگ پہلی بار تاریخ کے صفحات میں جگہ پارہے ہیں ۔ ہاورڈ زن نے امریکہ میں عوامی تاریخ لکھ کر بانی کام کیا تھا۔جارج فلائیڈ اور ریشارڈ بروکس، کیمرے سے لکھی جانے والی عوامی تاریخ کے بڑے شہید ہیں!

تو اے مبصرینِ کرام، استعمار کی تکنیک سے غلاموں کی تاریخ مسخ ہوئی۔جسموں کی تجارت اور روح کا انکار ہوا۔ماڈرن عہد میں انقلابِ فرانس ، امریکی آئین اور روسی کمیونزم نے مساوات اور آزادی کی شمعیں روشن کیں مگر کمزورانسان اب بھی طاقتور کے گھٹنے کے نیچے پڑا کراہتا ہے۔جسم، مقبوضہ ملک ہے۔کمزور طبقے ، جارج کے جسم کی طرح صدیوں سے استعمار کے گھٹنے کے نیچے پڑے ہیں اور استعمار کے گھٹنے کا سارا زور،” تمھارا جسم اور ہماری مرضی”، کو بہ طور پالیسی نافذ کرانے میں لگا ہوا ہے۔کورونا کی تباہی اور جارج کی موت، انسانی جسم کی بازیافت کا دیباچہ بنیں گے؟ ماضی کی نئی تفہیم ہوگی؟ یا فوکو کی سوچ کے مطابق نئے قید خانے (panopticon)بنیں گے اور نئے مقتل سجیں گے؟ ہم دیکھیں گے!!

%d bloggers like this: