مئی 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پتن مینارہ کی کہانی۔۔۔ آصف چغتائی

پتنہ مینارہ ایک اندازے کے مطابق بدھ ازم کے پیروکاروں کے زیر اثر بھی رہا لیکن یہاں کےمقامی باشندے ہندؤں مت مزہب کے پیروکار تھے

پتن مینارہ کی تاریخ پانچ ہزار سال پرانی ہے یہ تہزیب ہاکڑا کا آخری حصہ ہے ہاکڑا تہزیبت اور سندھو تہزب ایک اندازے کے مطابق ایک ساتھ جنم لینے والی تہزیبیں ہیں ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ پانچ ہزار سال قبل مسیح یہ پندرہ کلومیٹر پر محیط ایک شہر تھا جس کے چار دروازے تھے جن میں ایک کا نام ہاکڑا اور دوسرے کا نوشہرہ تھا پورا شہرا ایک چار دیواری سے گھرا ہوا تھا تاریخ کے مطابق اسکا جو آخری بادشاہ جس نے سکندر اعظم سے شکست کھائی اور مارا گیا اس جنگ میں اسکا نام muse kenos تھا یہ اس شہر کا آخری فرمانروا گزرا اسکے بعد یہ شہر سکندر اعظم اور پھر محمد بن قاسم کے حملوں کی زد میں رہا 

پتن مینارہ بنانے کا مقصد ہاکڑا دریا سے گزرنے والی کشتیاں جو یہاں لنگرانداز ہوتی تھی انکا ٹیکس یہاں جمع کیا جاتا تھا اصل میں یہ ایک ٹیکس خانہ تھا پتن مینارہ کی تعمیر بھی بہت دلچسپ ہے اس وقت سیمنٹ کا دور تو تھا نی زیادہ تر لوگ گارے اور اینٹوں سے تعمیر کرتے تھے لیکن پتن مینارہ کے لیے جو گارہ استعمال کیا گیا وہ چاول ،دالوں اور مختلف اجناس سے ملا کر بنایا گیا جسکی وجہ سے اینٹ سے اینٹ اسکی آج بھی جڑی ہوئی ہے ۔

پتن مینارہ سے کچھ فاصلے پر ایک شیو جی کا مندر تھا جو بہت تاریخی تھا یہاں پر مختلف ریاستوں کے راجے اور مہاراجے شیو راتری منانے آتے جس میں راجھستان ۔جئے پور اجمیر اور حتی کے ملتان جیسی قدیم ثقافت کے راجے بھی یہاں تشریف لاتے شیو راتری کے لیے اب یہ مندر مزاہب کی نظر ہو گیا اسکا جو آخری پادری یا متولی گزرا ہے اسکا نام بابا رتنہ جب مسلمانوں نے شیو جی کا مندر توڑا تو بابا رتنہ جو ایک بوڑھا اور جسمانی کمزور انسان تھا مسلمانوں سے لڑ تو نی سکا لیکن اس نے اس جگہ کو چھوڑا اور شہر سے کوئی دو فرلانگ دور نمک نکلتا تھا وہاں جا کر اپنا آدھا جسم دفن کر لیا اور احتجاج کے طور پر کھانا پینا بند کر دیا ۔

مقامی لوگ آئے سمجھنے لیکن اس نے سب کو ایک بات بولی جب مندر اا تہزیب میں دفن ہو گیا تو میں یہاں زندہ رہ کر کیا کرو گا اور آخر بابا رتنہ بھی اپنی مٹی میں مل گیا اس شہر کے گرد ہندؤں کا ایک وسیع قبرستان بھی موجود ہے کچھ ہندؤں اپنے مردوں کو جلاتے نی دفن کرتے ہیں تو وہ یہاں دفن کرتے ہیں جو آج بھی موجود ہے دریائے ہاکڑا کیا روٹھا یہ تہزیب بھی ہم سے روٹھ گئ آج بھی ہاکڑا کا درد ہر مقامی اور روہی باسی آپکو اپنے قصوں کہانیوں اور گانوں میں سناتا ملے گا ہاکڑا یا گھاگھر اس تہزیب کا دیوتا تھا جس کے ختم ہوتے ہی اتنی قدیم تہزیب ملیا میٹ ہوگئ اور اب دور تک پھیلا ریت کا سمندر درد سے چیختا چلاتا ہاکڑا کو آواز دیتا ہے پر ہاکڑا ایسا روٹھا ہم سے کئ صدیاں گزرنے کے بعد بھی ایک بوند پانی کی نی لایا آج بھی روہی کی ریت پیاسی ہے ہاکڑا کے پانی کے لیے ۔

لوکیشن رحیم یار خان سے دس ایک کلومیٹر روہی میں موجود شہر 

روہی چولستان وی تو

جے یار فریدا قبول کرے 

سرکار وی تو سطان وی تو۔۔

پتنہ مینارہ ایک اندازے کے مطابق بدھ ازم کے پیروکاروں کے زیر اثر بھی رہا لیکن یہاں کےمقامی باشندے ہندؤں مت مزہب کے پیروکار تھے

%d bloggers like this: