مئی 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تماشے لگانے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ حیدر جاوید سید

کاش کوئی ”چولیں” مارتے ہوؤں کو یہ سمجھا دے کہ آپ کی ساری باتیں درست لیکن اگر خاکم بدہن عدم احتیاط آپ کو لے ڈوبی تو پچھلوں کا کیا ہوگا؟۔

جمعہ بہت سارے حوالوں سے گرما گرم دن تھا، یہاں لاہور میں درجہ حرارت 45رہا، کورونا بھی جوبن پر ہے، عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کورونا وبا خطرناک مرحلہ میں داخل ہوگئی ہے۔

جمعہ کو اس موذی وبا نے 134افراد نگل لئے، 5567نئے کیسز سامنے آئے۔ مریضوں کی کل تعداد پونے دو لاکھ تک پہنچ چکی

سو یہ مکرر عرض کرنے میں امر مانع کوئی نہیں کہ عوام الناس کو اب بھی اس بات کا احساس نہیں ہے کہ ان کا واسطہ کس طرح کی موذی وبا سے پڑا ہے۔

ملک کے 20بڑے شہروں کے جن سینکڑوں علاقوں میں سمارٹ لاک ڈاون جاری ہے ان میں سے 90فیصد علاقوں میں زندگی کی ریل پیل حسب سابق ہے، احتیاط نام کی کوئی چیز نہیں۔ شہریوں کی اکثریت ماسک لگانے کو توہین سمجھ رہی ہے۔

دنیا بھر میں جہاں لوگ اپنے اور اپنے پیاروں کیلئے زندہ رہنے کی آرزووں کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں ہمارے یہاں صورتحال دیکھ کر لگتا ہے ہم اجتماعی خودکشی پر تلے ہوئے ہیں۔

ان سطور میں غفلت’ نالائقی اور دوسرے معاملات پر درجنوں بار عرض کر چکا انہیں پھر سے دہرانے کی ضرورت نہیں بس فقط ایک بات عرض کرنا از بس ضروری ہے کہ احتیاط نہ کرنے والوں کو اگر کسی مشکل یا سانحہ سے دوچار ہونا پڑے تو ان کے ورثاء کو حکومت اور طبی عملے سے شکایت نہیں کرنی چاہئے۔

یہ درست ہے کہ ہمارے معروضی حالات اٹلی’ برطانیہ اور امریکہ کی طرح کے نہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جس قسم کا خاندانی نظام اور دیگر معاملات ہمارے یہاں ہے اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

کاش کوئی ”چولیں” مارتے ہوؤں کو یہ سمجھا دے کہ آپ کی ساری باتیں درست لیکن اگر خاکم بدہن عدم احتیاط آپ کو لے ڈوبی تو پچھلوں کا کیا ہوگا؟۔

سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف صدارتی ریفرنس خارج اور سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی اور شوکاز نوٹس کو غیرمؤثر قرار دیدیا۔

عدالتی فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ ان کی پراپرٹی کے معاملے پر حتمی فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل کرے گی لیکن اس سے قبل ایف بی آر ازسرنو سات روز کے اندر نئے سرے سے جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کو لندن کی تین جائیدادوں پر نوٹس دے کر نوعیت اور ذریعہ پوچھے گا، نوٹس وصول ہونے کے 75دن میں متعلقہ کمشنر فیصلہ کرے گا اور چیئرمین ایف بی آر 100 دن میں اپنی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکرٹری کو بھجوائے گا جو اسے کونسل کے چیئرمین چیف جسٹس آف پاکستان کو پیش کرے گا۔

چیف جسٹس ہی رپورٹ کی روشنی میں فیصلہ کریں گے کہ مزید کارروائی سپریم جوڈیشل کونسل میں کی جائے یا نہیں۔

جمعتہ المبارک کی سپہر سے اس فیصلے پر بھنگڑے جاری ہیں، “حق آگیا باطل مٹ گیا” کے نعرے ہیں،

متحدہ اپوزیشن نے صدر اور وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کردیا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سارے ”سوار” صرف ان الفاظ پر مست والست ہیں کہ

”ریفرنس خارج اور جوڈیشل کونسل کی کارروائی ختم” باقی کا فیصلہ کسی نے پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کی،

اہم نکتہ یہ ہے کہ ایف بی آر انکم ٹیکس قوانین کے مطابق 5سال قبل کی معلومات نہیں لے سکتا مگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایف بی آر 2004ء اور اس سے قبل کے مالی امور بارے جسٹس فائز کی اہلیہ محترمہ سے معلومات طلب کرے گا جو انکم ٹیکس کے 2001ء کے قوانین کے مطابق ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ عمومی طور پر بینک 10سال قبل کا ریکارڈ نہیں رکھتے ایسے میں کیا ہوگا،

بہرطور خوش آئند بات یہ ہے کہ ایف بی آر کیلئے مدت مقرر کر دی گئی ہے جو ناقابل توسیع ہے۔

مناسب ہوتا کہ اگر ایف بی آر اور بیگم فائز عیسیٰ کے درمیان معاملات قبل ازیں قانون کے مطابق خوش اسلوبی سے طے پاجاتے۔ بدقسمتی سے بعض حکومتی جانبازان ایف سولہ پر سوار تھے اور وہی بعض حوالوں (فیصلے کے بعض نکات) سے حکومت کی سبکی کاذریعہ بنے۔

حکومت کے پاس نظرثانی کی درخواست دینے کا حق ہے، زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ نظرثانی کے مرحلہ میں جانے کی بجائے عدالتی حکم پر ایف بی آر کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔

ایک سوال جو جسٹس فائز عیسیٰ ریفرنس کے فیصلے کے بعد اہل دانش اور قانون دان پھر سے اُٹھا رہے ہیں وہ ادارہ جاتی احتساب کے عمل کے حوالے سے ہے۔

یہ سوال اور اس پر پچھلے برسوں کی طرح کل سے ہوتی بحث کسی کی توہین یا حکم عدولی نہیں بلکہ مہذب دنیا کی عمومی روایات کے مطابق ہے۔

پارلیمان کو آج نہیں تو کل اس سوال پر غور کرنا چاہئے کہ ادارہ جاتی احتساب کا جائزہ لینے کیلئے ایک ایسا ادارہ ہونا چاہئے جس میں بار کونسل’ عدلیہ اورپارلیمان کی نمائندگی ہو اور یہ ادارہ ان تمام اداروں کے احتسابی عمل کا حتمی جائزہ لینے کامجاز ہو جو ہمیشہ سے اس امر پر مصر ہیں کہ ادارہ جاتی احتساب ہی درست ہے۔

اسی طرح ججز کی تقرریوں کے حوالے سے بھی ترقی یافتہ ممالک کے طریقہ کار سے رہنمائی لی جاسکتی ہے،

اس پر معترض افراد اور قوتوں سے یہ دریافت کیا جاسکتا ہے کہ اگر برطانوی ایکٹ آف انڈیا کا 90فیصد حصہ آج بھی ہمارے قانون میں شامل ہے’ مغرب کا پارلیمانی جمہوری نظام بھی ہم اپنائے ہوئے ہیں تو پھر اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری اور احتساب کے عمل میں مغرب کی روایات اپنا لینے میں کیا خرابی ہے؟۔

حرف آخر یہ ہے کہ ہمیں عدالتی فیصلوں کو فیصلوں کی نظر سے دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے، البتہ یہ فیصلہ حکومت وقت اور مستقبل کی حکومتوں کو ایک بات سمجھانے کیلئے کافی ہے کہ اگر ادارے اپنی آئینی وقانونی حدود میں رہ کر آزادانہ طور پرکام کر رہے ہوں تو کسی کیلئے کسی مرحلہ پر سبکی پیدا نہیں ہوتی ناہی بلاوجہ کے تماشے لگتے ہیں۔

%d bloggers like this: