مئی 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے اپنے بیان میں کیا کہا؟

فروغ نسیم کے دلائل مکمل ہونے بعد جسٹس قاضی فائز عیسی نے وڈیو لنک کے ذریعے دس رکنی لارجر بنچ کے سامنے اپنا بیان دیا۔

صدارتی ریفرنس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نےمنی ٹریل بتادی ۔ انہوں نے وڈیو لنک کے ذریعے اپنا بیان قلمبند کرا دیا ۔

برطانیہ میں خریدی گئی تینوں جائیدادوں کی تفصیل عدالت کو فراہم کی ۔

سیرینا عیسیٰ نے بتایا کہ ان کے پاس ہسپانوی پاسپورٹ ہے ۔۔۔

ان کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ 2003 میں بنا جس وقت ان کے شوہر جج نہیں تھے ۔

انہوں نے اپنے فارن کرنسی بینک اکاؤنٹ کی تفصیل اور برطانیہ میں تینوں جائیدادیں خریدنے کی تفصیل سے بھی آگاہ کیا ۔

عدالت نے اہلیہ جسٹس قاضی فائز عیسی کے 2018 کے ٹیکس گوشواروں کا ریکارڈ سیل لفافے میں طلب کر لیا ۔

سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے ایف بی آر کی جانب سے تعاون نہ کرنے کا بھی شکوہ کیا ۔

بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم آپ کے بیان سے مطمئن ہیں فیصلہ متعلقہ اتھارٹیز کریںگی۔

سماعت کے آغاز پر بینچ کے سربراہ نے جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ درخواست گزار جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ عدالت کے لیے قابل احترام ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ درخواست گزار کی اہلیہ اپنا بیان مختصر رکھیں اور اپنے الفاظ کا چناؤ اچھا کریں جس سے کسی کی تضیحک کا پہلو نہ نکلے اور وہ عدالتی ڈیکورم کا خیال رکھیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ان درخواستوں میں فریق نہیں ہیں اور بینچ کے ارکان بیان ریکارڈ ہونے کے بعد اس کا جائزہ لیں گے۔

سرینا عیسیٰ نے بیان ریکارڈ کروانے کا موقع دینے پر عدالت کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ عدالت کی ہدایات پر عمل کرنے کی کوشش کریں گی۔

سکائپ پر اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے انھوں نے کہا کہ الزام لگایا گیا کہ اُنھوں نے جج کے دفتر کا غلط استعمال کیا تو وہ عدالت کو بتانا چاہتی ہیں کہ جب ان کے شوہر وکیل تھے تو انھیں پانچ برس کا پاکستانی ویزا دیا گیا اور جنوری سنہ 2020 میں اُنھیں صرف ایک سال کا ویزا جاری کیا گیا ہے۔

سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وہ کراچی میں امریکن سکول میں ملازمت کرتی رہی ہیں اور ان کے وکیل ان کے ٹیکس گوشوارے جمع کرواتے رہے ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اگرچہ وہ کراچی کی رہائشی ہیں لیکن ان کا ٹیکس ریکارڈ کراچی سے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا اور اس ضمن میں جب ایف بی آر سے ریکارڈ کی منتقلی کا پوچھا گیا تو کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

اُنھوں نے کہا کہ ان کا ٹیکس ریکارڈ کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے سے متعلق ایف بی آر کو دو خط بھی لکھے گئے۔

جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ ہسپانوی شہریت رکھتی ہیں اور خود ان کے پاس بھی ہسپانوی پاسپورٹ ہے.

سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے بارے میں ایسا کیس بنایا گیا جیسے وہ کسی جرم کی ماسٹر مائنڈ ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اُنھوں نے پہلی جائیداد 2004 میں برطانیہ میں خریدی اور اس خریداری کے ان کے پاسپورٹ کو بطور دستاویز قبول کیا گیا تھا۔

اُنھوں نے کہا کہ انھوں نے کراچی میں کلفٹن بلاک چار میں بھی جائیداد خریدی جو کچھ عرصے کے بعد فروخت کر دی گئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ ان کی زرعی اراضی ان کے نام پر ہے اور اس اراضی سے ان کے خاوند کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ یہ زرعی زمین انھیں اپنے والد کی طرف سے ملی ہے اور یہ ضلع جیکب آباد میں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ڈیرہ مراد جمالی بلوچستان میں بھی زرعی زمین ہے اور زرعی اراضی کی دیکھ بھال ان کے والد کیا کرتے تھے۔ سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے وکیل نے اُنھیں بتایا تھا کہ زرعی اراضی ٹیکس کے نفاذ کے قابل نہیں ہے۔

سرینا عیسیٰ کے مطابق انھوں نے اپنے وکیل کے مشورے سے فارن کرنسی اکاؤنٹ کھلوایا تھا۔ بیان کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے فارن کرنسی اکاؤنٹ کا ریکارڈ بھی دکھایا اور کہا کہ انھیں یہ ریکارڈ حاصل کرنے کے لیے بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اُنھوں نے کہا کہ سنہ 2003 سے سنہ 2013 تک اس اکاؤنٹ سے رقم لندن بھجوائی گئی۔ اُنھوں نے کہا کہ جس اکاؤنٹ سے پیسہ باہر گیا وہ ان کے نام پر ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ ایک جائیداد 26 ہزار تین سو پاؤنڈ میں خریدی گئی اور ایک نجی بینک سٹینڈر چارٹرڈ کے فارن کرنسی اکاؤنٹس میں سات لاکھ برطانوی پاؤنڈ کی رقم ٹرانسفر کی گئی اور جس اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر کی گئی وہ بھی ان کے نام پر ہے۔

اُنھوں نے سنہ 2016 لے کر اب تک برطانیہ میں ٹیکس گوشواروں کا ریکارڈ بھی دکھایا۔ سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ برطانیہ نے زیادہ ٹیکس دینے پر ٹیکس ریفنڈ کیا جبکہ اس کے برعکس جب وہ پاکستان میں ایف بی آر سے ریکارڈ لینے گئی تو اُنھیں کئی گھنٹے انتظار کرایا گیا اور محض ریکارڈ لینے کے لیے ایک شخص سے دوسرے شخص کے پاس بھیجا جاتا رہا۔

درخواست گزار کی اہلیہ نے عدالت کو بتایا کہ وہ سنہ 2018 کے مالیاتی گوشواروں میں لندن کی جائیداد کے بارے میں بتا چکی ہیں جس پر عدالت نے ان سے سنہ 2018 میں مالیاتی گوشواروں کا ریکارڈ بند لفافے میں طلب کر لیا۔

بینچ کے سربراہ نے کہا کہ ان کے پاس دو فورم ہیں ایک یہ کہ یہ معاملہ ایف بی آر میں بھیجا جائے اور دوسرا سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے۔ اُنھوں نے درخواست گزار کی اہلیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس سوالوں کے مضبوط جواب ہیں۔

اس پر سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وہ ایک جج کی شریکِ حیات ہیں اور انھوں نے جو جواب دیا وہ قانون کا تقاضا ہے۔ بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عدالت اس حوالے سے ان کے بیان اور جائیداد کی خریداری کے ذرائع کے حوالے سے بھی مطمئن ہیں تاہم اس پر فیصلہ متعلقہ اتھارٹی نے ہی کرنا ہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ سماعت کے دوران درخواست گزار یعنی جسٹس قاضی فائز عیسی نے عدالت کی طرف سے ان کی اہلیہ کی لندن میں جائیداد کے معاملات فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو بھیجنے کی تجویز کی مخالفت کی تھی اور اُنھوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ ان کی اہلیہ ایف بی آر جانے کے بجائے رکنی بینچ کے سامنے اس معاملے کو رکھنا چاہتی ہیں اور اپنا بیان ریکارڈ کروانا چاہتی ہیں۔

وفاق کے وکیل فروغ نسیم نے وزیر اعظم اور صدر مملکت سے مشاورت کے بعد اس معاملے کو ایف بی آر میں بھیجنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

%d bloggers like this: